عترت جعفری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیر مین اور سابق وزیر آعطم کا یوم شہادت آج منایاجا رہا ہے ، ،، شہید کو دار فانی سے گزرے ہوئے چار دہائیوں سے زائد معیاد گزر چکی ہے، ان کے خلاف سازش کرنے والے ، قانونی جواز کے بغیر مقدمہ کی تفتیش کرنے والے ، سزائیں سنانے والے ہیں، پھانسی کی سزا دینے کے حق میں دلائل کے انبار لگانے والے ، زیر دفعہ 109 میں سزائے موت سنانے والے ، اس سزا پر رات کی تاریکی میںعمل کرانے والے ، عوام کی شرکت کے بغیر ان کی نماز جنازہ اور خاموشی سے دفن کر دینے والے اب اس دنیا سے جا چکے ہیںاور اپنے کئے کے حساب کیلئے اللہ تعالی کے روبرو پیش ہیں، ذوالفقار علی بھٹو شہید کا قتل ایک ایسا معاملہ ہے جسے دلخراش یادوں سے کبھی محو نہیں کیا جا سکا، اس نے ہماری سیاست ، عدالت، ریاست پر انمٹ نقوش چھوڑے ، ان کی یاد کو ان کیساتھ محبت کرنے والوں کی سوچ سے مٹایا نہیں جا سکا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ذوالفقار علی بھٹو شہید کے مزار پر جانے والوں کا تانتا بند ھارہتا ہے، مگر انہیں جسمانی طور پر ختم کرنے والوں کی اکثریت کے بارے میں کوئی جانتا بھی نہیں کہ وہ کہاں دفن ہے۔ ملک کی تاریخ میں یہ بھی واقعہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ریفرنس کے دائر کیا تھا جو کئی سال تک زیر سماعت رہا اور کئی چیف جسٹس تبدیل ہوئے ،، یہ شرف چیف جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کے بنچ کے مقدر میں لکھا ہوا تھا کہ وہ ایک عدالتی نا انصافی کے حوالے سے رائے ظاہر کریں، یہ معاملہ 10 سال سے زیادہ عرصہ تک لٹکا رہا بہرحال اس کی شنوائی ہوئی ، عدالت عظمی کے بینچ نے قرار دے دیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے، سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد اب اس بات کی ضرورت ہے کہ ان کے خاندان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا ریاست کی سطح پرازالہ کیا جائے ، ملک کے کرنسی نوٹوں میں سے کسی ایک نوٹ پر ذوالفقار علی بھٹو کی تصویر شا ئع ہونا چاہیے، اس کے علاوہ ملک کے مختلف ایئرپورٹس یا اداروں میں سے چند کو شہید کے نام سے منسوب کر دینا چاہیے۔ کیونکہ آج کے پاکستان پر ذوالفقار علی بھٹو کے بے حد احسانات ہیں۔ یہ قائد اعظم محمد علی جنا ح کے بعد اب ذوالفقار علی بھٹو کا پاکستان ہے، ذوالفقار علی بھٹو کی سفارتی اور سیاسی امور میں دسترس، عالم اسلام کو متحد کرنے اور سیاسی اور معاشی طور پر ایک قوت بنانے ، عوام کے نبض شناس ہونے کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ ان کی زندگی ہی میں ان کے طرز سیاست، اور کامیابیوں کو گہنانے کے لیے جھوٹی داستانیں جان بوجھ کر پھیلائی گئیں۔ گوئبل کے چیلوں نے شہید کی شخصیت کو دھند لانے کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں لکھا ؟' ادھر ہم اور ادھر تم 'کے نعرے کے ساتھ ساتھ الزامات اور جھوٹی داستانوں کا پرچار کیا گیا ،وقت کی پیدا کی گئی گرد اب بیٹھ چکی ہے اور تمام منظر صاف ہو چکا ہے، اس ملک کا بچہ بچہ یہ جانتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ان کا یہ وصف کیا کم ہے کہ آج بھی بھٹو شہید کے نعرے گونجتے ہیں، ہندوستان سے اپنے علاقوں کو واگزارکرانا ،جنگی قیدیوں کو بھارت سے واپس لانا، پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا، ملک کو ایٹم بم سے ناقابل تسخیر بنانا، ان گنت ادارے قائم کرنا، آج کے پاکستان کے کونے ، کونے میں ذوالفقار علی بھٹو شہید کے نشانات موجود ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو شہید کے مدبرانہ معاشی فیصلوں نے اس ملک کے غریب طبقات کو تحفظ کا احساس دیا، آج اس وقت جب معاشرے کے اندر ایک ظلم کی لہر پھیلی ہوئی ہے، غریب طبقات پسے ہوئے ہیں، اس ماحول کے اندر بھی آج کے غریب کو اگر کچھ ریلیف ملتا ہے تو اس کی سب سے بڑی شہادت خود ذوالفقار علی بھٹو کے غریب پرور اقدامات ہیں،جن سے آج تک بڑے سے بڑا خود سر حکمران بھی راہ فرار اختیار نہ کر سکا ۔ملک میں مفت تعلیم کیلئے اقدامات ، نجی شعبے میںپنشن کانفاذ،سوشل سکیورٹی،مزدوروںکسانوںکے حقوق کی ترجمانی،صنعتی و اخباری کارکنان کے تحفظ کیلئے قانون سازی یہ سب بھٹو دور کی اصلاحات ہیں۔ گلگت بلتستان کو ہی دیکھ لیں ، اس خطے میں روٹی آج بھی سستی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے گلگت بلتستان کے لیے گندم پر سبسڈی کو منظور کیا اور بڑی کوشش کی گئی کہ اس سبسڈی کو ختم کیا جائے، مگر خطے کے عوام کو آج بھی یہ سبسڈی مل رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹوکے معاشی فیصلوں نے دوررس اثرات مرتب کیے، ملک کے غریب عوام کو سستی اشیاء فراہم کرنے کے لیے یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن قائم کی گئی، جو اس وقت ہزاروں سٹورز پر مشتمل عظیم ادارہ ہے۔ اگر اس ادارے کو درست طور پر استعمال کیا جائے اور اچھی قیادت دی جائے تو یہ ملک کے 70 فیصد عوام کو معیاری چیزیں فراہم کرنے کا بہترین ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس ادارے کے اندر افراط زر کے خلاف ایک ڈیٹرنٹ فراہم کرنے کی صلاحیت موجود ہے، مزدور کو حق دیا گیا، ادارے کے منافع میں اسے حصہ دار بنایا گیا، مزدور کی ملازمت کو تحفظ دیا گیا، اجتماعی سوداکاری کا تصور دیا گیا، محنت کش طالب علم کو تنظیم سازی کا حق دیا گیا، محنت کشوںکے لیے بیرونی دنیا کے دروازے کھولے گئے۔ملک کے اندر جدیدیت کی جو پہلی لہرآئی تھی وہ بیرون ملک جانے والے ان محنت کشوں کی وجہ سے تھی، ملک کے عوام انہی محنت کشوں کی بھیجی ہوئی رقوم کی وجہ سے خوشحال ہوئے، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے معاشی تصور میں مساوات بنیادی عنصر کے طور پر موجود تھی، اس کا مقصد یہ تھا کہ مزدوروں کو احساس دلانا کہ وہ مالک ہیں، وہ جس ادارے میں بھی کام کر رہے ہیں اس کو خوشحال بنائیں گے تو ان کو زیادہ آگے بڑھنے کا موقع ملے گا، ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے ادارے قومیانے کی پالیسی پر اکثر نکتہ چینی کی گئی ہے،زوال کی وجہ مزدور یا محنت کش نہیں تھے، جو ادارے قومیاے گیے ان میں وقت کے ساتھ ساتھ ایسے افسر اور ایسے عناصر داخل ہو گئے جن کا مقصد خدمت کی بجائے اپنی ذاتی جیبیں بھرنا تھا، جس کی وجہ سے یہ ادارے ناکام ہوئے، اس قسم کے ادارے تو بعد میں بھی بہت سے قائم ہوئے، پھر وہ کیوں ناکام ہوئے، یعنی ان کا مسئلہ مزدور یا محنت کش نہیں ہوتے بلکہ ان سے کام لینے والے ہیں وہ افراد ہوتے ہیں جو ذاتی مفاد کے لیے بیرونی مداخلت کی راہ ہموار کرتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو شہید کے معاشی فیصلوں کی وجہ سے دولت کی منصفانہ تقسیم کی جانب پیش رفت ہوئی تھی ، پیسہ کمانا کوئی بری بات نہیں ہے، لیکن دولت کا رخ چند خاندانوں کی طرف مڑ جانا تشویش کی بات ہے، آج بھی اگر ملک کی آبادی 70 فیصد غریب ہے تو اس کی وجہ یہی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے، جسے ختم کرنا ہوگا۔پاکستان کو ایک بار پھر ذوالفقار علی بھٹو کے وژن کی ضرورت ہے، اس وقت بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ میں ان کی پارٹی کا پرچم ہے، بلال بھٹو زرداری کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ پارٹی لیڈرشپ کو عوام کے ساتھ براہ راست رابطہ رکھنے پرمجبور کریں ایسے تمام لیڈروں کو سائیڈ لائن کیا جائے جو صرف ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر سیاست کو کرنا چاہتے ہیں۔
بھٹو شہید، غریب طبقات کے حق میں انمٹ شہادت
Apr 04, 2024