ڈاکٹر اعجاز احسن......
بھارت کی طرف سے ایک تجویز آئی ہے کہ ایک ریل گاڑی بنگلہ دیش سے براستہ بھارت اور نیپال‘ پاکستان جایا کرے‘ جسے اولاً تجربہ کے طور پر چلایا جائے۔ یاد رہے کہ برعظیم کی تقسیم سے قبل ایک صاحب نے تجویز دی تھی کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کو ملانے کیلئے بھارت میں زمین کی ایک دس میل چوڑی پٹی مختص کی جائے لیکن یہ تجویز اس قدر ناقابل عمل تھی کہ کسی نے اس کو زیادہ اہمیت نہ دی۔
پاکستان اور بھارت میں تعلقات میں بہت اتار چڑھاؤ آئے ہیں۔ سنتے ہیں کہ ایوب خان کی 1965ء کی جنگ سے قبل نوجوان لاہور سے امرتسر صرف ایک فلم دیکھنے کیلئے چلے جایا کرتے تھے۔ لیکن جنگ نے اس قدر دشمنی کو جنم دیا کہ یہ سب قصہ ماضی بن گیا۔
یہ بھی یاد رہے کہ 1965ء اور 1971ء کی دونوں جنگیں اس وقت لڑی گئیں جب فوجی حکمران پاکستان پر براجمان تھے جبکہ 1999ء کی کارگل کی جنگ بھی ایک جرنیل مشرف کے دماغ کی اختراع تھی۔ گو یہ بحث کی جا سکتی ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف کو اس بارے میں علم تھا یا نہیں۔
چند سال قبل میں نے چند نوجوانوں سے کہا کہ کتنا اچھا ہو اگر ہمارے دو ملکوں میں دوسرے ہمسایوں جیسے تعلقات ہوں کہ ہم لاہور سے کلکتہ یا مدراس جا سکیں اور وہ پشاور اور کابل جا سکیں۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ وہ بھارت نہیں جانا چاہتے۔ دراصل میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ ہم جائیں‘ میں نے تو محض یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ تعلقات ایسے ہوں کہ ہم جانا چاہیں تو جا سکیں۔
ہمارے دو ممالک میں کئی ایک مسائل ہیں۔ جن میں میرے نزدیک سرفہرست ہمارے دریاؤں کا پانی ہے لیکن بات صرف اتنی نہیں۔ دونوں ملکوں میں اسٹیبلشمنٹ کا ایک ایسا حصہ ہے جوکہ حالات کو اسی ڈگر پر دیکھنے کا خواہشمند ہے۔
اگر ایسا نہ ہو تو ہم اپنے اپنے بجٹ کا بیشتر حصہ جنگی ساز و سامان خریدنے پر کیوں لگائیں ہمارے صنعتکاروں کی سوچ کچھ ایسی ہی ہے ان پر یہ خوف طاری رہتا ہے کہ کہیں بھارت کی اشیا مقابلہ میں ان سے بازی نہ لے جائیں۔ انہیں یہ خیال کبھی نہیں آتا کہ اگر ہم اپنے مال کا معیار اچھا اور قیمت کم رکھیں‘ تو ہمیں ایک ارب کی آبادی کے ملک کی منڈی حاصل ہو سکتی ہے۔
اسی طرح ہماری فلم انڈسٹری مقابلہ نہیں کرنا چاہتی‘ حالانکہ اگر بہت محدود تعداد میں انڈین فلمیں درآمد ہوں‘ تو ایک تو اس مقابلہ کی وجہ سے ہماری فلموں کا معیار بلند ہو گا اور دوسرے ہمارے سینما ہاؤس بھی بند ہونے سے بچ جائیں گے۔ ہمارے ٹی وی ڈراموں کا معیار بھارتی ڈراموں سے بہت بہتر ہے اور وہ اس لئے کہ ہمارے پروڈیوسر قابل لوگوں سے کہانی لکھواتے ہیں۔ کیا ہمارے فلم انڈسٹری کے پروڈیوسر ایسے ہی لکھاریوں کی خدمات سے استفادہ نہیں کر سکتے؟ دراصل ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ ’’اگر ان سے مقابلہ نہیں کر سکتے تو ان پر پابندی لگوا دو‘‘ اس پالیسی کی وجہ سے ہماری فلم انڈسٹری تباہی کی طرف بگٹٹ رواں دواں ہے۔ اسی طرح ہمارے سکیورٹی اداروں کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان‘ باعزت طریقہ سے ہی سہی‘ مصالحت ہو گئی‘ تو ہماری بیسیوں رجمنٹوں کی کیا ضرورت رہ جائے گی۔؟
راقم الحروف کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ ہم مختلف مسائل پر اپنے اصولی موقف سے دست بردار ہو جائیں لیکن ہمارے نمائندے اکثر و بیشتر انتہائی نااہل ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً ذرا غور فرمائیے‘ انہوں نے بگلیہار ڈیم کو زلزلہ کی فالٹ لائن پر بننے دیا اور یہ نکتہ بھی نہ اٹھایا کہ اس سے ہمارے ان شہروں کو‘ غالباً بشمول سیالکوٹ جوکہ اس ڈیم سے نیچے کی طرف واقع ہیں۔ زلزلہ کی صورت میں خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اگر بروقت یعنی ڈیم کی تعمیر شروع ہونے سے پہلے‘ یہ اعتراض اٹھاتے تو عین ممکن تھا کہ سندھ طاس اتھارٹی ڈیم کی تعمیر رکوا دیتی۔ ہمارے اکثر نمائندے اتنی نالائقی کا ثبوت دیتے ہیں کہ اسکی دو عدد ہی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اول یہ کہ ارباب بست و کشاد نے چن چن کر سب سے نااہل افراد کا تقرر کیا ہو اور یا پھر یہ کہ ان لوگوں نے دوسرے ملک سے کروڑوں ڈالر بطور رشوت وصول کرکے اپنا منہ بند رکھا ہو۔ تیسرا کوئی امکان سجھائی نہیں دیتا۔
دونوں ملک اپنے اپنے بجٹ کا بیشتر حصہ جنگی سامان اور منصوبوں پر خرچ کرتے ہیں‘ جس کے نتیجہ کے طور پر عوام کی اکثریت ناخواندہ اور بھوک و افلاس کی ستائی ہوئی رہتی ہے۔ ہر دوپہر یقیناً لازم ہے کہ اپنے فوری مفادات کی پوری احتیاط سے پاسبانی کریں۔ لیکن طرفین کو پوری کوشش کرنی چاہئے کہ ایک ارب سے زیادہ آبادی کے برصغیر میں باہمی مسائل حق و انصاف کی بنا پر نبٹائے جائیں تاکہ ہم اپنی اپنی قومی دولت کو تعلیم‘ صحت‘ ٹرانسپورٹ‘ سیاحی‘ صنعت و حرفت جیسے معاملات پر خرچ کر سکیں اور علاقہ میں امن و امان کا دور دورہ ہو۔ آخر اگر ریل گاڑیاں یورپ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چل سکتی ہیں تو جنوبی اور وسطی ایشیا کے آر پار کیوں نہیں جا سکتیں؟ کیا وجہ ہے کہ ہم باقی ساری دنیا کی طرح ترقی کی منازل طے نہ کریں اور اپنی دولت سامان حرب پر خرچ کرکے تنزلی کی طرف جائیں؟
بھارت کی طرف سے ایک تجویز آئی ہے کہ ایک ریل گاڑی بنگلہ دیش سے براستہ بھارت اور نیپال‘ پاکستان جایا کرے‘ جسے اولاً تجربہ کے طور پر چلایا جائے۔ یاد رہے کہ برعظیم کی تقسیم سے قبل ایک صاحب نے تجویز دی تھی کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کو ملانے کیلئے بھارت میں زمین کی ایک دس میل چوڑی پٹی مختص کی جائے لیکن یہ تجویز اس قدر ناقابل عمل تھی کہ کسی نے اس کو زیادہ اہمیت نہ دی۔
پاکستان اور بھارت میں تعلقات میں بہت اتار چڑھاؤ آئے ہیں۔ سنتے ہیں کہ ایوب خان کی 1965ء کی جنگ سے قبل نوجوان لاہور سے امرتسر صرف ایک فلم دیکھنے کیلئے چلے جایا کرتے تھے۔ لیکن جنگ نے اس قدر دشمنی کو جنم دیا کہ یہ سب قصہ ماضی بن گیا۔
یہ بھی یاد رہے کہ 1965ء اور 1971ء کی دونوں جنگیں اس وقت لڑی گئیں جب فوجی حکمران پاکستان پر براجمان تھے جبکہ 1999ء کی کارگل کی جنگ بھی ایک جرنیل مشرف کے دماغ کی اختراع تھی۔ گو یہ بحث کی جا سکتی ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف کو اس بارے میں علم تھا یا نہیں۔
چند سال قبل میں نے چند نوجوانوں سے کہا کہ کتنا اچھا ہو اگر ہمارے دو ملکوں میں دوسرے ہمسایوں جیسے تعلقات ہوں کہ ہم لاہور سے کلکتہ یا مدراس جا سکیں اور وہ پشاور اور کابل جا سکیں۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ وہ بھارت نہیں جانا چاہتے۔ دراصل میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ ہم جائیں‘ میں نے تو محض یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ تعلقات ایسے ہوں کہ ہم جانا چاہیں تو جا سکیں۔
ہمارے دو ممالک میں کئی ایک مسائل ہیں۔ جن میں میرے نزدیک سرفہرست ہمارے دریاؤں کا پانی ہے لیکن بات صرف اتنی نہیں۔ دونوں ملکوں میں اسٹیبلشمنٹ کا ایک ایسا حصہ ہے جوکہ حالات کو اسی ڈگر پر دیکھنے کا خواہشمند ہے۔
اگر ایسا نہ ہو تو ہم اپنے اپنے بجٹ کا بیشتر حصہ جنگی ساز و سامان خریدنے پر کیوں لگائیں ہمارے صنعتکاروں کی سوچ کچھ ایسی ہی ہے ان پر یہ خوف طاری رہتا ہے کہ کہیں بھارت کی اشیا مقابلہ میں ان سے بازی نہ لے جائیں۔ انہیں یہ خیال کبھی نہیں آتا کہ اگر ہم اپنے مال کا معیار اچھا اور قیمت کم رکھیں‘ تو ہمیں ایک ارب کی آبادی کے ملک کی منڈی حاصل ہو سکتی ہے۔
اسی طرح ہماری فلم انڈسٹری مقابلہ نہیں کرنا چاہتی‘ حالانکہ اگر بہت محدود تعداد میں انڈین فلمیں درآمد ہوں‘ تو ایک تو اس مقابلہ کی وجہ سے ہماری فلموں کا معیار بلند ہو گا اور دوسرے ہمارے سینما ہاؤس بھی بند ہونے سے بچ جائیں گے۔ ہمارے ٹی وی ڈراموں کا معیار بھارتی ڈراموں سے بہت بہتر ہے اور وہ اس لئے کہ ہمارے پروڈیوسر قابل لوگوں سے کہانی لکھواتے ہیں۔ کیا ہمارے فلم انڈسٹری کے پروڈیوسر ایسے ہی لکھاریوں کی خدمات سے استفادہ نہیں کر سکتے؟ دراصل ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ ’’اگر ان سے مقابلہ نہیں کر سکتے تو ان پر پابندی لگوا دو‘‘ اس پالیسی کی وجہ سے ہماری فلم انڈسٹری تباہی کی طرف بگٹٹ رواں دواں ہے۔ اسی طرح ہمارے سکیورٹی اداروں کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان‘ باعزت طریقہ سے ہی سہی‘ مصالحت ہو گئی‘ تو ہماری بیسیوں رجمنٹوں کی کیا ضرورت رہ جائے گی۔؟
راقم الحروف کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ ہم مختلف مسائل پر اپنے اصولی موقف سے دست بردار ہو جائیں لیکن ہمارے نمائندے اکثر و بیشتر انتہائی نااہل ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً ذرا غور فرمائیے‘ انہوں نے بگلیہار ڈیم کو زلزلہ کی فالٹ لائن پر بننے دیا اور یہ نکتہ بھی نہ اٹھایا کہ اس سے ہمارے ان شہروں کو‘ غالباً بشمول سیالکوٹ جوکہ اس ڈیم سے نیچے کی طرف واقع ہیں۔ زلزلہ کی صورت میں خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اگر بروقت یعنی ڈیم کی تعمیر شروع ہونے سے پہلے‘ یہ اعتراض اٹھاتے تو عین ممکن تھا کہ سندھ طاس اتھارٹی ڈیم کی تعمیر رکوا دیتی۔ ہمارے اکثر نمائندے اتنی نالائقی کا ثبوت دیتے ہیں کہ اسکی دو عدد ہی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اول یہ کہ ارباب بست و کشاد نے چن چن کر سب سے نااہل افراد کا تقرر کیا ہو اور یا پھر یہ کہ ان لوگوں نے دوسرے ملک سے کروڑوں ڈالر بطور رشوت وصول کرکے اپنا منہ بند رکھا ہو۔ تیسرا کوئی امکان سجھائی نہیں دیتا۔
دونوں ملک اپنے اپنے بجٹ کا بیشتر حصہ جنگی سامان اور منصوبوں پر خرچ کرتے ہیں‘ جس کے نتیجہ کے طور پر عوام کی اکثریت ناخواندہ اور بھوک و افلاس کی ستائی ہوئی رہتی ہے۔ ہر دوپہر یقیناً لازم ہے کہ اپنے فوری مفادات کی پوری احتیاط سے پاسبانی کریں۔ لیکن طرفین کو پوری کوشش کرنی چاہئے کہ ایک ارب سے زیادہ آبادی کے برصغیر میں باہمی مسائل حق و انصاف کی بنا پر نبٹائے جائیں تاکہ ہم اپنی اپنی قومی دولت کو تعلیم‘ صحت‘ ٹرانسپورٹ‘ سیاحی‘ صنعت و حرفت جیسے معاملات پر خرچ کر سکیں اور علاقہ میں امن و امان کا دور دورہ ہو۔ آخر اگر ریل گاڑیاں یورپ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چل سکتی ہیں تو جنوبی اور وسطی ایشیا کے آر پار کیوں نہیں جا سکتیں؟ کیا وجہ ہے کہ ہم باقی ساری دنیا کی طرح ترقی کی منازل طے نہ کریں اور اپنی دولت سامان حرب پر خرچ کرکے تنزلی کی طرف جائیں؟