اپریل کی سفاکی اور استحکام نامی شئے کا فقدان

بدھ کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ 2024ء کے اپریل کی آج 3تاریخ ہے۔ اپریل سے یاد آیا کہ اس مہینے کا آغاز ’’اپریل فول‘‘سے ہوتا ہے۔ انگریزی کا مگر ایک بہت ہی تخلیقی شاعر تھا۔ نام تھا اس کا ٹی ایس ایلیٹ۔ اس کی ایک مشہور نظم کی ابتدائی سطر اپریل کو ظالم ترین مہینہ قرار دیتی ہے۔ 4اپریل 1979ء کا سوچتا ہوں تو ایلیٹ درست سنائی دیتا ہے کیونکہ اس دن ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکادیا گیا تھا۔ موصوف پر قتل کا الزام تھا۔ کئی دہائیاں گزرنے کے بعد مگر سپریم کورٹ آف پاکستان نے اب دریافت کرلیا ہے کہ سابق وزیر اعظم کے ساتھ ’’انصاف‘‘ نہیں ہوا تھا۔
انصاف ہی سے یاد آیا کہ غالباََ 2007ء کے برس میں بھی اسی ماہ کے دوران افتخار چودھری کو چیف جسٹس سپریم کورٹ کی حیثیت میں ایوان صدر بلواکر جنرل مشرف نے استعفیٰ طلب کیا تھا۔موصوف نے انکار کردیا اور عدلیہ آزادی کی تحریک پھوٹ پڑی۔ اس تحریک کے انجام پر افتخار چودھری تو اپنے منصب پر بحال ہوگئے۔ میرے اور آپ جیسے عام پاکستانیوں کو کیا ملا؟ اس حوالے سے سوچوں تو ’’قلب کو گرمانے‘‘والے عدلیہ تحریک کے سب مہینے رائیگانی کا سفر محسوس ہوتے ہیں۔اپریل 2022ء میں بھی نہایت ڈرامائی مراحل کے انجام پر عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تھی۔ وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد مگر بانی تحریک انصاف اپنے دعوے کے مطابق مزید ’’خطرے ناک‘‘ ہوگئے اور ابھی تک غضب ناک ہوئے کسی سمجھوتے یا لچک دکھانے کو آمادہ نہیں ہیں۔
ستاروں کی چال پر نگاہ رکھنے والے خواتین وحضرات 2024ء کے اپریل کو دنیا کے لئے ’’مشکل‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ اس مہینے کا آغاز غالباََ سورج گرہن سے ہوا ہے۔اس کے بعد مریخ نام کا سیارہ کسی ایسے سیارے سے اس انداز میں ملے گا جو نحس شمار ہوتا ہے۔علم نجوم کی اصطلاحات کی وساطت سے بیان کردہ اکثر تفصیلات اگرچہ میری سمجھ میں نہیں آئیں۔ دو تین ستارہ شناسوں کے یوٹیوب چینل دیکھ کر تاہم ’’مشتری ہوشیار باش‘‘ کا پیغام مل گیا ہے۔ 9اپریل کو اس ضمن میں اہم ترین بتایا گیا ہے۔ ہمارے ہاں اگرچہ اس دن سے خدا کا شکر ہے لوگ عید کی تیاریوں میں مصروف ہوجائیں گے۔
جس دن اٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں اس روز چیف جسٹس فائز عیسیٰ صاحب اپنا منصب سنبھالنے کے بعد پہلی بار کسی معاملے کا ازخود جائزہ لے رہے ہوں گے۔وہ اس امر کو نظر بظاہر آمادہ نہیں تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6ججوں کی جانب سے لکھے ایک خط نے مگر انہیں ازخود نوٹس والے راستے پر ڈال دیا۔ فل کورٹ کے اجلاس کے دوران ان کی تمنا تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں نے جس ریاستی دبائو کا الزام لگایا ہے اس کا جائزہ حکومت کا بنایا ایک کمیشن ہی لے۔ ’’تمہی نے درد دیا ہے تمہی دوا دینا‘‘ والا فارمولا۔ چیف جسٹس صاحب کے چند عزت مآب ساتھیوں کو تاہم یہ فیصلہ پسند نہیں آیا۔ 300سے زیادہ وکلاء نے بھی ایک خط کے ذریعے مطالبہ کردیا کہ سپریم کورٹ ہی ہائی کورٹ کے ججوں کی جانب سے لگائے الزامات کا جائزہ لینے کے بعد عدالت کی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے کچھ اقدامات کا تقاضہ کرے۔وہ خط منظر عام پر آگیا تو حکومت اور سپریم کورٹ کے مابین مشاورت کی بدولت بنائے کمیشن کے مجوزہ سربراہ جسٹس (ریٹائرڈ) تصدق حسین جیلانی صاحب نے مذکورہ بندوبست کی سربراہی سے معذرت کرلی۔ سپریم کورٹ ہی اب اپنے جونیئر ججوں کو بلاخوف وخطر فراہمی انصاف کے قابل بنائے گی۔ اس ضمن میں ازخود کارروائی کے دوران کئی ’’سخت مقام‘‘ بھی آسکتے ہیں۔ میں ان کے بارے میں سہمے دل کے ساتھ قیاس آرائی سے گریز کو ترجیح دونگا۔ انتظار کرلیتے ہیں کہ ازخود کارروائی کی گیم کیسے کھلتی ہے۔
وقتی طورپر اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6ججوں کی جانب سے لکھے خط کی وجہ سے اٹھے بحران کو نظرانداز کرنے کے باوجود اس حقیقت سے  انکار ممکن نہیں رہا کہ ہمارے ہاں ایک بار پھر یہ ثابت کرنے کی کوشش ہورہی ہے کہ 1973ء میں ’’متفقہ طورپر‘’‘ منظور ہوا آئین دورِ حاضر میں اٹھارہویں ترمیم کے اضافے کے باوجود قابل عمل نہیں رہا۔ 18ویں ترمیم 2020ء کے برس میں طویل مشاورت کے بعد طے ہوئی تھی۔ میرے محترم دوست رضا ربانی اس کمیٹی کے سربراہ تھے جس میں ان دنوں پارلیمان میں موجود عام سیاسی جماعتوں کے نمائندے موجود تھے۔ اس کمیٹی نے آئین کی تمام شقوں کا باریک بینی سے کئی مہینوں تک جائزہ لیا تھا۔ 2022ء کے اپریل کے بعد سے مگر یہ دریافت ہونا شروع ہوا کہ ہمارا تحریری آئین آج بھی کئی اہم سوالات کے بارے میں اگر خاموش نہیں تو ابہام کی فضا ضرور بناتا ہے۔ معاملات کو سلجھانے لہٰذا عدالتوں سے رجوع کرنا لازمی ہوجاتا ہے۔عدالت اپنے روبرو آئے معاملے کے تناظر میں آئین کی جو تشریح کرتی ہے وہ اندھی نفرت وعقیدت میں منقسم معاشرے کے کسی ایک فریق کو پسند نہیں آتی۔ مرغے کی ٹانگ لہٰذا ایک ہی رہتی ہے۔
’’آئین اور قانون‘‘کے اطلاق ہی نے نظر بظاہر تحریک انصاف کو بلے کے انتخابی نشان سے محروم کیا۔ اس سے محروم ہوجانے کے باوجود وہ اپنے ووٹ بینک سے محروم نہ ہوپائی۔ اس کا ووٹ بینک بلکہ مزید توانائی سے 8فروری2024ء کے دن ہمارے روبرو آیا ہے۔ 8فروری 2024ء کے دن تحریک انصاف کی صفوں میں توانائی کی جو لہر ابھری اس نے مذکورہ جماعت کو خیبرپختونخواہ میں صوبائی حکومت کے قیام کے قابل بنایا۔ علی امین گنڈاپور وزیر اعلیٰ ہوئے۔ لچک ان کی فطرت میں شامل نہیں۔ ڈٹے ہوئے ہیں کہ ان خواتین اور اقلیتی نمائندوں کو صوبائی اسمبلی کی رکنیت کا حلف لینے نہیں دیں گے جن کے انتخاب کا اعلان الیکشن کمیشن کرچکا ہے۔ صوبائی اسمبلی ان کے بے لچک موقف کی وجہ سے اصولی طورپر ’’نامکمل‘‘ ہے۔ چونکہ وہ ’’مکمل‘‘ نہیں تھی اس لئے منگل کے روز اپنے صوبے کے ایوان بالا کے لئے نما ئندے نہیں چن پائی جبکہ وفاق اور پاکستان کے دیگر صوبوں میں یہ عمل مکمل ہوچکا ہے۔
ایوان بالا یا سینٹ ہمارے تحریری آئین کے مطابق وفاق پاکستان کی علامت ہے۔ وہاں قومی اسمبلی کے برعکس تمام صوبوں کو مساوی نمائندگی میسر ہے۔اسی باعث قومی اسمبلی سے منظور ہوا قانون سینٹ بھی بھیجا جاتا ہے تاکہ دیگر صوبوں میں یہ تاثر نہ ابھرے کہ قومی اسمبلی میں موجود اکثریتی صوبے یا صوبوں کے نمائندوں نے باہم مل کر چھوٹے صوبوں کے جذبات وحقوق کا خیال نہیں رکھا۔
ہمارے نام نہاد ’’تحریری‘‘آئین میں ایسی کوئی شق موجود نہیں جو علی امین گنڈا پور صاحب کو صوبائی اسمبلی کا اجلاس بلانے کو مجبور کرے تاکہ وہ خواتین اور اقلیتی اراکین کے حلف ہوجانے کے بعد’’ مکمل‘‘ ہوجائے اور ایوان بالا میں اپنے نمائندے بھیج سکے۔ ’’وفاق کی علامت‘‘ یعنی سینٹ ایک حساس ترین صوبے یعنی خیبرپختونخواہ کی نمائندگی کے بغیر غیر فعال رہے گا۔ اس کی وجہ سے قانون سازی کا عمل بھی کئی روز تک معطل رہ سکتا ہے۔عدالتوں سے لہٰذا ایک بار پھر رجوع کرنا ہوگا اور وہاں سے آیا فیصلہ کسی ایک فریق کو مزید آتش پا بنادے گا۔یوں اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم جاری رہے گی اور ’’استحکام‘‘ نامی شے ہمیں میسر نہیں ہوپائے گی۔

ای پیپر دی نیشن