پاکستان‘ افغانستان اور امریکہ کے سہ فریقی کورگروپ کے اجلاس میں تینوں فریقوں نے افغانستان میں استحکام کیلئے مل کر کام کرنے اور امن و سلامتی کے امور پر ایک دوسرے سے تعاون کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اسلام آباد میں منعقد ہونیوالے اس اجلاس میں گزشتہ روز افغانستان میں وسیع البنیاد مفاہمتی عمل کی حمایت کا بھی اعلان کیا گیا۔ اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران سیکرٹری خارجہ پاکستان سلمان بشیر نے امریکہ کے خصوصی نمائندے مارک گراسمین اور افغان نائب وزیر خارجہ جاوید لدھن کو یقین دلایا کہ امریکہ کے تعاون سے پاکستان افغانستان کے ترقیاتی عمل میں شریک رہے گا۔ اس موقع پر مارک گراسمین نے کہا کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ مفاہمتی عمل پر افغانستان کو مشاورت کرنی چاہیے۔ انکے بقول پاکستان میں امریکی سفارت کاروں کی نقل و حرکت پر پابندی کے معاملہ سے سفارتی سطح پر نمٹا جا رہا ہے‘ امریکہ اب پاکستان کو تنہاءنہیں چھوڑے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس خطہ میں امریکی مفادات‘ افغانستان میں نیٹو افواج کے ذریعے جاری اسکی مفادات کی جنگ کےساتھ ہی وابستہ ہیں‘ چنانچہ نیٹو سربراہان کی لزبن کانفرنس کے فیصلہ کے تحت افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاءکا عمل شروع ہوتے ہی امریکہ کو اس خطہ میں اپنے مفادات پر زد پڑتی نظر آنے لگی ہے اور اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر وہ پاکستان پر دباﺅ ڈال کر اسکی افواج کو افغانستان میں نیٹو افواج والا کردار سونپنے کی اپنے تئیں حکمت عملی تشکیل دیئے بیٹھا ہے۔ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے ایشو پر اور پھر 2مئی کے ایبٹ آباد اپریشن کے بعد پاکستان پر دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کے الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے اسے دباﺅ میں لانے کا مقصد بھی بادی النظر میں اسے افغانستان میں نیٹو افواج والے کردار کی ادائیگی پر مجبور کرنے کا ہے۔ امریکہ کو تو صرف اپنے مفادات سے غرض ہے‘ جس کیلئے وہ دوست دشمن کی تمیز سے بھی بے نیاز ہو جاتا ہے اور طوطا چشمی کرتے ہوئے اپنے دوستوں پر ہی چڑھ دوڑتا ہے جیسا کہ پاکستان کی سرزمین پر اسکی بدمستیوں کا سلسلہ دشمنی کی حدود تک جا پہنچا ہے۔ پاکستان تو پہلے ہی امریکی مفادات کی جنگ میں کودنے کا خمیازہ دہشت گردی کی وارداتوں‘ خودکش حملوں اور ڈرون حملوں کی صورت میں بھگت رہا ہے جس میں شہریوں کا امن و سکون ہی تباہ نہیں ہوا‘ 35 ہزار سے زائد معصوم انسانی جانیں بھی ضائع ہوئی ہیں اور ملکی معیشت کو بھی 60 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچ چکا ہے اس لئے سہ فریقی مذاکرات میں افغانستان کے استحکام کیلئے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنے پر اتفاق کرنےوالے ہمارے حکمرانوں کو ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے کہ آیا ہم افغانستان کیخلاف اس نئی مہم جوئی کے متحمل بھی ہو سکتے ہیں یا نہیں؟ جن غیور افغانوں نے اپنی ماضی کی شاندار روایات کے عین مطابق نیٹو افواج کو اپنی سرزمین پر ناکوں چنے چبواتے ہوئے گزشتہ دس سال سے مزاحمت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے‘ اگر کل کو نیٹو افواج والا کردار پاکستان کی افواج سرانجام دینگی تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسکے ردعمل میں مزاحمت کار افغانوں کے ہاتھوں ہمارا کیا حشر ہو گا۔ امریکہ خود تو اپنی لگائی ہوئی اس آگ سے محفوظ نکل جانا چاہتا ہے مگر اسکے ساتھ ہی ہمیں جھلسوانے کا اہتمام بھی کئے جا رہا ہے جبکہ اسکے ڈرون حملوں میں کمی کے بجائے مزید شدت پیدا ہو گئی ہے اور یہ حملے روکنے کیلئے وہ نہ ہماری پارلیمنٹ اور سیاسی و عسکری قیادتوں کو خاطر میں لاتا ہے اور نہ ہی اپنے حکام کی تشویش کو درخوراعتناءسمجھتا ہے۔ گزشتہ ہفتے اوبامہ انتظامیہ کو سابق امریکی انٹیلی جنس چیف ڈینس بلیئر نے اپنے تجربات کی بنیاد پر مشورہ دیا کہ پاکستان میں ڈرون حملے بند کر دیئے جائیں کیونکہ اسکے ردعمل میں زیادہ تباہی ہو رہی ہے جبکہ اب پاکستان میں تعینات امریکی سفیر کیمرون منٹر نے اپنی حکومت پر زور دیا ہے کہ پاکستان میں ڈرون حملے فوری طور پر بند کر دیئے جائیں۔ اسکے باوجود گزشتہ روز بھی وزیرستان کے گاﺅں قطب خیل میں ایک گاڑی پر ڈرون حملہ کرکے چھ افراد کی جانیں ناحق ضائع کردی گئیں۔
امریکی مفادات کی جنگ میں شمولیت کا خمیازہ بھگتتے بھگتتے ہم ملک کی سالمیت کو چاروں جانب سے سنگین خطرات لاحق کرا بیٹھے ہیں جبکہ خود امریکہ بھی ہمیں مارنے پر تلا بیٹھا ہے اور افغانستان میں ہمارے ممکنہ کردار کی بھنک پڑتے ہی ہماری چیک پوسٹوں اور نواحی آبادیوں پر افغان جنگجوﺅں کے حملوں کا سلسلہ بھی پہلے ہی شروع ہو چکا ہے‘ اگر کل کو پاکستان نے افغانستان میں نیٹو افواج والا کردار سنبھال لیا تو اسکے ردعمل میں ہمیں مزید کیا خمیازہ بھگتنا پڑیگا‘ اس کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں اسلئے امریکی ایلچی مارک گراسمین کا یہ چکمہ کہ امریکہ اب پاکستان کو تنہاءنہیں چھوڑے گا‘ اس جنگ میں ہماری مزید تباہی کا پیغام لاتا نظر آرہا ہے۔
یہ طرفہ تماشہ ہے کہ امریکہ کے دورے پر گئے ہوئے ہمارے شاہانہ مزاج وزراءتک کو تو ایئرپورٹس پر چھان بین کیلئے گھنٹوں کھڑا کرکے انکی عزت نفس مجروح کی جاتی ہے اور کپڑے اتروا کر مزید رسوائی کا اہتمام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ مگر یہاں امریکی سفیر کو انکی حفاظت کے نکتہ¿ نظر سے کراچی جانے سے روکنا بھی پاکستان کو بہت مہنگا پڑ جاتا ہے۔ گزشتہ روز بھی اسی حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کے قائم مقام ترجمان مارک سی ٹونز نے رعونت بھرے لہجے میں پاکستان کو باور کرایا کہ ہمارے سفیر کو کراچی جانے سے روک کر اچھا نہیں کیا گیا۔ اگر اسی امریکی سفیر نے حقائق کا ادراک کرتے ہوئے اپنی حکومت کو ڈرون حملے بند کرنے کا مشورہ دیا ہے تو اس مشورے کو درخور اعتناءنہ سمجھ کر کیا امریکہ اچھا کر رہا ہے؟ پاکستان کو جوابی کارروائی کی دھمکیاں دینے سے پہلے اپنے سفیر کے مشورے پر تو عمل کرلیں اور ڈرون حملوں کی بنیاد پر کشیدہ ہونیوالے پاکستان امریکہ تعلقات کو مزید کشیدگی سے بچالیں۔ اگر پاکستان کی سالمیت کیخلاف امریکی جارحانہ پالیسیاں برقرار رہیں تو ملک کی سلامتی کے تحفظ و دفاع کیلئے کوئی بھی اقدام بروئے کار لانے کا پاکستان کو بھی حق حاصل ہے جس کیلئے ملک کی عسکری قیادتیں گزشتہ کور کمانڈرز میٹنگ میں عندیہ بھی دے چکی ہیں۔
اس تناظر میں ہمارے حکمرانوں کو بھی امریکی خوشنودی کی خاطر کوئی پالیسی اختیار کرنے یا اسکے مفادات کے تحفظ کیلئے اسی کے ساتھ مل کر کام کرنے پر اتفاق کرنے سے پہلے اس امر کا ضرور جائزہ لینا چاہیے کہ اس سے ملکی اور قومی مفادات پر کیا زد پڑ سکتی ہے۔ اگر امریکہ اپنے مفادات کی خاطر کسی کے ساتھ دوستی کو دشمنی میں تبدیل کرتے ہوئے ذرہ بھر دیر نہیں لگاتا تو کیا ہمارے حکمرانوں کو بھی ملکی اور قومی مفاد عزیز نہیں ہونا چاہیے؟ افغانستان میں استحکام کیلئے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنا بھلا ہمارے کونسے مفادات سے مطابقت رکھتا ہے‘ اس لئے بہتر یہی ہے کہ پاکستان کے ساتھ دشمنی پر مبنی امریکی پالیسیوں کا اسی کے لہجے میں جواب دیا جائے اور خود کو امریکی مفادات کی جنگ سے مکمل طور پر نکال لیا جائے‘ بصورت دیگر ملک کی سالمیت امریکہ کے ہاتھوں مستقل خطرات میں گھری رہے گی۔
سرائیکی صوبہ: نیا پنڈورا بکس کھل جائےگا!
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے پنجاب میں نئے ”سرائیکی صوبے“ کے قیام سے متعلق جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ، وزراءاور گورنر کھوسہ سے مشاورت مکمل کر لی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ حکومت نے صوبہ سرحد کے مقبول عام نام کو محض چھوٹے سے گروہ کی سیاسی حمایت حاصل کرنے کیلئے خیبر پختونخواہ سے بدل ڈالا جس کے نتیجے میں ہزارہ صوبے کی پرتشدد تحریک نے جنم لیا اور مثالی یکجہتی کے حامل اس خطے میں شدید کشیدگی پیدا ہو گئی، یہ ایک بڑی تلخ مثال تھی۔ توقع تھی کہ پیپلز پارٹی کی حکومت آئندہ ملکی یکجہتی اور عوام کو آپس میں بانٹنے کی ملت کُش کارروائیوں سے اجتناب کرےگی مگر اربابِ اختیار نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ نئے صوبے بنانے کیلئے کچھ ضرورتیں اور تقاضے ہوتے ہیں۔ اس کیلئے زبان، رنگ و نسل، کلچر یا مذہب کا اختلاف پایا جانا ضروری ہے یا پھر رقبے اور آبادی کے لحاظ سے کوئی صوبہ اتنا بڑا ہو کہ انتظام چلانے میں مشکل پیش آرہی ہو یا اس علاقے کے لوگوں کو یہ شکایت ہو کہ انہیں اقتدار میں شریک نہیں کیا جا رہا اور یہ کہ انکا استحصال ہو رہا ہے۔ جنوبی پنجاب کے سلسلے میں ایسی کوئی شکایت نہیں ہے۔ صوبے کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پنجابی بولی جاتی ہے۔ جسے سرائیکی کہا جاتا ہے وہ پنجابی ہی ہے۔ لہجے کے اختلاف کا مطلب یہ نہیں کہ زبان ہی مختلف ہو گئی ہے۔ اسی طرح کلچر کا بھی کوئی فرق نہیں۔ جہاں تک اقتدار میں شرکت کا تعلق ہے، وزیراعظم، گورنر‘ وزیر خارجہ سمیت بیشتر بڑے بڑے مناصب پر فائز لوگوں کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ مختصراً یہ کہ نیا صوبہ بنانے کیلئے کوئی تو ٹھوس وجہ ہونی چاہئے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت محض ن لیگ کو مشکل صورتحال سے دوچار کرنے اور سیاسی طور پر پوائنٹ سکورنگ کےلئے ایک نہایت ہی خطرناک پنڈورا بکس کھولنے جا رہی ہے کہ جس کو سمیٹنا مشکل ہو جائےگا۔ صوبہ سازی کا یہ افسوسناک ”روگ“ ملک کی یکجہتی، اندرونی استحکام اور امن و سلامتی کو سخت نقصان پہنچائے گا۔ غیر محب وطن عناصر کی حوصلہ افزائی ہوگی اور ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جناح پور، صوبہ کوہ نمک، صوبہ پوٹھوہار، صوبہ بہاولپور اور پھر بلوچستان میں بھی پشتونستان اور آبادکارستان کی تحریکیں اٹھ کھڑی ہوں گی لہٰذا اس ناعاقبت اندیشانہ شغل سے اجتناب کیا جائے اور اسکی بجائے جنوبی پنجاب کے محب وطن عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں کہ اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔
امریکہ مصالحت نہیں‘ مسئلہ کشمیر حل کرائے
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریے میں پاکستان بھارت وزرائے خارجہ کے مذاکرت کا خیرمقدم کرتے ہوئے صدر اوباما کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت پر مل کر کام کرنے کےلئے دباﺅ جاری رکھیں‘ بھارت کے انکار کے باوجود اوباما کو چاہیے کہ وہ پاکستان اور بھارت میں مصالحت اور مذاکرات جاری رکھنے پر زور دیں۔ پاکستان اور بھارت کے مابین سب سے بڑا تنازع کشمیر پر ہے جس پر بھارت نے جارحانہ اور غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ یہ مسئلہ 63 سال سے سلگ رہا ہے‘ امریکی میڈیا کو پاکستان اور بھارت کے مابین صلح کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاءمیں آسانی ہو۔ امریکہ کو افغانستان سے انخلاءمیں پاکستان کے تعاون کی ضرورت تو ہو سکتی ہے‘ بھارت کو اس معاملے میں گھسیڑنا امریکہ کی بدنیتی اور پاکستان دشمنی ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل تک امریکہ جتنا بھی دباﺅ ڈالے‘ پاکستان کا بھارت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ امریکہ دنیا میں جمہوریت کے فروغ‘ قیام امن کا علمبردار ہونے کا دعویدار ہے‘ دنیا میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں مقبوضہ وادی میں ساڑھے سات لاکھ بھارتی افواج کے ہاتھوں ہوتی ہیں‘ مشرقی تیمور‘ جنوبی سوڈان‘ حتیٰ کہ فلسطین سے بھی زیادہ ۔ امریکہ نے اپنی باندی اقوام متحدہ کے توسط سے مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کو آزاد کرادیا‘ فلسطین اور کشمیر میں یہود و ہنود کے مظالم پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر امریکہ کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے مابین مصالحت کرانے کی ضرورت نہیں‘ کشمیر میں رائے شماری کے ذریعے مسئلہ حل کرانے کی ضرورت ہے جس کے باعث جنوبی ایشیاءکا امن داﺅ پر لگا ہے‘ جس سے عالمی امن بھی متاثر ہو رہا ہے۔ امریکہ خطے میں امن چاہتا ہے تو اسے بھارت کو اقوام متحدہ کی قرارداد پر عمل کیلئے مجبور کرنا چاہیے جن میں کشمیریوں کیلئے استصواب تجویز کیا گیا ہے۔ یہ قراردادیں بھارت کے ایماءپر پاس ہوئیں جنہیں بھارت نے تسلیم کیا اور بعدازاں ان پر عمل سے راہ فرار اختیار کر چکا ہے۔
کراچی کی بگڑتی صورتحال
کراچی میں فائرنگ‘ پُر تشدد کارروائیوں اور بوری بند لاشیں ملنے کے واقعات میں گیارہ افراد جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہو گئے ‘ متاثر علاقوں میں رینجرز پہنچ گئے لوگوں کی آمدورفت معطل، قومی اسمبلی میں کراچی کے حالات پر ایم کیو ایم نے واک آﺅٹ کیا۔
کراچی کے حالات عراق اور افغانستان کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔ تخریب کار شتر بے مہار کی طرح جس جانب رُخ کرتے ہیں وہاں لاشوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں، درجن کے قریب انسانوں کو ابدی نیند سلا نا روز کا معمول بن چکا ہے، صدر اور وزیر اعظم کی مداخلت سے ہفتہ کے قریب قاتل اپنی کمین گاہوں میں گھس جاتے ہیں لیکن پھر ابابیلوں کی طرح تخریب کار غول در غول عروس البلاد میں گھس کر نہتے اور بے گناہ عوام کو مولی اور گاجر کی طرح کاٹنا شروع کر دیتے ہیں۔اپوزیشن قومی اسمبلی میں کراچی کے حالات پر سراپا احتجاج ہے، عوامی نمائندے بھی کراچی کے حالات سے اتنے مایوس ہو چکے ہیں کہ انہوں نے بھی کہنا شروع کر دیا ہے کہ اگر کراچی کے حالات پر قابو نہ پایا گیا تو ملک کو بچانا مشکل ہو جائےگا جبکہ حکومت ٹس سے مس نہیں ہو پا رہی۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دینگے، عوام ایک ماہ کا راشن خرید لیں، حکومت اگر حالات کو کنٹرول کرنے میں مخلص ہوتی تو الطاف حسین اتنے سخت امتحان کیلئے عوام کو تیار رہنے کیلئے نہ کہتے۔ حکومت ہوش کے ناخن لے اور کراچی کے حالات پر آنکھیں مت بند کرے بلکہ ملک کو کسی بڑے سانحے سے دو چار ہونے سے بچائے۔ یہی وقت کا تقاضا اور حکومت کے اپنے مفاد میں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس خطہ میں امریکی مفادات‘ افغانستان میں نیٹو افواج کے ذریعے جاری اسکی مفادات کی جنگ کےساتھ ہی وابستہ ہیں‘ چنانچہ نیٹو سربراہان کی لزبن کانفرنس کے فیصلہ کے تحت افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاءکا عمل شروع ہوتے ہی امریکہ کو اس خطہ میں اپنے مفادات پر زد پڑتی نظر آنے لگی ہے اور اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر وہ پاکستان پر دباﺅ ڈال کر اسکی افواج کو افغانستان میں نیٹو افواج والا کردار سونپنے کی اپنے تئیں حکمت عملی تشکیل دیئے بیٹھا ہے۔ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے ایشو پر اور پھر 2مئی کے ایبٹ آباد اپریشن کے بعد پاکستان پر دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کے الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے اسے دباﺅ میں لانے کا مقصد بھی بادی النظر میں اسے افغانستان میں نیٹو افواج والے کردار کی ادائیگی پر مجبور کرنے کا ہے۔ امریکہ کو تو صرف اپنے مفادات سے غرض ہے‘ جس کیلئے وہ دوست دشمن کی تمیز سے بھی بے نیاز ہو جاتا ہے اور طوطا چشمی کرتے ہوئے اپنے دوستوں پر ہی چڑھ دوڑتا ہے جیسا کہ پاکستان کی سرزمین پر اسکی بدمستیوں کا سلسلہ دشمنی کی حدود تک جا پہنچا ہے۔ پاکستان تو پہلے ہی امریکی مفادات کی جنگ میں کودنے کا خمیازہ دہشت گردی کی وارداتوں‘ خودکش حملوں اور ڈرون حملوں کی صورت میں بھگت رہا ہے جس میں شہریوں کا امن و سکون ہی تباہ نہیں ہوا‘ 35 ہزار سے زائد معصوم انسانی جانیں بھی ضائع ہوئی ہیں اور ملکی معیشت کو بھی 60 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچ چکا ہے اس لئے سہ فریقی مذاکرات میں افغانستان کے استحکام کیلئے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنے پر اتفاق کرنےوالے ہمارے حکمرانوں کو ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے کہ آیا ہم افغانستان کیخلاف اس نئی مہم جوئی کے متحمل بھی ہو سکتے ہیں یا نہیں؟ جن غیور افغانوں نے اپنی ماضی کی شاندار روایات کے عین مطابق نیٹو افواج کو اپنی سرزمین پر ناکوں چنے چبواتے ہوئے گزشتہ دس سال سے مزاحمت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے‘ اگر کل کو نیٹو افواج والا کردار پاکستان کی افواج سرانجام دینگی تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسکے ردعمل میں مزاحمت کار افغانوں کے ہاتھوں ہمارا کیا حشر ہو گا۔ امریکہ خود تو اپنی لگائی ہوئی اس آگ سے محفوظ نکل جانا چاہتا ہے مگر اسکے ساتھ ہی ہمیں جھلسوانے کا اہتمام بھی کئے جا رہا ہے جبکہ اسکے ڈرون حملوں میں کمی کے بجائے مزید شدت پیدا ہو گئی ہے اور یہ حملے روکنے کیلئے وہ نہ ہماری پارلیمنٹ اور سیاسی و عسکری قیادتوں کو خاطر میں لاتا ہے اور نہ ہی اپنے حکام کی تشویش کو درخوراعتناءسمجھتا ہے۔ گزشتہ ہفتے اوبامہ انتظامیہ کو سابق امریکی انٹیلی جنس چیف ڈینس بلیئر نے اپنے تجربات کی بنیاد پر مشورہ دیا کہ پاکستان میں ڈرون حملے بند کر دیئے جائیں کیونکہ اسکے ردعمل میں زیادہ تباہی ہو رہی ہے جبکہ اب پاکستان میں تعینات امریکی سفیر کیمرون منٹر نے اپنی حکومت پر زور دیا ہے کہ پاکستان میں ڈرون حملے فوری طور پر بند کر دیئے جائیں۔ اسکے باوجود گزشتہ روز بھی وزیرستان کے گاﺅں قطب خیل میں ایک گاڑی پر ڈرون حملہ کرکے چھ افراد کی جانیں ناحق ضائع کردی گئیں۔
امریکی مفادات کی جنگ میں شمولیت کا خمیازہ بھگتتے بھگتتے ہم ملک کی سالمیت کو چاروں جانب سے سنگین خطرات لاحق کرا بیٹھے ہیں جبکہ خود امریکہ بھی ہمیں مارنے پر تلا بیٹھا ہے اور افغانستان میں ہمارے ممکنہ کردار کی بھنک پڑتے ہی ہماری چیک پوسٹوں اور نواحی آبادیوں پر افغان جنگجوﺅں کے حملوں کا سلسلہ بھی پہلے ہی شروع ہو چکا ہے‘ اگر کل کو پاکستان نے افغانستان میں نیٹو افواج والا کردار سنبھال لیا تو اسکے ردعمل میں ہمیں مزید کیا خمیازہ بھگتنا پڑیگا‘ اس کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں اسلئے امریکی ایلچی مارک گراسمین کا یہ چکمہ کہ امریکہ اب پاکستان کو تنہاءنہیں چھوڑے گا‘ اس جنگ میں ہماری مزید تباہی کا پیغام لاتا نظر آرہا ہے۔
یہ طرفہ تماشہ ہے کہ امریکہ کے دورے پر گئے ہوئے ہمارے شاہانہ مزاج وزراءتک کو تو ایئرپورٹس پر چھان بین کیلئے گھنٹوں کھڑا کرکے انکی عزت نفس مجروح کی جاتی ہے اور کپڑے اتروا کر مزید رسوائی کا اہتمام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ مگر یہاں امریکی سفیر کو انکی حفاظت کے نکتہ¿ نظر سے کراچی جانے سے روکنا بھی پاکستان کو بہت مہنگا پڑ جاتا ہے۔ گزشتہ روز بھی اسی حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کے قائم مقام ترجمان مارک سی ٹونز نے رعونت بھرے لہجے میں پاکستان کو باور کرایا کہ ہمارے سفیر کو کراچی جانے سے روک کر اچھا نہیں کیا گیا۔ اگر اسی امریکی سفیر نے حقائق کا ادراک کرتے ہوئے اپنی حکومت کو ڈرون حملے بند کرنے کا مشورہ دیا ہے تو اس مشورے کو درخور اعتناءنہ سمجھ کر کیا امریکہ اچھا کر رہا ہے؟ پاکستان کو جوابی کارروائی کی دھمکیاں دینے سے پہلے اپنے سفیر کے مشورے پر تو عمل کرلیں اور ڈرون حملوں کی بنیاد پر کشیدہ ہونیوالے پاکستان امریکہ تعلقات کو مزید کشیدگی سے بچالیں۔ اگر پاکستان کی سالمیت کیخلاف امریکی جارحانہ پالیسیاں برقرار رہیں تو ملک کی سلامتی کے تحفظ و دفاع کیلئے کوئی بھی اقدام بروئے کار لانے کا پاکستان کو بھی حق حاصل ہے جس کیلئے ملک کی عسکری قیادتیں گزشتہ کور کمانڈرز میٹنگ میں عندیہ بھی دے چکی ہیں۔
اس تناظر میں ہمارے حکمرانوں کو بھی امریکی خوشنودی کی خاطر کوئی پالیسی اختیار کرنے یا اسکے مفادات کے تحفظ کیلئے اسی کے ساتھ مل کر کام کرنے پر اتفاق کرنے سے پہلے اس امر کا ضرور جائزہ لینا چاہیے کہ اس سے ملکی اور قومی مفادات پر کیا زد پڑ سکتی ہے۔ اگر امریکہ اپنے مفادات کی خاطر کسی کے ساتھ دوستی کو دشمنی میں تبدیل کرتے ہوئے ذرہ بھر دیر نہیں لگاتا تو کیا ہمارے حکمرانوں کو بھی ملکی اور قومی مفاد عزیز نہیں ہونا چاہیے؟ افغانستان میں استحکام کیلئے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنا بھلا ہمارے کونسے مفادات سے مطابقت رکھتا ہے‘ اس لئے بہتر یہی ہے کہ پاکستان کے ساتھ دشمنی پر مبنی امریکی پالیسیوں کا اسی کے لہجے میں جواب دیا جائے اور خود کو امریکی مفادات کی جنگ سے مکمل طور پر نکال لیا جائے‘ بصورت دیگر ملک کی سالمیت امریکہ کے ہاتھوں مستقل خطرات میں گھری رہے گی۔
سرائیکی صوبہ: نیا پنڈورا بکس کھل جائےگا!
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے پنجاب میں نئے ”سرائیکی صوبے“ کے قیام سے متعلق جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ، وزراءاور گورنر کھوسہ سے مشاورت مکمل کر لی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ حکومت نے صوبہ سرحد کے مقبول عام نام کو محض چھوٹے سے گروہ کی سیاسی حمایت حاصل کرنے کیلئے خیبر پختونخواہ سے بدل ڈالا جس کے نتیجے میں ہزارہ صوبے کی پرتشدد تحریک نے جنم لیا اور مثالی یکجہتی کے حامل اس خطے میں شدید کشیدگی پیدا ہو گئی، یہ ایک بڑی تلخ مثال تھی۔ توقع تھی کہ پیپلز پارٹی کی حکومت آئندہ ملکی یکجہتی اور عوام کو آپس میں بانٹنے کی ملت کُش کارروائیوں سے اجتناب کرےگی مگر اربابِ اختیار نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ نئے صوبے بنانے کیلئے کچھ ضرورتیں اور تقاضے ہوتے ہیں۔ اس کیلئے زبان، رنگ و نسل، کلچر یا مذہب کا اختلاف پایا جانا ضروری ہے یا پھر رقبے اور آبادی کے لحاظ سے کوئی صوبہ اتنا بڑا ہو کہ انتظام چلانے میں مشکل پیش آرہی ہو یا اس علاقے کے لوگوں کو یہ شکایت ہو کہ انہیں اقتدار میں شریک نہیں کیا جا رہا اور یہ کہ انکا استحصال ہو رہا ہے۔ جنوبی پنجاب کے سلسلے میں ایسی کوئی شکایت نہیں ہے۔ صوبے کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پنجابی بولی جاتی ہے۔ جسے سرائیکی کہا جاتا ہے وہ پنجابی ہی ہے۔ لہجے کے اختلاف کا مطلب یہ نہیں کہ زبان ہی مختلف ہو گئی ہے۔ اسی طرح کلچر کا بھی کوئی فرق نہیں۔ جہاں تک اقتدار میں شرکت کا تعلق ہے، وزیراعظم، گورنر‘ وزیر خارجہ سمیت بیشتر بڑے بڑے مناصب پر فائز لوگوں کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ مختصراً یہ کہ نیا صوبہ بنانے کیلئے کوئی تو ٹھوس وجہ ہونی چاہئے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت محض ن لیگ کو مشکل صورتحال سے دوچار کرنے اور سیاسی طور پر پوائنٹ سکورنگ کےلئے ایک نہایت ہی خطرناک پنڈورا بکس کھولنے جا رہی ہے کہ جس کو سمیٹنا مشکل ہو جائےگا۔ صوبہ سازی کا یہ افسوسناک ”روگ“ ملک کی یکجہتی، اندرونی استحکام اور امن و سلامتی کو سخت نقصان پہنچائے گا۔ غیر محب وطن عناصر کی حوصلہ افزائی ہوگی اور ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جناح پور، صوبہ کوہ نمک، صوبہ پوٹھوہار، صوبہ بہاولپور اور پھر بلوچستان میں بھی پشتونستان اور آبادکارستان کی تحریکیں اٹھ کھڑی ہوں گی لہٰذا اس ناعاقبت اندیشانہ شغل سے اجتناب کیا جائے اور اسکی بجائے جنوبی پنجاب کے محب وطن عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں کہ اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔
امریکہ مصالحت نہیں‘ مسئلہ کشمیر حل کرائے
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریے میں پاکستان بھارت وزرائے خارجہ کے مذاکرت کا خیرمقدم کرتے ہوئے صدر اوباما کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت پر مل کر کام کرنے کےلئے دباﺅ جاری رکھیں‘ بھارت کے انکار کے باوجود اوباما کو چاہیے کہ وہ پاکستان اور بھارت میں مصالحت اور مذاکرات جاری رکھنے پر زور دیں۔ پاکستان اور بھارت کے مابین سب سے بڑا تنازع کشمیر پر ہے جس پر بھارت نے جارحانہ اور غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ یہ مسئلہ 63 سال سے سلگ رہا ہے‘ امریکی میڈیا کو پاکستان اور بھارت کے مابین صلح کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاءمیں آسانی ہو۔ امریکہ کو افغانستان سے انخلاءمیں پاکستان کے تعاون کی ضرورت تو ہو سکتی ہے‘ بھارت کو اس معاملے میں گھسیڑنا امریکہ کی بدنیتی اور پاکستان دشمنی ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل تک امریکہ جتنا بھی دباﺅ ڈالے‘ پاکستان کا بھارت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ امریکہ دنیا میں جمہوریت کے فروغ‘ قیام امن کا علمبردار ہونے کا دعویدار ہے‘ دنیا میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں مقبوضہ وادی میں ساڑھے سات لاکھ بھارتی افواج کے ہاتھوں ہوتی ہیں‘ مشرقی تیمور‘ جنوبی سوڈان‘ حتیٰ کہ فلسطین سے بھی زیادہ ۔ امریکہ نے اپنی باندی اقوام متحدہ کے توسط سے مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کو آزاد کرادیا‘ فلسطین اور کشمیر میں یہود و ہنود کے مظالم پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر امریکہ کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے مابین مصالحت کرانے کی ضرورت نہیں‘ کشمیر میں رائے شماری کے ذریعے مسئلہ حل کرانے کی ضرورت ہے جس کے باعث جنوبی ایشیاءکا امن داﺅ پر لگا ہے‘ جس سے عالمی امن بھی متاثر ہو رہا ہے۔ امریکہ خطے میں امن چاہتا ہے تو اسے بھارت کو اقوام متحدہ کی قرارداد پر عمل کیلئے مجبور کرنا چاہیے جن میں کشمیریوں کیلئے استصواب تجویز کیا گیا ہے۔ یہ قراردادیں بھارت کے ایماءپر پاس ہوئیں جنہیں بھارت نے تسلیم کیا اور بعدازاں ان پر عمل سے راہ فرار اختیار کر چکا ہے۔
کراچی کی بگڑتی صورتحال
کراچی میں فائرنگ‘ پُر تشدد کارروائیوں اور بوری بند لاشیں ملنے کے واقعات میں گیارہ افراد جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہو گئے ‘ متاثر علاقوں میں رینجرز پہنچ گئے لوگوں کی آمدورفت معطل، قومی اسمبلی میں کراچی کے حالات پر ایم کیو ایم نے واک آﺅٹ کیا۔
کراچی کے حالات عراق اور افغانستان کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔ تخریب کار شتر بے مہار کی طرح جس جانب رُخ کرتے ہیں وہاں لاشوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں، درجن کے قریب انسانوں کو ابدی نیند سلا نا روز کا معمول بن چکا ہے، صدر اور وزیر اعظم کی مداخلت سے ہفتہ کے قریب قاتل اپنی کمین گاہوں میں گھس جاتے ہیں لیکن پھر ابابیلوں کی طرح تخریب کار غول در غول عروس البلاد میں گھس کر نہتے اور بے گناہ عوام کو مولی اور گاجر کی طرح کاٹنا شروع کر دیتے ہیں۔اپوزیشن قومی اسمبلی میں کراچی کے حالات پر سراپا احتجاج ہے، عوامی نمائندے بھی کراچی کے حالات سے اتنے مایوس ہو چکے ہیں کہ انہوں نے بھی کہنا شروع کر دیا ہے کہ اگر کراچی کے حالات پر قابو نہ پایا گیا تو ملک کو بچانا مشکل ہو جائےگا جبکہ حکومت ٹس سے مس نہیں ہو پا رہی۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دینگے، عوام ایک ماہ کا راشن خرید لیں، حکومت اگر حالات کو کنٹرول کرنے میں مخلص ہوتی تو الطاف حسین اتنے سخت امتحان کیلئے عوام کو تیار رہنے کیلئے نہ کہتے۔ حکومت ہوش کے ناخن لے اور کراچی کے حالات پر آنکھیں مت بند کرے بلکہ ملک کو کسی بڑے سانحے سے دو چار ہونے سے بچائے۔ یہی وقت کا تقاضا اور حکومت کے اپنے مفاد میں ہے۔