ذوالفقار علی بھٹو شہید کا 1979ء کی چار اپریل کی منحوس رات میں ایک ڈکٹیٹر کے ایما پر عدالتی قتل کیا گیا۔ اس عدالتی فیصلے پر دنیا بھر میں لعن طعن ہوئی۔ دنیا بھر کے ماہرین نے اس فیصلے کو دنیا کی عدالتی تاریخ میں ایک بد نما داغ قرار دیا۔ گو کہ پینتالیس برس بعد عدالت نے ہی اپنے ماتھے پر لگے اس داغ کو دھونے کی کوشش کی اور ایسا فیصلہ دیا جس سے بھٹو شہید قرار پائے اور انہیں سزا دلوانے والا ڈکٹیٹر قاتل۔ تاریخ اس بات کی بھی متنظر ہے کہ وہ بھی سرکاری طور پر قاتل قرار پائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کی کئی دہائیوں بعد ان کے داماد اور اس وقت کے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے 2011ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں صدارتی ریفرنس دائر کیا تھا جس میں بھٹو کیخلاف عدالتی کارروائی پر عدالتی رائے مانگی گئی تھی جس کا فیصلہ 13 سال بعد گذشتہ ماہ چار مارچ کو سامنے آیا۔ریفرنس دائر ہونے کے تقریباً 13 برس بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں نو رکنی لارجر بینچ نے ذوالفقار علی بھٹو کیس میں ٹرائل کو غیر شفاف اور خلافِ آئین و قانون قرار دیا ہے۔قانونی ماہرین کے نزدیک سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید کے خلاف ٹرائل کو غیر شفاف قرار دینا علامتی طور پر اہمیت کا حامل ہے۔ماہرین کے بقول اس سے ملک کے نظامِ انصاف میں موجود کئی نقائص کی بھی نشان دہی ہوتی ہے۔
قانونی ماہرین کے نزدیک اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ سپریم کورٹ کے لارجر بینج نے ذوالفقار علی بھٹو کو بعد از مرگ انصاف فراہم کیا ہے اور صرف اس بنیاد پر صرفِ نظر نہیں کیا کہ یہ 45 سال پرانی بات ہو گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے کئی ممالک میں اس بات کی نظیر پائی جاتی ہے کہ بعد از مرگ لوگوں کو انصاف دیا گیا۔ اس اعتبار سے بھٹو ریفرنس میں سپریم کورٹ کی رائے تاریخی اہمیت رکھتی ہے۔ اسے پاکستان میں قانون و آئین کی تاریخ اور نصاب میں شامل کیا جائے گا۔ان کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے میں چیف جسٹس فائز عیسیٰ کو بھی داد دیتے ہیں کہ انہوں نے 2011ء سے زیرِ التوا اس معاملے کو چند ماہ کے اندر نمٹا کر ایک بڑی تاریخی غلطی درست کردی۔ اب بھٹو صاحب کو تو عدالت واپس لا نہیں سکتی تھی لیکن ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو تو واضح کر سکتی تھی جو کی گئی۔
تاریخ کا ایک سچ یہ بھی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کو 46 سال گزر جانے کے بعد بھی ان کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی جبکہ ضیاالحق کا نام اس کی اپنی اولاد لیتے ہوئے بھی گھبراتی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت بھٹو شہید کے لہو سے سینچی گئی ہے، بھٹو آج بھی پاکستانیوں کے دلوں کا حکمران ہے۔پیپلز پارٹی کے بانی، سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید کی برسی ہر سال انتہائی عقیدت و احترام سے پاکستان سمیت دنیا بھر منائی جاتی ہے۔پاکستان کے متفقہ آئین کی تشکیل،ایٹمی پروگرام کی بنیاد اور سیاست کو خواص کے چنگل سے نکال کر عوام میں لانا، مغربی استعمار کے خلاف اسلامی ملکوں کا اتحاد، بھٹو کے وہ کارنامے ہیں جو اْنہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے کیلی فورنیا اور آکسفورڈ سے قانون کی تعلیم حاصل کی، 1963ء میں وہ جنرل ایوب خان کی کابینہ میں وزیر خارجہ بنے اور بعد میں سیاسی اختلافات پر حکومت سے الگ ہوگئے۔بعدازاں ترقی پسند دوستوں کے ساتھ مل کر انہوں نے 30 نومبر 1967ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی جو اپنے نظریات کی بدولت ملک کی مقبول ترین جماعت بنی۔1970ء کے الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی،کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تاہم انتخابات میں کامیاب ہو کر جب انہوں نے اقتدار سنبھالا تو ملک دولخت ہو چکا تھا، وہ 1971ء سے 1973ء تک پاکستان کے صدر رہے جب کہ 1973ء سے 1977ء تک وہ منتخب وزیراعظم رہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو متفقہ آئین دیا، بھارت سے شملہ معاہدہ کر کے پائیدار امن کی بنیاد رکھی اور ہزاروں مربع میل رقبہ اور جنگی قیدیوں کو بھارت سے چھڑوایا۔بھٹو کے دور میں پسے ہوئے طبقات کے حقوق کے لیے کئی اقدامات کیے گئے تاہم مبینہ داخلی اور خارجی سازشوں کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق نے منتخب حکومت کا تختہ الٹا اور قتل کے الزام میں مقدمہ چلا کر 4 اپریل 1979ء کو انہیں شہید کر دیا گیا۔ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ان کی سیاسی فکر کو ان کی بیٹی بینظیر بھٹو نے آگے بڑھایا اور ان کی شہادت کے بعد اب بلاول بھٹو زرداری اپنے نانا کے سیاسی مشن کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں۔
شہید کی 46 ویں برسی کے موقع پر اپنے پیغامات میں صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ شہید بھٹو امید کا منارہ نور تھے اور آنے والے وقتوں میں بھی وہ امید کا منارہ نور رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت، شہری آزادیوں اور صوبائی خود مختاری کیلئے پارٹی پرعزم رہے گی۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا شہید بھٹو نے ملک کو متفقہ آئین دیا جس کی بنیاد انسانی حقوق اور صوبائی خودمختاری کے اصولوں پر ہے، تبدیلی ووٹ کے ذریعے آنی چاہیے نہ کہ گولی کے ذریعے اور یہی پارٹی کے بانی چیئرمین کا دیا ہوا سیاسی سبق ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا پاکستانی قوم شہید ذوالفقار علی بھٹو کو کھونے کا درد صدیوں تک محسوس کرتی رہے گی، لیکن جنہوں نے اس عظیم لیڈر کی جان لی، وہ آج تاریخ کے کوڑے دان میں پڑے ہیں۔ انہوں نے حقیقی جمہوریت کی بنیاد حق رائے دہی پر قائم پارلیمانی نظام پر رکھی۔آج پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی ایک بڑی جماعت ہے ایک صوبے میں اس کی مکمل اور دو صوبوں میں اتحادی حکومت ہے جبکہ ملک کے صدر آصف علی زرداری ہیں، یہ قدرت کا انعام نہیں تو اور کیا ہے کہ جس جماعت کو ختم کرنے کے لئے پوری ریاستی مشینری نے زور لگا دیا وہ آج بھی اپنے عروج پر ہے۔پاکستان کی جمہوری جد و جہد کی تاریخ بھٹو سے شروع ہوتی ہے اور بھٹوز پر ہی ختم ہوتی ہے، اس بات کا ادراک بہر حال قوم کو کرنا چاہیے کہ جن آزاد فضاؤں میں وہ سانس لے رہے ہیں وہ بھٹوز کی ہی دی ہوئی ہیں۔