شہید بھٹو اور 4 اپریل

چار اپریل پیپلز پارٹی کا نہیں پاکستانی قوم کا سیاہ دن ہے جب ایک ہر دل عزیز قابل لیڈر کو ناجائز مقدمے میں ملوث کر کے پھانسی دی گئی جس کی سزائے موت سے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا ہل گئی اور دنیا والوں نے پاکستان کے نظام انصاف پر انگلیاں اٹھائیں۔ پاکستانی قوم آج تک اس عدالتی فیصلے پر شرمندہ ہے اور رہے گی۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے نہیں مسلم دنیا کے ایک عظیم لیڈر کا نام تھا جو تاریخ میں آج تک زندہ ہے۔ بھٹو شہید کو غریبوں سے محبت کی سزا دی گئی۔ وہ بچپن سے غریبوں سے محبت کرتے تھے۔ سر شاہنواز کے آخری بیٹے تھے۔ بلا کے ذہین اور خوبصورت۔  شہید بھٹو نے اپنے والد سر شاہ نواز بھٹو کی خواہش کے مطابق دنیا کی اعلی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی اور آکسفورڈ یونیورسٹی لندن میں ٹاپ کیا۔ اللہ نے ان کے دل میں نہ صرف پاکستانی عوام  بلکہ اسلام سے محبت  بھر دی تھی۔ اس جذبہ کو لے کر وہ آگے بڑھے اور پاکستان کے استحصال زدہ طبقے کی نمائندگی کی اس کے علاوہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں 1973ء کا وہ آئین بنایا جو آمروں کے ہاتھوں کئی بار معطل ہونے کے باوجود آج تک قائم ہے۔  اس آ ئین کی وجہ سے آج پاکستان کا وفاق سلامت ہے۔ اس آئین میں بھٹو شہید کو کم از کم دو سال لگے۔ اس کارنامہ کے علاوہ شہید بھٹو نے ایٹمی پروگرام شروع کیا اور رفتہ رفتہ بے پناہ  قربانیوں کے بعد پاکستان ایٹمی طاقت  بننے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ پاکستان کی قوم پر ڈاکٹر عبدالقدیر اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کا احسان تھا کہ آج ہم ایٹمی قوت بنے ورنہ ہمارا دشمن ہمارے ساتھ کیا کرتا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اور سب سے بڑھ کر بھٹو شہید نے غریبوں کے لیے لیبر پالیسی، کسان پالیسی وضع کی جس سے مزدوروں کو فائدہ ہوا اور وہ آج تک یوم مئی مناتے ہیں۔ بھٹو شہید نے اپنے دور حکومت میں اسلامی کانفرنس کروا کر پاکستان کا نام روشن کیا اور یہی وجہ تھی کہ تمام بڑی طاقتیں ناراض ہوئیں۔ بھٹو شہید کو سزائے موت دلوانے میں انٹرنیشنل قوتوں کا بڑا ہاتھ ہے جبکہ اسلامی دنیا بار بار روکتی رہی مگر اس وقت کی عدلیہ اور آمر سب ایک ہو گئے تھے۔ آج 46 سالوں بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کو اوپن کرنا اور فیصلہ سنانا ایک مذاق سے کم نہ تھا.  چار اپریل صرف پیپلز پارٹی کے لیے نہیں بلکہ پوری قوم پورے ملک اور اسلامی دنیا کے لیے ایک تکلیف دہ دن ہے مگر ہمارا ضمیر مطمئن ہے کہ کسی آمر کے آگے سر نہیں جھکا کیونکہ پیپلز پارٹی ایک نظریاتی جماعت ہے۔ بھٹو صاحب کا منشور ایک اسلامی منشور تھا۔ انہوں  نے عوام کو طاقت کا سرچشمہ بنایا تھا غریبوں کو جگایا تھا اور ان کے حقوق کی بات کی تھی۔ اور آج اسی لیے ان کا نام تاریخ میں روشن ہے۔ مفاہمت کرنے والوں کو تاریخ معاف نہیں کرتی نہ وہ تاریخ کا حصہ ہوتے ہیں۔ بھٹو خاندان نے پانچ شہادتیں دے کر اپنا نام روشن کیا اور پاکستان سے محب وطن ہونے کا ثبوت دیا تو  چار اپریل پاکستانی عدلیہ پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
 ہماری آنے والی نسلوں کو علم ہونا چاہیے کہ حکمرانوں میں  کس کا کیا کردار رہا۔ کون کون ملک اور عوام سے مخلص تھا، کس نے بڑی طاقت کی غلامی کی اور کس نے ملک اور قوم کا نام روشن کیا اور جان کا نذرانہ پیش کیا۔

ای پیپر دی نیشن