سید مشرف کاظمی
شہید ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے المناک واقعہ کو 44 سال گزر گئے۔لیکن جو لوگ اپنے وجود سے تاریخ رقم کر تے ہیں وہ ہمیشہ زندہ و تابندہ رہتے ہیں۔ کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو تاریخ کی ان ممتاز ہستیوں میںسے ایک ہیں جنہوں نے 51سال کے مختصر عرصے میں تاریخ کو ایک نیارخ دیا۔ انہیں مختصر سی زندگی میں وہ ممتاز مقام حاصل ہوا۔ انہوں نے اپنے ملک کی خدمت کی اور مظلوم اقوام کو اپنے وژن کے مطابق مستقبل کی ایک نئی دنیا بنانے کی فلسفہ دیا۔ وہ بین الاقوامی برادری میں مظلوم عوا م اور ان کے حقوق کے داعی تھے۔ مشرق و مغرب کے جغرافیائی امتیاز سے بالا تر ہو کر انہوں نے اقوام کی برادر ی میں یہ جذبہ اجاگر کیاکہ تمام اقوام متحد ہو کر مظلوم اور مفلوک الحا ل عوام کی جہدو جہد کوضمانت فراہم کریں۔نا صرف وزیر خارجہ کی حیثیت سے بلکہ وزیر اعظم اور ایک ایسے قائد جس نے پاکستان کو عالمی برادری میں احترم اور انفرادیت کے ساتھ متعارف کرایا اس کا سہرا ذوالفقار علی بھٹو کے سرجاتا ہے۔
شہید بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ کر اور اس کی دستاویزی کے ذریعے پاکستان کے عوام کو اقتدار میں شمولیت کا راستہ دکھایاجس کے باعث ان کی فکر ی اساس پر پیپلز پارٹی جمہوری راستے سے پاکستان کی حکمراں جماعت بنی ہے۔ جو جمہوریت ، غیر استحصالی معیشت ، عوامی حاکمیت اور اسلامی اقدار کی محافظ ہے اور جس نے پاکستان کے عوام کو جدوجہد کے راستے پر گامزن کرتے ہوئے شہادت کے مشن کی طرف مائل کیا۔ اس پارٹی کا عملی تجربہ ناصرف افکار بلکہ عملیت پسندی کی ضمانت بنا۔ یہ جماعت بانی چیئر مین کی شہادت ، شریک چیئر مین محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت اور سیکڑوں نوجوان کارکنوں کی شہادت کا اثاثہ ہے۔
عوام کے قائد جناب ذوالفقار علی بھٹو کا عہد سیاست صرف بارہ سال پر محیط ہے جس میں 6سال ان کے عہد حکومت کے بھی شامل ہیں ان بارہ برسوں کی سیاست میں جناب بھٹو شہید کو وہ غیر معمولی عزت و شہرت نصیب ہوئی جو بڑے بڑے جغادری سیاست دانوںکو برسوں کی کوچہ گردی سیاست کے بعد حاصل ہوتی ہے۔بلاشبہ کروڑوںپاکستانیوں کو سیاست میں صرف جناب بھٹو کی شخصیت ہی نظر آتی ہے جو اپنی عظیم شہادت کے 44برس بعد بھی کروڑوں پاکستانیوںکے دلوں میں زندہ ہے۔ 1967ء میں تاسیس پیپلز پارٹی کے ساتھ ہی بھٹو صاحب کی مشکلات کا آغاز ہوگیا تھا۔ سیاسی جماعت بنانے کے بعد ملک عزیز کے طول و عرض میں بھٹو شہید کو جو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی اس سے ایوبی آمریت تھرتھراگئی پی پی کے انقلابی منشور کو مقتدر قوتوں نے ہمیشہ اپنے خلاف سمجھا ملک عزیز میں پی پی کو کبھی بھی کھلم کھلا کردار ادا کرنے کی اجازت نہ دی گئی ،شہید بھٹو نے اپنی جان اور اپنی اولاد اس ملک پر نچھاور کر دی لیکن پھر بھی مقتدر قوتوں کے سامنے اصولی سیاست کی ہار نہ مانی۔ اپنی سیاسی پارٹی پی پی کی تشکیل کے صرف ڈھائی سال بعد وہ پاکستان کے مقبول ترین سیاستدان اور رہنماءبن گئے۔1970ءکے عام انتخابات میں پی پی نے مغربی پاکستان میں بے مثال کامیابی حاصل کی۔تاریخ عالم میں اتنی قلیل مدت میں ایسی شاندار کامیابی کسی بھی سیاستدان کو حاصل نہ ہو سکی۔
16دسمبر1971ءکی خون آشام شکست کے بعد انہوں نے ایک تھکی ہاری اور شکست خوردہ قوم کی رہنمائی کی انہوں نے بچے کھچے پاکستان کو صرف 6سال میں مستحکم اور مضبوط ملک بنا دیا۔ انہوں نے نہایت پامردی ہمت اور بلند حوصلگی سے اپنے فرائض سرانجام دیئے۔20دسمبر 1971ءکو ٹوٹے پھوٹے پاکستان کا اقتدار سنبھالا۔ ان کا عہد اقتدار 4جولائی 1977ءتک محیط تھا۔ اس دور میں ملکی ترقی کے بہت سے منصوبے شروع ہوئے اور پایہ تکمیل کو پہنچے۔ مملکت خداداد کے تمام کلیدی ادارے بھٹو کے عہد حکومت میں ہی تشکیل پائے۔ ان منصوبوں میں سر فہرست پاکستان کا جوہری پروگرام پاکستان سٹیل ملز معیشت کی بحالی تعلیمی اداروں کا وسیع جال میڈیکل کالجز زرعی اصلاحات انگریزی خطابات کا خاتمہ محنت کشوں کا تحفظ عوامی سیاسی شعور کی بیداری اور افرادی قوت کی بیرون ملک برآمدشامل ہیں ان کے دور حکومت میں ہی مملکت کو ایک متفقہ آئین 1973ءنصیب ہوا۔ ان ہی کے دور حکومت میں90سالہ قایادنی مسئلہ بھی حل کیا گیا۔ملک میں پہلی بار شناختی کارڈ کا اجراءکر کے پاکستانیوں کو شناخت دی گئی۔ الغرض ملکی تعمیر و ترقی کا ایک نیا سفر شروع ہوا۔
قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو خارجہ امور کے بہترین ماہر تھے۔ وہ صرف تیس سال کی عمر میں پاکستان کے وزیر خارجہ بن گئے۔ وہ ماہر سیاست دان اور قادر الکلام خطیب تھے۔ لاکھوں انسانوںکے اجتماع سے گھنٹو ں خطاب کرتے۔انہوں نے متعدد بار پاکستان کی نمائندگی کی چین ایران انڈونیشیاءاور عرب ممالک سے روابط کا اہتمام کیا۔ امریکہ چین تعلقات کو بہتر بنانے میں خصوصی کردار ادا کیا پاک چین لازوال دوستی کا آغاز انہی کے عہد میں ہوا۔ مسلم امہ کی یک جہتی کیلئے انتھک کوشش کی۔ عرب دنیا کو تیل کی دولت کی افادیت بتائی۔سعودی عرب سے خصوصی تعلقات قائم کیے۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کی کامیابی کیلئے بہت جد و جہد کی۔1974ءمیںلاہور دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کا پہلا اور آخری کامیاب انعقاد کرایا۔ اس کے بعد اسلامی سربراہی کانفرنس کا ایسا انعقاد آج تک نہ ہو سکا۔ مسٹر بھٹو کے عہد حکومت میں پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی اپنے عروج پر تھی۔ بھٹو کی تشکیل کردہ خارجہ پالیسی کے رہنماءاصول آج بھی ملکی خارجہ پالیسی کیلئے مینارہ نور کی حیثیت رکھتے ہیں۔