(گزشتہ سے پیوستہ)
انیسویں صدی تک ماسکو اپنے زوال اور انحطاط سے اس وقت نکل آیا جب شہر میں پہلی یونیورسٹی بنی، میوزیم تعمیر ہوا اور پہلا اخبار شائع ہوا۔ پیٹردی گریٹ کے بعد اس کی بیٹی الزبتھ اور اس کے بعد کیتھرائن دی گریٹ حکمران بنی جس کا دور اصلاحات اور روشن خیالی کے باعث معروف ہوا۔ 1812ءمیں روسی بادشاہ الیگزینڈر اوّل نے فرانس سے کیے گئے ایک معاہدے کی خلاف ورزی کرکے انگلستان کے ساتھ تجارت شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو فرانس کا حکمران نپولین غصے سے بھڑک اٹھا، وہ روس کو سبق سکھانے کیلئے ایک بڑی فوج لے کر ماسکو پر چڑھ دوڑا۔ ماسکو سے سو میل باہر روسی فوجوں نے نپولین کو روکنے کی کوشش کی۔ اس جنگ میں روسی افواج کے ایک لاکھ فوجی ہلاک ہوئے، مگر نپولین کے بپھرے ہوئے سیلاب کو نہ روک سکے۔ پسپا ہوتے ہوئے روسی افواج ماسکو کو برباد کر گئیں۔ فرانسیسی افواج کوشش کے باوجود ماسکو کے قلعے کریملن کو سر کرنے میں ناکام رہیں اور دو تہائی شہر کو آگ لگا دینے کے بعد چالیسویں روز واپس لوٹ گئیں۔ ماسکو کی عمارتیں دوبارہ تعمیر کی گئیں۔ نئی تعمیر کردہ عمارتوں میں سب سے شاندار گرجا گھر کو Cathedral of Christ the Savior کا نام دیا گیا (کیونکہ ان کے بقول یسوع مسیح کے فضل نے ہی انہیں تباہی سے محفوظ رکھا تھا) اس کے بعد ماسکو کو نئی سڑکوں اور دیدہ زیب گرجوں اور دیگر عمارتوں سے مزین کر دیا گیا۔ انیسویں صدی کے وسط میں ماسکو میں صنعت کاری کا آغاز ہوا۔ وسط ایشیاءکی پیدا کردہ کپاس سے ماسکو ٹیکسٹائل انڈسٹری کا لیڈر بن گیا۔ 1900 ءتک ماسکو دس لاکھ نفوس کا شہر بن چکا تھا۔
ادھر سینٹ پیٹرز برگ ملٹری انڈسٹری کا مرکز بن گیا مگر عوام جنگوں سے تنگ آ رہے تھے۔ دیہاتی علاقوں سے روزانہ لاکھوں مزدور فیکٹریوں میں کام کرنے آتے تھے۔ پیٹرز برگ سے انہیں روزی بھی ملی اور حقوق کا احساس اور شعور بھی۔1894ءمیں آہنی اعصاب کے مالک الیگزینڈر سوم کی اچانک وفات نے اس کے بیٹے نکولس دوم کو روس کا بادشاہ (زار) بنا دیا جو ایک کمزور منتظم تھا۔ 1905ءمزدوروں کے ایک گروپ نے بادشاہ کو عرض گزاشت پیش کی کہ ”ہم سینٹ پیٹرز برگ کے باشندے ہمارے بیوی، بچے اور بوڑھے والدین آپ کے حضور انصاف اور تحفظ مانگنے کیلئے آئے ہیں“ اس پُر امن ریلی سے سیاسی سرگرمیوں کی ابتداءہو گئی اور احتجاجی جلسوں اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔22جنوری 1905ءہی کے ایک یخ بستہ اتوار کے روز شہر میں بجلی بند ہو گئی۔ Civic Facilities ختم ہو گئیں۔ ایک لاکھ مزدور ہڑتال پر چلے گئے۔ معروف عیسائی پادری فادر جورتی گیپن (جو پادری ہونے کے ساتھ ساتھ پولیس کا ایجنٹ بھی تھا) نے شاہی محل کے سامنے ایک پُرامن مظاہرے کا اہتمام کیا۔ جس میں مزدوروں اور ان کے اہل خانہ نے حصہ لیا۔ مظاہرین 8 گھنٹے کی ڈیوٹی اور مزدوری میں اضافے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مظاہرین کی تعداد دیکھ کر شاہی گارڈ خوف زدہ ہو گئے۔ انہوں نے خوف زدہ ہو کر فائرنگ کر دی جس سے ایک ہزار افراد مارے گئے۔ ”خونیں اتوار“ نے بادشاہت کو نفرت کی علامت بنا دیا۔ چند سالوں بعد پہلی عالمی جنگ چھڑ گئی اور روس بھی جرمنی اور آسٹریا کے خلاف جنگ میں شریک ہو گیا۔ جس نے روس کی معیشت کو مزید برباد اور قوم کو بدحال کر دیا۔ خوراک کی مزید راشننگ کرنا پڑی۔ 23 فروری1917ءکو خواتین کا عالمی دن تھا۔ دارالحکومت سینٹ پیٹرز برگ میں مرد فیکٹریوں میں اور عورتیں خوراک کا راشن لینے گئی تھیں۔ کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد جواب مل گیا کہ خوراک ختم ہو چکی ہے، کچھ نہیں ملے گا۔ احتجاج کرتی ہوئی خالی ہاتھ عورتیں ابھی سڑکوں پر ہی تھیں کہ فیکٹریوں سے فارغ ہو کر مزدور بھی پہنچ گئے۔ تھکاوٹ اور بھوک سے نڈھال مزدور صورت حال دیکھ کر غصے سے بپھر گئے۔ اجتماع نے بڑی ریلی کی صورت اختیار کر لی۔ صدیوں تک محلوں اور مزدوروں کے درمیان دریائے نیوا حائل رہا۔ کسی نے کبھی دریا پار کرکے محلوں کی جانب بڑھنے کی ہمت نہیں کی تھی۔ یہ عوامی جلوس پہلی بار دریائے نیوا عبور کرکے زار کے شاہی محل (ونٹر پیلس) کے سامنے جا پہنچا۔ اب ان کے نعروں میں روٹی اور امن کے ساتھ ساتھ بادشاہت کے خاتمے کا بھی مطالبہ شامل ہو گیا۔ شاہی گارڈز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ اگلے روز ان کی تعداد دو تین لاکھ تک پہنچ گئی۔ زار نے فوج بلا لی اور اسے امن و امان بحال کرنے کا حکم دیا مگر تربیت یافتہ فوج کا بڑا حصہ جنگ کا ایندھن بن چکا تھا۔ وردی میں ملبوس کچھ ریکروٹ تھے اور کچھ تھکی ہاری فوج جو عوام کی طرح جنگ سے تنگ آ چکی تھی۔ انہیں مظاہرین پر فائرنگ کا حکم دیا گیا تو فوجی ہتھیار پھینک کر مظاہرین کے ساتھ شامل ہو گئے۔ پیلس سکوائر میں فوج کے ہتھیار رکھنے سے زاروں کی تین سو سالہ بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا۔ آخری زار نکولس دوم کو تاج و تخت چھوڑنا پڑا۔ بعد میں خانہ جنگی کے دوران بادشاہ اور ملکہ دونوں قتل کر دیئے گئے۔ 1898ءمیں پہلی کمیونسٹ پارٹی وجود میں آئی جو 1903ءمیں دو حصوں بولشویک اور مینشویک میں تقسیم ہو گئی۔ بولشویک سخت موقف کے حامی (Radical) تھے اور مینشویک سمجھتے تھے کہ روس ابھی سوشلسٹ انقلاب کیلئے تیار نہیں ہے۔
بادشاہت کے خاتمے کے بعد سینٹ پیٹرز برگ میں پروفیشنلز، اشرافیہ اور بیورو کریسی پر مشتمل عبوری حکومت قائم کی گئی۔ سیاسی پنڈتوں کے خیال میں بولشویک پارٹی کے اقتدار میں آنے کے امکانات بہت کم تھے کیونکہ اس کے پاس عوامی حمایت اور پارلیمنٹ میں سیٹیں کم تھیں۔ بولشویک پارٹی کے لیڈر ولادی میر لینن جو سویٹزر لینڈ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا تھا۔ 3اپریل کو جلا وطنی ختم کرکے ٹرین کے ذریعے براستہ جرمنی، سویڈن سے واپس روس پہنچا اور فن لینڈ کے ریلوے اسٹیشن پر اترا۔ چند مہینوں کے بعد ہونے والے انتخابات میں اس کی پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی۔ 7,8 اکتوبر 1917ءکو بولشویکوں کے مسلح گروپوں نے دھاوا بول کر اقتدار کے ایوانوں پر زبردستی قبضہ کر لیا اور یوں روس دنیا کا پہلا کمیونسٹ ملک بن گیا۔ 1918ءمیں دارالحکومت سینٹ پیٹرز برگ سے ماسکو منتقل کر دیا گیا۔لینن 1925ءمیں 53 سال کی عمر میں انتقال کر گیا اور اس کے بعد.... سٹالن نے ٹروٹسکی سمیت لینن کے قریبی ساتھیوں کو راستے سے ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ سٹالن کا دور ظلم، بربریت قتل و غارت گری اور مشرقی یورپ پر زبردستی قبضے سے عبارت ہے۔ مختلف حکمرانوں کے ساتھ کمیونسٹ حکومت 1990ءتک قائم رہی اور پھر گوربا چوف کی اصلاحات یا انقلاب کے بعد معاشی نظریے کے طور پر کمیونزم کا روس سے خاتمہ ہو گیا۔ چلیے اب دنیا کے اس سب سے بڑے ملک کی سیر کرتے ہیں مگر پہلے زاروں کے دارلحکومت سینٹ پیٹرز برگ چلیں گے اور پھر ماسکو۔
............