اسلام آباد‘ لاہور (خصوصی رپورٹر+ اپنے سٹاف رپورٹر سے+ نامہ نگار + این این آئی+ نوائے وقت رپورٹ) چیف جسٹس سپریم کورٹ سمیت5 ججز جبکہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سمیت بھی 5 ججز کو دھمکی آمیز خط موصول ہو گئے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی دھمکی آمیز خط موصول ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق چیف جسٹس کے علاوہ سپریم کورٹ کے 3 ججز کو بھی دھمکی آمیز خط موصول ہوئے۔ ان میں جسٹس منصور علی شاہ‘ جسٹس شاہد وحید، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس امین الدین کو دھمکی آمیز خط موصول ہوئے۔ ذرائع کے مطابق چاروں خط یکم اپریل کو سپریم کورٹ میں موصول ہوئے۔ چاروں خطوط میں پائوڈر پایا گیا اور دھمکی آمیز اشکال بنی ہوئی تھیں۔ ذرائع نے بتایا کہ خطوط کو کائونٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ دھمکی آمیز خطوط جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس عابد عزیز اور جسٹس عالیہ نیلم کے نام بھجوائے گئے۔ پاؤڈر بھی تھا۔ سی ٹی ڈی نے مقدمہ درج کیا۔ ذرائع کے مطابق دھمکی آمیز خطوط نجی کوریئر کمپنی کے ملازم نے موصول کروائے جسے حراست میں لے لیا گیا ہے۔ مشکوک خطوط موصول ہونے کے بعد لاہور ہائیکورٹ میں پولیس کی اضافی نفری تعینات کردی گئی۔ اطلاع ملنے پر پولیس، سی ٹی ڈی اور فرانزک ٹیموں کے افسر و اہلکار فوری لاہور ہائیکورٹ پہنچ گئے اور خطوط کی فرانزک کا عمل شروع کر دیا گیا۔ ڈی آئی جی آپریشنز ناصر رضوی سمیت دیگر پولیس افسر بھی موقع پر موجود رہے۔ ججز کو انتھراکس پائوڈر بھرے دھمکی آمیز خطوط ملنے پر آئی جی اور ایس ایس پی آپریشنز اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہو گئے۔ ڈی آئی جی نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے چار ججز کو بھی ایسے خطوط ملے ہیں۔ سائفر کیس کی سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے دھمکی آمیز خطوط ملنے کا واقعہ اٹھا دیا۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا اور ساتھ ہی گزشتہ روز کے واقعے پر آئی جی اور ایس پی آپریشنز کو فوری طور پر ہائی کورٹ طلب کر لیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت دی کہ سینئر وکلاء یہاں موجود ہیں، آئی جی اور ایس ایس پی آپریشن کو یہاں بلا لیں، کل جو معاملہ ہوا اس معاملے سے متعلق بات کریں گے۔ بعدازاں ڈی آئی جی آپریشنز شہزاد بخاری اور ایس ایس پی سی ٹی ڈی ہمایوں حمزہ عدالت میں پیش ہو گئے۔ ڈی آئی جی نے بتایا کہ ابھی تک کسی کے پاس آئی جی کا ایکٹنگ چارج نہیں، اسلام آباد پولیس کے تمام آپریشنز میں دیکھ رہا ہوں، فرانزک معائنے کے لیے بھجوا دئیے ہیں، تین سے چار دن میں رپورٹ آ جائے گی۔ عدالت نے پوچھا کہ کہاں سے خطوط پوسٹ کیے گئے؟۔ اس پر ڈی آئی جی نے کہا کہ سٹیمپ نہیں پڑھیں جا رہی، آج سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے ججز کو بھی اسی نام سے خطوط ملے ہیں۔ اس دوران بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ انہیں ہر صورت خط بھیجنے والی ریشماں کو ڈھونڈنا چاہیے۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے ڈی آئی جی سے کہا کہ آپ ابھی سٹیمپ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں؟ کیا تمام خطوط ایک ہی ڈاک خانے سے آئے؟۔ ڈی آئی جی نے کہا کہ خطوط پر سٹیمپ مدہم ہے مگر راولپنڈی کی سٹیمپ پڑھی جا رہی ہے۔ عدالت نے پوچھا کہ آپ دونوں افسروں نے خطوط کے لفافے دیکھے ہیں؟۔ اس پر ایس ایس پی سی ٹی ڈی نے کہا کہ بظاہر راولپنڈی جی پی او لگ رہا ہے، جی پی او میں پوسٹ نہیں ہوا کسی لیٹر باکس میں ڈالا گیا ہے، ہم اس لیٹر باکس کی سی سی ٹی وی اور ایریا کی معلومات حاصل کر رہے ہیں اور تحقیقات کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ ججوں کو بھیجے گئے چاروں خطوط میں پاؤڈر پایا گیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق پہلا خط دن 11 بجکر 15 منٹ پر جسٹس شجاعت علی کے پرائیویٹ سیکرٹری کو ملا۔ شبہ ہے یہ پاؤڈر انتھراکس ہے‘ اصل حقائق لیبارٹری رپورٹ کے بعد سامنے آئیں گے۔ لاہور ہائیکورٹ کے چاروں ججز کو خطوط بھیجے گئے۔ خطوط پر موحد فاضل ولد منظور علی شاہ کا نام لکھا ہے۔ خط ڈی ایس پی نے معزز جج کے سامنے کھولا تو اس میں پاؤڈر موجود تھا‘ ڈی ایس پی نے غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاؤڈر بھی کھول دیا جس سے پاؤڈر نیچے گر گیا۔ معزز جج نے ڈی ایس پی کے رویئے پر تشویش کا اظہار کیا۔ سی ٹی ڈی افسر نے ڈی ایس پی کو ڈانٹ پلا دی۔ ذرائع سی ٹی ڈی کے مطابق یہ ایس او پیز کی خلاف ورزی ہے‘ خطوط میں ججز کو دھمکیاں دی گئی ہیں۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ملک شہزاد احمد کو بھی دھمکی آمیز خط ملا۔ خط میں پاؤڈر اور دھمکی آمیز تحریر موجود تھی۔ پولیس ذرائع کے مطابق ملزمان نے خطوط لیٹر باکس میں ڈالے۔ ڈاکیا خطوط لیٹر باکس سے نکال کر ڈاک آفس میں لے آیا۔ وہاں سے متعلقہ ایڈریس پر خطوط کو بھیجا گیا۔ سی ٹی ڈی پولیس نے لیٹر باکس سے خطوط نکال کر پہنچانے والے پوسٹ مین کو حراست میں لیا۔ تفتیش کے بعد پوسٹ مین کو رہا کر دیا گیا۔ خطوط کس لیٹر بکس سے ملے پوسٹ مین اس بات سے مکمل طور لاعلم نکلا۔ ڈاکیے نے معمول کے مطابق خطوط نکال کر متعلقہ ایڈریس پر بھجوائے۔ سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے بھی ملزمان کی تلاش جاری ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں مشکوک خطوط موصول ہونے پر سی ٹی ڈی نے مقدمہ درج کر لیا۔ ایس ایچ او تھانہ سی ٹی ڈی کو آر اینڈ آئی برانچ سپریم کورٹ کے انچارج ڈیوٹی محمد اقبال خان نے بتایا کہ 29/30 مارچ 2024ء کو عام ڈاک بذریعہ پوسٹ آفس سپریم کورٹ بلڈنگ موصول ہوئی جو سخاوت شاہ موصول کنندہ کلرک نے وصول کی اور چیک پڑتال کے بعد متعلقہ جسٹس صاحبان کے سیکرٹری صاحبان کو بذریعہ نائب قاصد سبطین وصول کروائی۔ آج مورخہ 03 ۔ 04 ۔ 2024 ء کو ایڈمن انچارج خرم شہزاد صاحب نے بذریعہ فون نوٹ کروایا کہ عام ڈاک میں سے چار عدد لفافہ جات جو کہ چیف جسٹس صاحب سپریم کورٹ آف پاکستان اور دیگر تین جسٹس صاحبان کے نام سے ہیں خطوط کے اندر سفید پاؤڈر نما کیمیکل مواد موجود ہے۔ تین خطوط مسماۃ گلشاد خاتون بنت بھورل خان ایڈریس نامعلوم اور ایک خط مسمی سجاد حسین ولد غلام عباس ایڈریس نامعلوم کی طرف سے ہے۔ فوری مقامی پولیس کو اطلاع دی گئی جو کہ گلشاد خاتون، سجاد حسین و نامعلوم ملزمان نے خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کی ہے جن کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ پولیس نے درج ایف آئی آر زیر دفعات 7ATA ، 507 ت پ میں درج کیا کہ مدعی مقدمہ نے تحریری درخواست معہ چار عدد خطوط کھلے لفافوں میں پڑے ہوئے پیش کئے۔ لفافوں میں موجود خطوط کے اوپر پاؤڈر کی آمیزش پائی گئی، حسب طلبیدہ ایف آئی ٹی انچارج بشارت الرحمان اے ایس آئی معہ ٹیم آیا جنہوں نے پائوڈر کا سرسری تجزیہ کیا۔ لفافوں میں موجود خطوط کا مطالعہ کرنے پرخطوط میں تحریک ناموس پاکستان کا حوالہ دے کر جسٹس سسٹم کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور تھریٹ کرنے کیلئے مخصوص شکل اور انگریزی لفظ Bacilus Anthracis کا استعمال کیا گیا۔ ایف آئی ٹی نے چار عدد لفافوں کے علیحدہ علیحدہ پارسل تیار کرکے سیل شدہ حوالے کئے جو بروئے فرد قبضہ پولیس میں لئے گئے۔ کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ لاہور نے لاہور ہائی کو رٹ کے ججز کو دھمکی آمیز خطوط موصول ہونے پر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ کے ججز کو دھمکی آمیز خطوط موصول ہوئے تھے۔ جنہیں کھولنے پر اس میں سے سفید رنگ کا کیمیکل پاؤڈر برآمد ہوا۔ اطلاع ملنے پر پولیس اور سی ٹی ڈی ٹیم نے موقع پر پہنچ کر دھمکی آمیز خطوط اور قبضے میں لے کر ٹیسٹ کے لئے مواد فرانزک سائنس لیبارٹری بھجوا دیا اور تھانہ سی ٹی ڈی لاہور میں نامعلوم افراد کے خلاف دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا۔ سی ٹی ڈی حکام کے مطابق انویسٹی گیشن، انٹیلی جنس، ٹیکنیکل انیلسز اور فرانزک شواہد کی روشنی میں جلد ملزمان کا سراغ لگا کر انہیں گرفتارکرلیا جائے گا۔