میجر جنرل (ر) شفیق احمد اعوان ....
جس کیلئے پارلیمنٹ جیسے کسی بھی جعلی واردات کا بہانہ گھڑا جا سکتا ہے تو افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت یا اس کی Replacement بھی علی بابا کا حکم مان کر میدان جنگ میں اتر آئیں گے اور پاکستان کا دو فرنٹ کیخلاف جنگ کا کیا حشر ہوگا۔ ظاہر ہے کہ وہی ہوگا جو 1971ء میں ہمارے ساتھ ہو چکا ہے۔
ق۔ علی بابا نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں حد سے زیادہ مداخلت کر رکھی ہے۔ اگر ان مداخلتوں سے پاکستان کی معیشت عزت طاقت استقامت یا کسی طرح بھی بہتری ہوتی تو ہم اس کے ممنون و مشکور ہوتے لیکن اس کے برعکس ہم چند سالوں میں اسی ٹولے کے اندازہ کیمطابق فیل سٹیٹ کے تیسویں درجہ سے دسویں درجہ پر پستی میں آگئے ہیں۔ علی بابا اور پچاس کے ٹولے نے اپنے اہداف حاصل کرنے کیلئے ہماری انتظامیہ کو برباد کر رکھا ہے۔
ک۔ علی بابا اور پچاس کے ٹولے کے رویہ اور ان کیخلاف الزامات تو اور بھی بہت ہیں لیکن مضمون کو مختصر کرنے کیلئے انہی پر اکتفا کرتے ہیں‘ البتہ ایک اہم بات کا ضرورادراک کرنا چاہیے کہ ہمارے اس ٹولے کیساتھ کافی قریبی تعلقات رہے ہیں اور ہمیں کافی ملٹری ایڈ ملتی رہی ہے اگر اس امداد کا جائزہ لیا جائے تو صاف ظاہر ہے کہ ہم نے انکا ساتھ دیا اور انہوں نے ہمیں اخراجات برداشت کرنے میں مدد دی۔
50 ء کی دہائی میں بغداد، سیٹو، سینٹو معاہدوں کیلئے ملٹری ایڈ، پھر روس کیخلاف جنگ کیلئے افغان مہاجرین کیلئے امداد اور کچھ پاکستان کو امداد آخر میں 9/11 کے بعد ایڈ۔ اگر تفصیل سے غور کیا جائے تو ہر موقع پر پاکستان نے بہت زیادہ مفید خدمات تعاون اور خطرات مول لئے تھے اور ہربار ہمیں ان اقدامات کی بدولت کافی نقصانات اٹھانے پڑے تھے بہرحال کچھ لو کچھ دو کا عمل تو ہوتا ہی رہا ہے لیکن افسوس تب ہوتا ہے جب ایک فریق آنکھیں پھیر لے۔ یہ زیادتی ایک بار نہیں بلکہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کیساتھ بار بار ہو چکی ہے۔
گ۔ 1965ء کی ہندو پاک جنگ کے موقع پر علی بابا کی سراسر زیادتی تھی جس کی وجہ سے صدر پاکستان ایوب خان نے کتاب لکھی تھی جس کا عنوان تھا Friends Not Masters ۔ روس کیخلاف جنگ کے بعد علی بابا نے ہمیں پریسلر قانون سے نوازا اور 9/11 کے بعد تو حد ہی کردی کہ ہمارے دشمن ہندوستان کو تو سول نیوکلیئر ڈیل، سٹراٹیجک اتحادی، کشمیر کیلئے کھلی چھٹی وغیرہ وغیرہ اور ہمیں ڈرانے دھمکانے اور جو رقم دی جاتی ہے اس پر شرائط لگا کر اس قوم کو ذلیل وخوار کررکھا ہے۔ اس وقت ہماری حالت ایک ایسے بھکاری کی سی ہے جسے جھاڑ دیکر کچھ نہ کچھ تھما دیا جائے۔ ایوب خان سچا تھا جس نے علامہ اقبال کا شعر اپنی کتاب کا عنوان بنایا تھا جو صاحب ضمیر ہر موڑ پر باربار دہرا رہے ہیں۔
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
راقم جذبات نہیں بلکہ اپنی ناقص بساط کیمطابق سوچ سمجھ کر اس واضح نیتجہ پر پہنچا ہے کہ علی بابا اور پچاس کا ٹولہ مصمم ارادہ کر چکا ہے کہ پاکستان کے ٹکڑے کرکے اتنا کمزور کردیا جائے کہ ہم انہی چوروں، ڈاکوؤں، اور استحصالیوں کے مرہون منت رہیں۔
ہمارے ملک میں انہیں کی مداخلت کی بنا پر اتنے فتنے کھڑے ہوچکے ہیں اتنے لوگ بمعہ میڈیا بک چکے ہیں اتنے تخریب کار گھس چکے ہیں اور ہمارے اوپر ایسی حکومت مسلط ہوچکی ہے اور ادارے اتنے مجبور ہوچکے ہیں کہ علی بابا اور پچاس کے ٹولے کی کاروائیوں کو روکنا ممکن نہیں رہا یقیناً امریکہ کا راستہ اپنانا خودکشی کے مترادف ہے۔
دوسرا راستہ:۔ جب ایک گھر اندرونی کمزوریوں اور بیرونی مداخلت کے باعث ذلیل وخوار ہوجائے تو اس کا حل یہی ہوگا کہ بیرونی مداخلت سے کنارہ کشی کرلے اور گھر کے اندر ہی اندر حالات کو سنبھالنے کی کوشش کریں‘ ایک کنبہ یا قبیلہ ہجرت بھی کرسکتا ہے تاکہ ماحول میں تبدیلی آئے اور معاملات سدھر جائیں۔
لیکن ایک ملک دس لاکھ مربع کلومیٹر میں واقع ہو اور ایک صد سترملین لوگوں پر مشتمل ہو انہوں نے وہیں رہنا ہے وہیں جینا اور مرنا ہے ہم پاکستان کو اٹھا کر کہیں اور نہیں لے جاسکتے۔
ہم صومالیہ چیچنیا پانامہ بوسنیا، فلسطین یا عراق کی طرح چند ملین لوگ نہیں ہیں کہ ہمیں مارمار کر دبا دیا جائے نہ ہی ہم اتنے غریب ہیں کہ بھوکے مرجائیں گے سر بھی بہت ہیں اور کھیت بھی بہت گندم باجرہ چاول مکئی بھی بہت ہے تاکہ پیٹ بھرجائے۔ کپاس بھی بہت ہے کہ بدن ڈھانپ لیں اور مٹی پتھر سمینٹ اور درخت بھی اتنے ہیں کہ سر چھپا سکیں علی بابا اور پچاس چوروں کے علاوہ دنیا بھی وسیع ہے۔
.1965 1989 اور 1998 میں علی بابا کی رکاوٹوں اور بائیکاٹ کے باوجود ہم نہ صرف زندہ رہے بلکہ ٹھیک ٹھاک پھلے پھولے حتیٰ کہ ہم نے ایٹم بم بھی بنادیا۔ وسائل بھی ہیں اور صلاحیت بھی بس اتحاد ایمان اور منظم ہونیکی ضرورت ہے۔
فیض احمد فیض نے فرمایا تھا:۔
بڑھتے بھی چلو، کٹتے بھی چلو بازو بھی بہت اور سر بھی بہت
بڑھتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل پہ ہی ڈالے جائیں گے
تاریخ گواہی دے رہی ہے اور موجودہ حالات کا تقاضیٰ ہے کہ ہمارے وطن عزیز کی سلامتی اسی میں ہے کہ ہم اپنے اندر ان گنت فتنوں کو دور کرنے کیلئے ریاست ہائے متحدہ سے مکمل Clean Break یعنی چھٹکارہ حاصل کرلیں۔ یہ کام ہماری موجودہ حکومت نہیں کرسکتی اور نہ ہی کوئی اور معمولی ردو بدل یعنی سترہویں ترمیم وغیرہ سے ایسی تبدیلی آسکتی ہے‘ اس کیلئے عوام کی بھرپور شرکت ہی کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔
ہمارا بس ایک ہی مطالبہ ہونا چاہیے علی بابا اور پچاس کے ٹولے سے نجات حاصل ہوجائے ہمارے مطالبے کے خدو خال یہ ہیں۔
اولا۔ پاکستان War on terror
دوم۔ پاکستان امریکہ/ نیٹو کو Transit مراعات ختم کردے۔
سوم۔ امریکہ پاکستان کی سرزمین سے ہوائی زمینی اڈے ختم کرے۔ پاکستان سے سب غیر ملکی جو ٹریننگ، مخبری یا افغانستان کی جنگ کیلئے کسی بھی غرض کیلئے آئے ہوئے ہیں وہ واپس چلے جائیں۔
چہارم۔ امریکہ کا افپاک اپنا کام افغانستان تک محدود رکھے۔ روایت کیمطابق بین الاقوامی تعلقات سفارت خانوں کے ذریعے چلائے جائیں۔
پنجم۔ علی بابا اور پچاس ڈاکو پاکستان میں سیاسی لیڈروں انتظامیہ افواج یا کسی بھی شہری سے بین الاقوامی روایت سے ہٹ کر ملاقاتیں اور مداخلت کردیں۔
ششم۔ باہر سے کسی زمرمے میں امداد صرف حکومت پاکستان کے ذریعے دی جائے جو اعلاناً معاہدے کے ذریعے جاری ہو۔
ہفتم۔ افغانستان میں سے جو امداد پاکستان میں تخریب کاری جاسوسی کیلئے دی جارہی ہے وہ فوراً بند کردی جائے۔
ہشتم۔ پاکستان میں ڈرون حملے اور دیگر جاسوسی پروازیں فوراً بند کردیں۔
نہم۔ پاکستان سے جتنے قیدی بغیر مقدمہ چلائے مغربی ممالک کی (بشمول گوانتاناموبے اورافغانی جیلوں) حراست میں ہیں ان کو اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو فوراً رہا کریں۔ ان سب کا قید میں رکھنے کا حساب دیں۔
دہم۔ علی بابا اور پچاس کا ٹولہ دنیا میں دین اسلام کیخلاف میڈیا کے ذریعہ پروپیگنڈا ختم کردیں۔ اگر یہ کام کیوبا، میانمر ونیزویلا وغیرہ کرسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کرسکتے۔
آخر میں ایک تنبیہ کہ اس مطالبے کو کوئی سیاسی رنگ نہیں دینا چاہیے۔
سوال پاکستان کی سالمیت کا ہے نہ کہ حکومت سازی کا سیاسی جماعتیں علماء سول سوسائٹی طلباء وکیل، تاجر، پروفیشنلز، مزدور کسان غریب امیر مردوزن ریٹائرڈ جو بھی امریکہ سے نجات کا حامی ہے وہ اس عوامی تحریک میں شامل ہوجائے اور بھرپور طریقہ سے حصہ لے۔
جب ہم انشاء اللہ کامیاب ہوجائینگے تو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جنرل الیکشن ہونگے اور عوام جسے چاہیں ووٹ دیں اور انہیں ملک کو چلانے کا کام سونپ دیں۔
جس کیلئے پارلیمنٹ جیسے کسی بھی جعلی واردات کا بہانہ گھڑا جا سکتا ہے تو افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت یا اس کی Replacement بھی علی بابا کا حکم مان کر میدان جنگ میں اتر آئیں گے اور پاکستان کا دو فرنٹ کیخلاف جنگ کا کیا حشر ہوگا۔ ظاہر ہے کہ وہی ہوگا جو 1971ء میں ہمارے ساتھ ہو چکا ہے۔
ق۔ علی بابا نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں حد سے زیادہ مداخلت کر رکھی ہے۔ اگر ان مداخلتوں سے پاکستان کی معیشت عزت طاقت استقامت یا کسی طرح بھی بہتری ہوتی تو ہم اس کے ممنون و مشکور ہوتے لیکن اس کے برعکس ہم چند سالوں میں اسی ٹولے کے اندازہ کیمطابق فیل سٹیٹ کے تیسویں درجہ سے دسویں درجہ پر پستی میں آگئے ہیں۔ علی بابا اور پچاس کے ٹولے نے اپنے اہداف حاصل کرنے کیلئے ہماری انتظامیہ کو برباد کر رکھا ہے۔
ک۔ علی بابا اور پچاس کے ٹولے کے رویہ اور ان کیخلاف الزامات تو اور بھی بہت ہیں لیکن مضمون کو مختصر کرنے کیلئے انہی پر اکتفا کرتے ہیں‘ البتہ ایک اہم بات کا ضرورادراک کرنا چاہیے کہ ہمارے اس ٹولے کیساتھ کافی قریبی تعلقات رہے ہیں اور ہمیں کافی ملٹری ایڈ ملتی رہی ہے اگر اس امداد کا جائزہ لیا جائے تو صاف ظاہر ہے کہ ہم نے انکا ساتھ دیا اور انہوں نے ہمیں اخراجات برداشت کرنے میں مدد دی۔
50 ء کی دہائی میں بغداد، سیٹو، سینٹو معاہدوں کیلئے ملٹری ایڈ، پھر روس کیخلاف جنگ کیلئے افغان مہاجرین کیلئے امداد اور کچھ پاکستان کو امداد آخر میں 9/11 کے بعد ایڈ۔ اگر تفصیل سے غور کیا جائے تو ہر موقع پر پاکستان نے بہت زیادہ مفید خدمات تعاون اور خطرات مول لئے تھے اور ہربار ہمیں ان اقدامات کی بدولت کافی نقصانات اٹھانے پڑے تھے بہرحال کچھ لو کچھ دو کا عمل تو ہوتا ہی رہا ہے لیکن افسوس تب ہوتا ہے جب ایک فریق آنکھیں پھیر لے۔ یہ زیادتی ایک بار نہیں بلکہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کیساتھ بار بار ہو چکی ہے۔
گ۔ 1965ء کی ہندو پاک جنگ کے موقع پر علی بابا کی سراسر زیادتی تھی جس کی وجہ سے صدر پاکستان ایوب خان نے کتاب لکھی تھی جس کا عنوان تھا Friends Not Masters ۔ روس کیخلاف جنگ کے بعد علی بابا نے ہمیں پریسلر قانون سے نوازا اور 9/11 کے بعد تو حد ہی کردی کہ ہمارے دشمن ہندوستان کو تو سول نیوکلیئر ڈیل، سٹراٹیجک اتحادی، کشمیر کیلئے کھلی چھٹی وغیرہ وغیرہ اور ہمیں ڈرانے دھمکانے اور جو رقم دی جاتی ہے اس پر شرائط لگا کر اس قوم کو ذلیل وخوار کررکھا ہے۔ اس وقت ہماری حالت ایک ایسے بھکاری کی سی ہے جسے جھاڑ دیکر کچھ نہ کچھ تھما دیا جائے۔ ایوب خان سچا تھا جس نے علامہ اقبال کا شعر اپنی کتاب کا عنوان بنایا تھا جو صاحب ضمیر ہر موڑ پر باربار دہرا رہے ہیں۔
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
راقم جذبات نہیں بلکہ اپنی ناقص بساط کیمطابق سوچ سمجھ کر اس واضح نیتجہ پر پہنچا ہے کہ علی بابا اور پچاس کا ٹولہ مصمم ارادہ کر چکا ہے کہ پاکستان کے ٹکڑے کرکے اتنا کمزور کردیا جائے کہ ہم انہی چوروں، ڈاکوؤں، اور استحصالیوں کے مرہون منت رہیں۔
ہمارے ملک میں انہیں کی مداخلت کی بنا پر اتنے فتنے کھڑے ہوچکے ہیں اتنے لوگ بمعہ میڈیا بک چکے ہیں اتنے تخریب کار گھس چکے ہیں اور ہمارے اوپر ایسی حکومت مسلط ہوچکی ہے اور ادارے اتنے مجبور ہوچکے ہیں کہ علی بابا اور پچاس کے ٹولے کی کاروائیوں کو روکنا ممکن نہیں رہا یقیناً امریکہ کا راستہ اپنانا خودکشی کے مترادف ہے۔
دوسرا راستہ:۔ جب ایک گھر اندرونی کمزوریوں اور بیرونی مداخلت کے باعث ذلیل وخوار ہوجائے تو اس کا حل یہی ہوگا کہ بیرونی مداخلت سے کنارہ کشی کرلے اور گھر کے اندر ہی اندر حالات کو سنبھالنے کی کوشش کریں‘ ایک کنبہ یا قبیلہ ہجرت بھی کرسکتا ہے تاکہ ماحول میں تبدیلی آئے اور معاملات سدھر جائیں۔
لیکن ایک ملک دس لاکھ مربع کلومیٹر میں واقع ہو اور ایک صد سترملین لوگوں پر مشتمل ہو انہوں نے وہیں رہنا ہے وہیں جینا اور مرنا ہے ہم پاکستان کو اٹھا کر کہیں اور نہیں لے جاسکتے۔
ہم صومالیہ چیچنیا پانامہ بوسنیا، فلسطین یا عراق کی طرح چند ملین لوگ نہیں ہیں کہ ہمیں مارمار کر دبا دیا جائے نہ ہی ہم اتنے غریب ہیں کہ بھوکے مرجائیں گے سر بھی بہت ہیں اور کھیت بھی بہت گندم باجرہ چاول مکئی بھی بہت ہے تاکہ پیٹ بھرجائے۔ کپاس بھی بہت ہے کہ بدن ڈھانپ لیں اور مٹی پتھر سمینٹ اور درخت بھی اتنے ہیں کہ سر چھپا سکیں علی بابا اور پچاس چوروں کے علاوہ دنیا بھی وسیع ہے۔
.1965 1989 اور 1998 میں علی بابا کی رکاوٹوں اور بائیکاٹ کے باوجود ہم نہ صرف زندہ رہے بلکہ ٹھیک ٹھاک پھلے پھولے حتیٰ کہ ہم نے ایٹم بم بھی بنادیا۔ وسائل بھی ہیں اور صلاحیت بھی بس اتحاد ایمان اور منظم ہونیکی ضرورت ہے۔
فیض احمد فیض نے فرمایا تھا:۔
بڑھتے بھی چلو، کٹتے بھی چلو بازو بھی بہت اور سر بھی بہت
بڑھتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل پہ ہی ڈالے جائیں گے
تاریخ گواہی دے رہی ہے اور موجودہ حالات کا تقاضیٰ ہے کہ ہمارے وطن عزیز کی سلامتی اسی میں ہے کہ ہم اپنے اندر ان گنت فتنوں کو دور کرنے کیلئے ریاست ہائے متحدہ سے مکمل Clean Break یعنی چھٹکارہ حاصل کرلیں۔ یہ کام ہماری موجودہ حکومت نہیں کرسکتی اور نہ ہی کوئی اور معمولی ردو بدل یعنی سترہویں ترمیم وغیرہ سے ایسی تبدیلی آسکتی ہے‘ اس کیلئے عوام کی بھرپور شرکت ہی کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔
ہمارا بس ایک ہی مطالبہ ہونا چاہیے علی بابا اور پچاس کے ٹولے سے نجات حاصل ہوجائے ہمارے مطالبے کے خدو خال یہ ہیں۔
اولا۔ پاکستان War on terror
دوم۔ پاکستان امریکہ/ نیٹو کو Transit مراعات ختم کردے۔
سوم۔ امریکہ پاکستان کی سرزمین سے ہوائی زمینی اڈے ختم کرے۔ پاکستان سے سب غیر ملکی جو ٹریننگ، مخبری یا افغانستان کی جنگ کیلئے کسی بھی غرض کیلئے آئے ہوئے ہیں وہ واپس چلے جائیں۔
چہارم۔ امریکہ کا افپاک اپنا کام افغانستان تک محدود رکھے۔ روایت کیمطابق بین الاقوامی تعلقات سفارت خانوں کے ذریعے چلائے جائیں۔
پنجم۔ علی بابا اور پچاس ڈاکو پاکستان میں سیاسی لیڈروں انتظامیہ افواج یا کسی بھی شہری سے بین الاقوامی روایت سے ہٹ کر ملاقاتیں اور مداخلت کردیں۔
ششم۔ باہر سے کسی زمرمے میں امداد صرف حکومت پاکستان کے ذریعے دی جائے جو اعلاناً معاہدے کے ذریعے جاری ہو۔
ہفتم۔ افغانستان میں سے جو امداد پاکستان میں تخریب کاری جاسوسی کیلئے دی جارہی ہے وہ فوراً بند کردی جائے۔
ہشتم۔ پاکستان میں ڈرون حملے اور دیگر جاسوسی پروازیں فوراً بند کردیں۔
نہم۔ پاکستان سے جتنے قیدی بغیر مقدمہ چلائے مغربی ممالک کی (بشمول گوانتاناموبے اورافغانی جیلوں) حراست میں ہیں ان کو اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو فوراً رہا کریں۔ ان سب کا قید میں رکھنے کا حساب دیں۔
دہم۔ علی بابا اور پچاس کا ٹولہ دنیا میں دین اسلام کیخلاف میڈیا کے ذریعہ پروپیگنڈا ختم کردیں۔ اگر یہ کام کیوبا، میانمر ونیزویلا وغیرہ کرسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کرسکتے۔
آخر میں ایک تنبیہ کہ اس مطالبے کو کوئی سیاسی رنگ نہیں دینا چاہیے۔
سوال پاکستان کی سالمیت کا ہے نہ کہ حکومت سازی کا سیاسی جماعتیں علماء سول سوسائٹی طلباء وکیل، تاجر، پروفیشنلز، مزدور کسان غریب امیر مردوزن ریٹائرڈ جو بھی امریکہ سے نجات کا حامی ہے وہ اس عوامی تحریک میں شامل ہوجائے اور بھرپور طریقہ سے حصہ لے۔
جب ہم انشاء اللہ کامیاب ہوجائینگے تو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جنرل الیکشن ہونگے اور عوام جسے چاہیں ووٹ دیں اور انہیں ملک کو چلانے کا کام سونپ دیں۔