ہمارے معصوم مشورے کی پہلی برسی!

آصف علی زرداری صاحب کو صدر پاکستان نہ بننے کا مشورہ سب سے پہلے ہم نے دیا تھا۔ یہ پچھلے سال کی بات ہے اور مہینہ بھی یہی تھا‘ اگست۔ کیونکہ اگلے ماہ یعنی ستمبر کی غالباً 9 تاریخ کو موصوف نے حلف اٹھا لیا تھا۔ ہمارے اس معصوم سے مشورے پر موصوف کے بعض لنگور صفت دوست اور لکھاری خوب اچھلے کودے۔ ہمارے بھرپور لتے لئے گئے اور حضرت صاحب کو سمجھایا گیا کہ نصیب دشمناں کہیں اس احمقانہ مشورے کا اثر ہی قبول نہ کر بیٹھیں۔ حضرت صاحب نے خود بھی، ہر ’’ذہین و فطین‘‘ سیاستدان کی طرح اس بے وقت بلکہ بے تکے مشورے کا بہت برا مانا اور اپنے فیصلے کے حق میں کم و بیش 5 ہزار انتہائی ولایوڑ قسم کے دلائل داغ دیئے۔ موصوف کے ساتھ بحث کرنا بہت آسان مگر انہیں کچھ سمجھانا بے حد مشکل ہے چنانچہ ہم نے بھی چپ سادھ لی اور نہایت طمطراق کے ساتھ حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوئے۔
آج یعنی 3 اگست، ہمارے اس مشورے کی پہلی برسی ہے کیونکہ اس سلسلے کا پہلا فون ہم نے اسی دن کیا تھا۔ کاش آصف علی زرداری صاحب نے اس مشورے پر کان دھرا ہوتا۔ پیپلزپارٹی اور اس کی ہومیو پیتھک حکومت آج جس حال میں ہے، اس کی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے دو عدد پارٹ ٹائم سربراہان میں سے ایک تعلیم مکمل کرنے ولایت بیٹھا رہا جبکہ دوسرا ایوان صدر کی غلام گردشوں کا قیدی بن کر رہ گیا۔ وہ باخبر لوگ جو آج کل انتہائی خطرناک گفتگو کرتے سنائی دیتے ہیں، ایک بات بڑے وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ موجودہ سیٹ اپ نے 5 سال پورے کرنے تھے مگر زرداری صاحب نے صدر بن کر ساری گیم کا ستیاناس کرکے رکھ دیا۔
زرداری صاحب کے ابتدائی ایام میں جو چند توصیفی کالم لکھنے کا ارتکاب ہم سے ہوا اس کی بیشمار وجوہات میں بی بی، ہمدردی، مشرف کی ’’مہربانی‘‘ اور زرداری صاحب کی حکومتی عہدوں میں عدم دلچسپی تھی۔ ہم اس حق میں تو تھے کہ زرداری صاحب نے اگر کچھ بننا ہی ہے تو شیر بنیں اور پارٹی کے ساتھ ساتھ حکومتی قیادت بھی سنبھالیں مگر صدر بن کر نہیں، وزیراعظم بن کر، لیکن یہ کام انہوں نے جب کسی اور کے گلے ڈال دیا تو ہم مزید متاثر ہوئے کہ یہ بلوچ بچہ بہادر بھی ہے اور بے لوث بھی مگر پھر چند ماہ کے اندر اندر اس بلوچ بچے نے جو پینترے بدلے، اس کے بعد پھر امید کی کوئی ایک آدھ بھولی بسری کرن بھی اس طرف سے آتی نظر نہیں آئی۔
آج اس سیٹ اپ کو لپیٹنے اور اس کی جگہ پر بنگلہ دیش ماڈل اور اس سے ملتے جلتے معاملات متعارف کروانے کی باتیں زوروں پر ہیں۔ پچھلے دنوں زرداری کا ایک بہت بڑا جیالا اور انتہائی پڑھا لکھا نوجوان اسلام آباد سے محض بغرض گفتگو لاہور آیا۔ اس کا جوش اور جذبہ دیدنی تھا۔ اس نے لگ بھگ بیس پچیس پراجیکٹ ایسے گنوا دیئے جن پر زرداری صاحب دن رات محنت کررہے ہیں۔ ہم نے گزارش کی کہ ہر پراجیکٹ کا ایک چند سطری بریف ہمیں بھی ارسال کرو تاکہ ہم بھی موصوف کی دوراندیش قیادت پر ایمان لاسکیں مگر آج دو ہفتے گزرنے کے باوجود اس قسم کی کوئی دستاویز ہم تک نہیں پہنچ پائی۔
زرداری صاحب بطور انسان اور بطور ایک دوست یقینا بہت عمدہ ہوں گے مگر بطور قائد؟ پارٹی تتر بتر ہوچکی ہے۔ پنجاب پوری طرح ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ سندھ کے حالات دگرگوں ہیں۔ ایم کیو ایم نواز لیگ کے ساتھ معاشقہ شروع کرنے والی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کی حیثیت گورنر پنجاب سے بھی کم ہے۔ سیاسی احمقوں کا جم غفیر ایوان صدر پر قابض ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کا اپنا وزیراعظم‘ اور پارٹی کے تمام اکابرین میں نسبتاً سب سے زیادہ معقول شخص بذات خود آپ کا شاکی ہے۔ ہر کرپٹ وزیر‘ مشیر اور اہلکار کے سر پر آپ کا دست شفقت نظر آتا ہے۔ کرپشن کی کہانی آج بھی اسی شد و مد کے ساتھ جاری و ساری ہے اور اس کے ڈانڈے یا تو ایوان صدر سے ملتے ہیں اور یا وزیراعظم ہائوس سے۔ گورننس کا عالم یہ ہے کہ بلدیہ کامونکی کے کونسلر آپ لوگوں سے بہتر پرفارم کررہے ہیں۔ آپ کی عمومی معلومات اس قدر ناقص ہیں کہ فرانس میں جہانزیب خان کو سفیر بناکر آپ بھیج تو رہے تھے مگر آپ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ فرانسیسی صدر سرکوزی کے بھائی کے ساتھ خان صاحب کی دوستی کی جو کہانیاں آپ کے گوش گزار کی گئیں سب من گھڑت تھیں۔ دراصل یہ ساری سازش آپ کے ایک ’’پیارے‘‘ کی تھی جو خان صاحب کے والد کا کسی زمانے میں احسان مند رہ چکا ہے چنانچہ اس نے پیرس کے مشہور درزی محمود بھٹی کے ساتھ باہمی مشورے سے یہ پلاننگ کی اور آپ نے افسر مذکورہ کا ایگریما فرانس روانہ کردیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ اظہر من الشمس ہے جس سے آپ کی مزید سبکی ہوئی مگر لگتا ہے معاہدہ بھوربن اور ’’پنجاب فلاپ‘‘ کے بعد آپ اور آپ کے رفقائے کار انتہائی ’’سبکی پروف‘‘ ہو چکے ہیں۔ اب یہ آپ پر چنداں اثر نہیں کرتی۔
اگر آپ غور سے دیکھیں تو عدالت نے جمعہ کے روز جو فیصلہ سنایا، اس میں مشرف تو محض ’’سائڈ کک‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے، اصل ہدف این آر او ہے کیونکہ اس کے ہوتے ہوئے نہ تو ملک آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ ہی کرپشن کو لگام ڈالی جاسکتی ہے۔ آپ نوے یا ایک سو بیس دن والا شوق بھی پورا کر دیکھیں، ہونا وہی ہے جو سکرپٹ کہتا ہے اور نئے سکرپٹ میں جو جو کچھ لکھا ہے وہ آپ کے لیے ہرگز ہرگز باعث مسرت نہیں ہے۔
واشنگٹن والے دوست خواہ مخواہ جہانگیر کرامت کی جھاڑ جھنکار اور اوورہالنگ میں مصروف ہیں حالانکہ یہ حضرات ماسوائے تھنک ٹینک چلانے کے اور کچھ چلانے جوگے نہیں کیونکہ یوکرائن کے ٹینک اور ’’تھنک ٹینک‘‘ میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ اس پر پھر کبھی بات ہوگی، فی الحال یہ قبل از وقت ہے۔
بہرحال آج ہمارے اس ’’معصوم‘‘ مشورے کی پہلی برسی ہے!!

ای پیپر دی نیشن