جبار مفتی
جنگ ستمبر 1965ء کے بارے میں پاکستان بھر میں یہ رائے مستحکم تھی کہ ہماری مسلح افواج نے اپنے سے بڑی بھارتی فوج کو شکست سے دو چار کر کے تاریخی کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ سترہ روزہ جنگ کا اختتام فائر بندی پر ہوا پھر پتہ چلا کہ روس میں پاکستان اور بھارت کے سربراہان کااجلاس ہورہا ہے۔ تاشقند میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کیلئے پاکستان سے صدر ایوب خان ، وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اورسکرٹری خارجہ عزیز احمد روس میں ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند گئے۔ روس میزبان بھی تھا اور صلح جویانہ کردار بھی ادا کر رہا تھا۔ قبل ازیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 23 ستمبر 1965ء کی فائر بندی قرارداد پر عملدرآمد شروع ہو چکا تھا۔ بھارت کی طرف سے وزیر اعظم لال بہادر شاستری اپنے وزیر خانہ سردار سورن سنگھ کے ساتھ مذاکرات میں شریک تھے۔ 10 جنوری1966ء کو معاہدہ تاشقند پر دستخط ہوگئے۔ جس کے تحت دونوں ملکوں نے اپنی افواج کو 5 اگست 65ء کی پوزیشن پر واپس لیجانا تھیں۔ بھارت میں اس معاہدے پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ معترضین کو اعتراض تھا کہ اس معاہدے میں پاکستان کو کشمیر (مقبوصہ) میں چھاپہ مار کارروائیوں (گوریلوجنگ) سے نہیںروکا گیا تھا جو اس جنگ کا باعث بنی تھیں۔ اگلے ہی دن بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری وہیں تاشقند میں اچانک انتقال کر گئے۔ بھارتی وزیراعظم کا دل اتنی بڑی خوشی کو برداشت نہ کرسکا۔ معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے جو تصویر شائع ہوئی اس میں صدر ایوب خان اور وزیراعظم لال بہادر شاستری تو سر جھکائے دستاویزات پر دستخط کر رہے ہیں جبکہ معاہدے کے ضامن روسی وزیراعظم کوسیگن پاکستان اور بھارت کے وفود پیچھے کھڑے ہیں۔ ان میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو افسردہ دسکھائی دے رہے تھے۔یہی وہ نکتہ آغاز تھا کہ جس پر ملک بھر میں تاثر یہ اْبھرا کہ میدان میں جیتی گئی جنگ مذاکرات کی میز پر ہار دی گئی۔
ملک واپسی پر گورنر ملک امیر محمد خان نے بھٹو کو گورنر ہاؤس میں مدعو کیا۔ ظہرانہ دینے کے ساتھ ساتھ انہیں تاریخی تلوار پیش کی۔ تاثر یہ ملا کہ گورنر تاشقند میں بھٹو کی کارکردگی کے معترف ہیں اور ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پھر بھٹو صاحب نے اس سال کے وسط میں وزارت خارجہ چھوڑدی اور خاموشی سے بیرون ملک چلے گئے۔ جب ان کے لاہور آنے کا اعلان ہوا۔ وہ بذریعہ ٹرین راولپنڈی سے روانہ ہوئے واحد ایم این اے غلام مصطفی کھر خدا حافظ کہنے آئے۔ عوام کا جم غفیر ان کے استقبال کیلئے لاہور ریلوے سٹیشن پرموجود تھا۔ عوام نے کندھوں پر اٹھا کر انہیں وزارت سے سیاست کی تند و تیز لہروں میں اتار دیا۔ بڑے جذباتی مناظر تھے، میڈیا کا ہر دوسرا سوال معاہدہ تاشقند سے متعلق تھا ۔ بھٹو ٹالتے رہے ، گول مول جوابات سے سمجھا گیا کہ معاہدہ تاشقند کے علاوہ بھی بہت کچھ خفیہ خفیہ طے پایا ہے جس سے متعلق عوام کو نہیں بتایا جارہا۔ تاشقند کے خلاف نعرے لگنے لگے۔ طلبہ مظاہرے کرنے لگے۔ صدر ایوب خان آناً فاناً ’’ایوب کتا‘‘ ہو گئے۔ لاہور کے موچی دروازے میں بھٹو صاحب کے جلسے کا اعلان ہوا۔ انہیں گرفتار کر لیا گیا تو یہ تاثر مزید مضبوط ہوا کہ حکومت عوام کو اندھیرے میں رکھنا چاہتی ہے۔
ایئر مارشل اصغر خان کو 1965ء کی جنگ کا ہیرو سمجھا جاتا تھا وہ جنگ سے پہلے ہی ریٹائر ہو چکے تھے اور ان کی جگہ ائر مارشل نور خان نے جنگ میں پاک فضائیہ کی قیادت کی تھی مگر سمجھا یہی جارہا تھا کہ جس فضائیہ کی قیادت کرتے ہوئے بھارت کو شدید نقصان پہنچایا گیا اسے تیار اصغر خان نے کیا تھا۔ بھٹو کی پارٹی کے لئے احتجاجی تحریک شروع ہو گئی۔ لاہور کے موچی دروازے میں ائر مارشل (ر) اصغر خان کے جلسے کا اعلان کر دیا گیا۔ شورش کشمیری میزبان تھے۔ اسی روز لاہور میں ہڑتال ہو گئی ، پبلک اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹ بند ہو گئی۔ پھر بھی موچی دروازے کا گراؤنڈ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ شورش کے بعد جب اصغر خان مائک پر آئے تو عوام کے فلک شگاف نعروں میں انہوں نے جیب سے کاغذ نکالا اور انگریزی ، پشتون ملے جلے لہجے میں ٹوٹی پھوٹی اْردو میں بتایا کہ انہیں تقریر کرنی نہیں آتی۔ انہوں نے شورش کشمیری کو اپنا اْستاد بنالیا کہ آہستہ آہستہ سیکھ جائیں گے۔ پھر انہوں نے لکھی ہوئی تقریر اٹک اٹک کر پڑھی۔ عوام کو بھٹو رہائی تحریک زور شور سے جاری رکھنے کو کہا اور توقع ظاہر کی کہ آمریت کی سیاہ رات جلد ختم ہو جائے گی۔ بھٹو جلد عوام میں آکر ان کی قیادت کریں گے اور معاہدہ تاشقند کے راز افشاء ہو کر رہیں گے۔ بھٹو رہا ہوئے تو ان کے ساتھ پورا تھنک ٹینک تھا۔ عوام کے دل کے تار چھیڑنے سے وہ خوب واقف تھے ۔ ان کا روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ غریب عوام کو بھاگیا ، پیپلز پارٹی نے سوشلزم ہماری معیشت کا نعرہ لگایا تو اسلام پسند حلقے اس سے دور گئے۔ 1970ء تک پہنچتے پہنچتے ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی پاکستان پیپلز پارٹی غریبوں کے مقبول ترین جماعت بن چکی تھی وہ خود کہتے تھے ’’جس گھر کی چھت بارش میں ٹپکتی ہے، اس گھر میں بھٹو رہتا ہے‘‘۔ پیپلز پارٹی اور عوامی لیگ دو بڑی جماعتیں آگے آگے تھیں قسمت دیکھئے کہ یہی دونوں جماعتیں انتخابات میں ووٹوں کی بھاری اکثریت کے ساتھ سرخرو ہوئیں ۔
جنرل یحییٰ کے دور صدارت میں ملک دو لخت ہو گیا ، 19 دسمبر 1971 ء کو بھٹو صاحب نے یحییٰ خان سے اقتدار حاصل کیا اور تاریخ میں پہلے سویلین چیف مارشل اور ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے کرسی سنبھالی۔ پھر وہ صدر پاکستان بن گئے۔ 1973ء کے آئین کی منظوری تک وہ صدر مملکت کے طور پر فرائض انجام دیتے رہے پھر وہ دستور کے مکمل نفاذ پر وزیر اعظم پاکستان بن گئے۔ مئی 1978ء میں روزنامہ نوائے وقت ملتان کی اشاعت کا آغاز ہوا تو میں اْس کی ٹیم میں شامل تھا۔ ان دنوں بھٹو صاحب پر قتل کا مقدمہ چل پڑا تھا۔ می مقدمے کا آغاز سیدھا ہی لاہور ہائی کورٹ سے ہوا ، جہاں انہیں سزائے موت سنادی گئی۔ اب اپیل سپریم کورٹ میں چل رہی تھی۔ وہ بھی مسترد ہو گئی تو انتظار تھا کہ اب کیا ہوگا۔ صرف رحم کی اپیل رہ گئی تھی۔ بھٹو صاحب اس کے حق میں نہیں تھے مگر ان کی اہلیہ امیر بیگم نے رحم کی اپیل صدر جنرل ضیاء الحق سے کر دی۔ دفتروں میں ، گھروں میں ، بازاروں میں ہر جگہ ایک ہی موضوع زیر بحث و تبصرہ رہتا تھا کہ بھٹو کا کیا ہوگا؟ پیپلز پارٹی زیر عتاب تھی ۔ ایک فلر ان دنوں بڑے تسلسل سے زبان زد خاص و عام تھا کہ ’قبر ایک ہے اور مردے دو‘‘۔ دیکھیں کون قبر کے اندر دفنایا جاتا ہے۔ اگر ضیاء الحق نے بھٹو کو چھوڑ دیا تو بھٹو نے ضیاء کو نہیں چھوڑنا۔ اخبار کے دفتر میں ہر طبقہ فکر اور شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ آتے ہیں اور اپنے اپنے خیالات پہنچاتے ہیں۔ جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن بھٹو صاحب سے بہت نالاں تھے اور ابتدا ء میں وہ ضیاء الحق کو نجات دہندہ سمجھتے تھے اس لئے وہ بھٹو کی پھانسی کا مطالبہ کرتے دکھائی دیتے تھے۔اخباری بیانات میں علم الاعداد کا بھی خوب چرچا تھا کہ چار کا ہندسہ بھٹو پر بھاری ہے۔ اس لئے اگر انہیں پھانسی ہوئی تو چوتھے مہینے کی چار تاریخ کو صبح چار بجے تک ہوگی ورنہ نہیں ہوگی۔بھٹو صاحب کو پھانسی ہونے والی تھی۔ اب ضمیمے وغیرہ بھی تیار ہونے لگے تھے۔ پھانسی کے ساتھ ہی پھر ہوا یوں کہ سب سے پہلے ہمارا ضمیمہ (سپلیمنٹ) شائع ہوا اور ہاتھوں ہاتھ فروخت بھی ہو گیا۔ بعد میں چھپنے والے مختلف اخبارات کے ضمیمے پڑے رہ گئے۔