ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے محرکات 

Apr 04, 2024

قیوم نظامی


ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب خان کی کابینہ میں وزیر خارجہ تھے۔ انہوں نے پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی۔ وہ پاک چین دوستی کے بانی تھے عالم اسلام اور دنیا کے انقلابی لیڈروں کے ساتھ بھٹو کے باہمی احترام کے تعلقات تھے۔ بھٹو سوشلسٹ نظریات کے حامل لیڈر تھے۔ انہوں نے چین کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کیے۔ روس سے پاکستان کی پہلی سٹیل ملز کے لیے مشینری لی۔ وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے انہوں نے لاہور میں کامیاب اسلامی سربراہی کانفرنس کرائی جس کا مقصد اسلامک بلاک بنانا تھا۔ بھٹو نے دولت مشترکہ اور سیٹو معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی۔ امریکہ بھٹو کو اپنے قومی مفادات کے لیے خطرہ سمجھتا تھا اور ان کو طویل عرصے سے فالو کر رہا تھا۔ امریکی سی آئی اے نے بریگیڈیئر ضیاء الحق کی تربیت کی اور اسے وزیراعظم بھٹو کو خوشامد سے رام کرنے کے گر سکھائے تاکہ وہ پاکستان کا آرمی چیف بن کر جنوبی ایشیا میں امریکی مفادات کا دفاع کر سکے۔ 1977ء کے انتخابات سے پہلے امریکہ نے اپوزیشن جماعتوں کو پی این اے کے پلیٹ فارم پر جمع کر دیا۔ امریکہ نے اپنے سیکرٹری آف سٹیٹ ہنری کسنجر کے ذریعے بھٹو کو عبرتناک مثال بنانے کی دھمکی دلائی اور ان پر پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام بند کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ بھٹو قوم پرست محب الوطن لیڈر تھے وہ امریکی دباؤ میں نہ آئے۔ بھٹو نے پی این اے کی تحریک کے دوران 28 اپریل 1977ء کو پارلیمنٹ سے تاریخی خطاب کیا اور عوام کو ان محرکات سے آگاہ کیا جن کی وجہ سے امریکہ ان کے خون کا پیاسا ہو چکا تھا ۔’’موجودہ بحران بین الاقوامی سازش کا نتیجہ ہے۔ آج پاکستان اہم جغرافیائی حیثیت کا حامل ہے۔ اگر اسے نقصان پہنچا تو بہت سے عرب ملکوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جن میں متحدہ عرب امارات سعودی عرب اور اومان وغیرہ شامل ہیں۔ سازشی عناصر مجھے ہٹانا چاہتے ہیں۔ وہ پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایک ملک موجودہ تحریک کے لیے بھاری رقم خرچ کر رہا ہے۔ ہاتھی نے ویت نام اور مشرق وسطیٰ پر ہمارے موقف کو تسلیم نہیں کیا۔ یہ ہاتھی مجھ سے ناراض ہے۔ اس کا واسطہ بندہ صحرا سے آن پڑا ہے۔ ہم نے عربوں کو ہتھیار سپلائی کیے۔ ہمارا سپاہی اسلام کا سپاہی ہے۔ ہم نے ایٹمی پلانٹ کے سلسلے میں قومی مفاد کے مطابق موقف اختیار کیا ہے۔ ملک میں غیر ملکی کرنسی پانی کی طرح بہائی جا رہی ہے۔ کراچی میں ڈالر چھ روپے کا ہوگیا ہے۔ لوگوں کو آذان دینے کے لیے رقم دی گئی اور جیل جانے کے لیے رشوتیں دی گئیں۔ میں عوام کو بتانا چاہتا ہوں میرا قصور اور جرم کیا ہے جس کی وجہ سے یہ میرے خون کے پیاسے ہیں۔
ہاتھی کا حافظہ بہت تیز ہے۔ عوام جانتے ہیں دنیا میں چند اہم ہاتھی ہیں۔ چین کے ایک ہاتھی سے بڑے اختلافات تھے۔ یہ وقت تھا جب چین کا نام لینا بھی جرم تھا ۔ چین سے تعلقات کو بہتر بنانے کے عمل کو نقصان پہنچایا گیا۔ قائد اعظم سے لے کر اب تک ہر حکومت نے عربوں کی حمایت کی۔ میری حمایت صرف زبانی نہیں تھی ہم نے عربوں کی فوجی حمایت کی۔ آخر سارا نزلہ ذوالفقار علی بھٹو پر ہی کیوں گر رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہاتھی کا حافظہ بڑا تیز ہوتا ہے۔ اس کو معلوم ہے میں پاکستان کے استحکام کا ستون ہوں۔ اس لیے وہ مجھے ہٹانا چاہتے ہیں۔ میں نے جب اسلامی سربراہی کانفرنس بلائی تو اسے ایک ماہ کے لیے ملتوی کرنے کے لیے کہا گیا۔ میں نے کر دی جب تیسری بار ملتوی کرنے کے لیے کہا گیا تو میں نے شاہ فیصل کو خط لکھا انہوں نے مجھ سے اتفاق کیا کہ اسلامی سربراہی کانفرنس فروری میں ہوگی اور مزید التواء نہیں ہوگا۔ اس کانفرنس کے بعد یاسر عرفات نے اقوام متحدہ میں خطاب کیا اور تنظیم آزادی فلسطین کو تسلیم کیا گیا۔ میں اپنا مشن پورا کرکے رہوں گا اللہ تعالیٰ نے مجھے صلاحیت دی ہے کہ میں ملک کی خدمت کروں ۔ میں نے عورتوں مزدوروں کسانوں کو آزادی دلائی اور اجارہ داری ختم کی ۔ اس طرح مشن کا پہلا حصہ مکمل ہو گیا ہے۔‘‘ 
جب امریکہ اور اس کے پاکستان میں سہولت کار سیاسی میدان میں ذوالفقار علی بھٹو کا مقابلہ نہ کر سکے اور 1977ء کے انتخابات ہار گئے تو سکرپٹ کے مطابق بھٹو حکومت کے خلاف پہلے دھاندلی اور بعد میں نظام مصطفیٰ کے نام پر تحریک چلائی گئی جو کامیاب نہ ہوسکی اور جنرل ضیاء الحق نے منصوبے کے مطابق بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر پاکستان پر مارشل لاء مسلط کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے مخالفین سیاسی مذہبی جماعتیں جاگیردار تاجر صنعت کار جنرل ضیاء الحق کے اتحادی بن گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے مقدمے میں ملوث کیا گیا اور ججوں پر دباؤ ڈال کر ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دلائی گئی۔ اور 4 اپریل 1979ء￿  کو انہیں پھانسی دے دی گئی اور اس طرح امریکہ بھٹو کو عبرتناک مثال بنانے میں کامیاب ہوگیا ۔ بھٹو آج بھی تاریخ کے سینے اور عوام کے دلوں میں زندہ ہے۔ سپریم کورٹ نے بھٹو کے مقدمے پر نظر ثانی کرنے کے بعد تسلیم کیا ہے کہ بھٹو کو آئین اور قوانین کے مطابق شفاف اور آزاد ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا تھا۔ افسوس سامراجی ممالک پاکستان کو کالونی کی طرح چلا رہے ہیں۔ پاکستانی قوم اگر متحد ہو جائے تو بیرونی مداخلت کو ختم کرکے ریاست کی خودمختاری کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

مزیدخبریں