آپ شاید میرے ساتھ اتفاق کریں کہ 2008ءکے انتخابات کے بعد جمہوریت کو غاصب فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے پھندے سے رہائی مل گئی تھی اور جناب یوسف رضا گیلانی کو ملک کی سیاسی جماعتوں کے منتخب نمائندوں نے قومی اسمبلی میں اتفاق رائے سے وزیراعظم کے عہدے پر فائز کر دیا تھا تو قوم نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ آمریت کے شکنجے سے نکل کر اب حقیقی جمہوریت جو عوام کےلئے عوام کی حکومت، عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے پروان چڑھے گی اور 12 اکتوبر 1999ءکو ترقی معکوس کا جو دور شروع ہوا تھا وہ ختم ہو جائےگا اور ایوب شاہی، ضیا شاہی، یحیٰی شاہی اور پرویز شاہی جمہوریت کے آثار مٹ جائینگے اور پاکستان میں جمہوری ادارے اب صحیح خطوط پر نشو و نما پا سکیں گے لیکن جب آصف علی زرداری نے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن کا عہدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی ایک مبینہ وصیت کے مطابق سنبھال لیا اور پھر قصرِ صدارت پر براجمان ہونے کے منصوبے میں کامیابی حاصل کر لی اور منتخب وزیراعظم کی موجودگی میں اختیارات کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے کر، قصرِ صدارت کو پاکستان پیپلز پارٹی کا سیاسی دفتر بنا دیا تو عوام کو احساس ہو گیا تھا کہ اب ایک نئی قسم کی ”جمہوریت“ ملک پر مسلط کر دی گئی ہے جسے بالعموم ”زرداری جمہوریت“ سے موسوم کیا جاتا تھا اور جس کا بنیادی مقصد مسلم لیگ (ق) کے رہنما مشاہد حسین سید کے مطابق یہ تھا کہ ”لُٹو تے پُھٹو“ !
تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اب مشاہد حسین سید کی پارٹی مخلوط حکومت میں شامل ہے اور اپنے وہ مقاصد حاصل کر رہی ہے جو ق لیگ نے مسلم لیگ (ن) سے الگ ہو کر حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور جنرل پرویز مشرف کے فوجی راج کو تقویت دی تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کو منظر سیاست سے ہٹانے کے بعد آصف زرداری نے قتل کے الزام میں قاف لیگ کو شامل کیا تھا اور اسے ”قاتل لیگ“ سے موسوم کیا تھا لیکن کچھ عرصے کے بعد جب مسلم لیگ (ن) نے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے باوجود، آصف زرداری کی وعدہ خلافیوں پر احتجاج کرتے ہوئے اپنی وزارتیں چھوڑ دیں اور کچھ عرصے کے بعد جمعیت علمائے اسلام (ف) نے بھی یہی عمل اختیار کیا اور ایم کیو ایم نے بعض اہم معاملات پر زرداری گیلانی حکومت کو آنکھیں دکھانے کا رویہ اختیار کئے رکھا اور حکومت کے مرتبان سے ٹیڑھی انگلیوں سے مکھن حاصل کرنے کا طریق اختیار کر لیا تو زرداری صاحب کو متذکرہ ”قاتل لیگ“ کو گلے سے لگانے میں کوئی عار محسوس نہ ہوا اور قاف لیگ کے چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی نے اپنے مقاصد کی فصل کاٹنے کےلئے اس موقعے سے پورا فائدہ اٹھایا۔ چنانچہ اب جناب مونس الٰہی نیب کے شکنجے سے نکل کر محفوظ پناہ گاہوں میں موج میلہ کر رہے ہیں اور مرورِ ایام کے ساتھ پرویز الٰہی کو جو جنرل پرویز مشرف کو دس بار صدر منتخب کرنے کے بیانات دیتے نہیں تھکتے تھے، اب ڈپٹی پرائم منسٹر بن گئے ہیں۔گزشتہ ساڑھے چار سال کے عرصے میں جس قسم کی جمہوریت کو زیر عمل رکھا گیا اسے بجا طور پر ”خواص کی حکومت، خواص کےلئے اور خواص کے ذریعے“ سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ اس ڈاکٹرائن سے عوام کو بالکل نکال دیا گیا اور اب ان کا وجود محض عددی حوالے کےلئے موجود ہے۔ فوج نے سیاست میں عدم مداخلت کا رویہ اختیار کر کے اور مسلم لیگ (ن) نے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کر کے، بظاہر حقیقی جمہوریت کو پروان چڑھانے کی کوشش کی لیکن گزشتہ ساڑھے چار سال کے واقعات شہادت دیتے ہیں کہ حکمران جماعت نے زیادہ وقت قومی اداروں کو تباہ کرنے اور کرپشن کو بے محابا فروغ پذیر ہونے کا موقع دیا اور اس حقیقت کو یکسر نظر انداز کر دیا کہ اکیسویں صدی میں حکومت کرنے کےلئے انیسویں صدی کے حربے استعمال نہیں ہو سکتے۔ میڈیا کی آزادی نے بازار کے عام آدمی کو جو شعور عطا کیا ہے اس کو زیادہ م¶ثر آواز کے ساتھ تصویر نے بنا دیا ہے۔ چنانچہ ملک کے کسی دور افتادہ کونے میں وقوع پذیر ہونےوالا واقعہ اب چھپایا نہیں جا سکتا۔ ٹیلی ویژن جب معمولی واقعے کو عوام کا مشاہدہ بنا دیتا ہے تو ردعمل خوفناک ہو جاتا ہے اور وہ سڑکوں پر آ کر توڑ پھوڑ کرنے، املاک کو آگ لگانے، ٹریفک بند کرنے اور حکومت کےخلاف نعرہ بازی سے گریز نہیں کرتے۔ وہ منظر عبرتناک نظر آتا ہے جب بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کےخلاف عوام احتجاج کر رہے ہوتے ہیں اور انکی محافظ پولیس ان پر لاٹھی چارج کر رہی ہوتی ہے، آنسو گیس کے گولے پھینکتی ہے اور کچھ عوام کو ڈھیر بھی کر دیتی ہے۔ المناک حقیقت یہ ہے ”زرداری جمہوریت“ جو مفاہمت کے پردے میں محاذ آرائی کی حکمت عملی آزما رہی ہے۔ ایک طویل عرصے سے اعلیٰ عدلیہ سے متصادم ہے ایک وزیراعظم کو فارغ خطی مل چکی ہے، دوسرا بھی سابق وزیراعظم کے نقوش پا پر چل رہا ہے اور منی لانڈرنگ کیس میں عدالت عظمیٰ کے حکم پر سوئس حکام کو خط لکھنے پر آمادہ نہیں اور بیرونی دنیا جمہوریت کےساتھ اس مذاق کو دیکھ دیکھ کر ہنس کر رہی ہے۔ اربوں روپوں کے سیکنڈلوں میں الجھے ہوئے اس ملک کو عدلیہ راہ راست پر لانے کی آرزو مند ہے اور باور کرا رہی ہے کہ جمہوریت اور حکمرانوں کو اگر اخلاق کی اعلیٰ قدروں کا پابند نہ کیا گیا تو جمہوریت فسطائیت میں تبدیل ہو جائےگی۔ پاکستان اسلام کی جمہوری قدروں کے فروغ کے لئے دو قومی نظریے کی اساس پر بنایا گیا تھا۔ بنیادی مقصد ایک مثالی روحانی نظام قائم کرنا تھا جو فرد کو مادی بوجھ سے آزاد کر دے اور کائنات کی روحانی تعبیر عمل میں لائے۔ اس کےلئے ضروری تھا کہ حکمران عوام کے سامنے اپنے کردار کو مثالی بنا کر پیش کرتے لیکن اب حکومت کے ایوانوں میں ہر طرف داغدار بندے کرپشن کی کثرت کے ڈکار مار رہے ہیں اور عوام روز افزوں گرانی، بے روزگاری، عدم تحفظ، لوٹ مار، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور جمہوری قدروں کی پامالی کا شکار ہیں زندگی میں موت کا نظارہ کر رہے ہیں۔ ”زرداری جمہوریت“ میں متذکرہ عناصر اہمیت رکھتے ہیں اور یہ اب ناموسوم نہیں ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان حالات میں ترقی معکوس کو حکمران کہاں تک لے جائینگے۔ کیا اگست 1947ءمیں تعمیر کا جو سفر شروع ہوا تھا کیا وہ ”زرداری جمہوریت“ میں تخریب کا شکار نہیں ہو گیا؟ اپنے دل پر ہاتھ رکھئے اور جواب دیجئے کہ کیا ہمارے حکمران ہمیں معدوم کرنے کے درپے نہیں؟ اور پاکستان کی جمہوریت کس قسم کی جمہوریت ہے جس کی کوئی کل سیدھی نظر نہیں آتی۔ قائداعظم کا پاکستان پہلے دو ٹکڑوں میں میں تقسیم کیا اور اب بچا کھچا پاکستان بھی خطرات میں گِھرا ہوا ہے۔