اگست کا مہینہ پاکستان کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس کی 14 تاریخ کو حضرت قائداعظمؒ کی ان تھک کوششوں اور قائدانہ رہنمائی میں پاکستان ایک اسلامی مملکت کے طور پر .... شہود پر آیا۔ یہ کیسے معرض وجود میں آیا ایک لمبی داستان ہے۔ بہرحال ہندوستان کے متعصب لبہن کانگرسی لیڈروں نے سر توڑ کوششیں کیں کہ پاکستان نہ بن سکے مگر قائداعظمؒ کی بے مثال بصیرت اور آہنی عزم کے آگے ان کی ایک نہ چلی اور اللہ تعالیٰ کے بے پایاں فضل و کرم سے پاکستان دنیا کی ایک بڑی مسلمان ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر مغربی اور مشرقی پاکستان کے نام سے ابھرا۔ قائداعظمؒ کو اس کے حصول کے لئے اس قدر محنت کرنی پڑی کہ ان کی صحت جواب دے گئی اور وہ قیام پاکستان کے ایک سال کے اندر ہی خالق حقیقی کے پاس جا پہنچے بس پھر کیا ہوا۔ یہ نوزائیدہ مملکت ناہنجار سیاستدانوں‘ اقتدار کے رسیا جرنیلوں اور مفاد پرست بیورو کریسی کے اس بری طرح ہتھے چڑھی کہ رل کر رہ گئی اور آج اس کا حشر سب کے سامنے ہے۔ ان شیطان صفت افراد کے ہاتھوں وطن عزیز دو ٹکڑے ہو کر رہ گیا۔ یہ افراد اپنے مفادات کی خاطر بری طرح آج بھی اس سے چمٹے ہوئے اسے بھنبھوڑ رہے ہیں۔
قوم کی حالت اس قدر قابل رحم ہو چکی ہے کہ بیان نہیں کی جا سکتی۔ پیارا وطن ہر طرف سے مہیب خطرات میں گھِر چکا ہے۔ مگر ظالم حاکم سکھ چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ پاکستان جس خونی سمندر سے گزر کر بنا اس کا منظر آنکھوں کے سامنے آتے ہی جگر ریزہ ریزہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ نئی نسل کو ان حالات سے جان بوجھ کر بے خبر رکھا گیا۔ تاکہ ان لٹیروں کے لئے یہ کسی پریشانی کا موجب نہ بن سکے۔ پاکستان بنتے وقت میری عمر کوئی 12 سال تھی۔ میرا گا¶ں جوڑہ چھتراں تحصیل و ضلع گورداسپور سے سات میل کے فاصلے پر تھا۔ 12 اگست کو اعلان ہوا کہ گورداسپور کو پاکستان میں شامل کیا گیا ہے۔ جس پر مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مگر 13 اگست کو ہندو¶ں اور انگریزوں کی ملی بھگت سے گورداسپور کو ہندوستان میں شامل کر دیا گیا ہے۔ بس پھر مسلمانوں میں مایوسی اور پریشانی پھیل گئی۔ ساتھ ہی ہندوستان کے اکناف و اطراف سے مسلمانوں کے قتل عام کی ہیبت ناک خبریں آنا شروع ہو گئیں۔ مسلمانوں کے قافلوں کے قافلے تہہ تیغ کر دئیے گئے۔ مسلمانوں سے لدی پوری کی پوری ریل گاڑیاں خون میں نہلا دی گئیں۔ ہزاروں مسلمان پاکباز بیبیاں ہندو سکھوں کی ملی بھگت سے عصمتیں لٹوا بیٹھیں اور ہزاروں ہندو¶ں سکھوں کے قبضے میں چلی گئیں اور سسکتی بلکتی آج تک ان کے ناجائز بچوں کو جنم دینے پر مجبور ہیں۔ ہزاروں مسلمان بچے ظالم بلوائیوں کی سنگینوں کا نشانہ بن گئے۔
ان حالات میں ہمارے بڑوں نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان آنے کا فیصلہ کر لیا اور انتہائی بے بسی اور خوف کے عالم میں لٹے پٹے دو دن کے سفر کے بعد ہر دو چھنی گا¶ں کے راستے نیناکوٹ کے نزدیک واقع ملاحوں کے راوی دریا پتن پر پہنچے۔ جہاں پہلے سے مسلمانوں کا جم غفیر کوئی ایک لاکھ کی تعداد میں دریا پار جانے کے لئے مضطرب تھا کہ ہمارے پہنچنے کے اگلے ہی روز پچاس کے قریب سکھ گھڑ سوار مسلح بلوائیوں نے مجمع پر فائر کھول دیا۔ بس پھر زبردست بھگدڑ مچ گئی۔ ہزاروں کی تعداد موت کا نشانہ بن گئی۔ ہزاروں جان بچانے کے لئے دریا میں کود پڑے اور دریا کی بے رحم لہروں میں بہہ گئے۔ ایک قیامت برپا تھی۔ ملاح خطیر رقمیں لے کر خاص خاص کو دریا پار پہنچا رہے تھے۔ میرے مرحوم چچا نے برے بھلے اسلحے سے کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ مقابلہ کیا مگر شہادت کا جام پینے پر مجبور ہو گئے۔ ہمارے کافی عزیز اقرباءبھی کچھ سکھوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے اور کچھ دریا میں لقمہ اجل ہو گئے۔ ہماری والدہ محترمہ کے پاس اپنا اور دوسرا سیر بھر زیور تھا جو ملاحوں نے سارے کا سارا لے لیا اور ہمیں پار پہنچا دیا۔ بھوکے پیاسے نیناکوٹ سے شکر گڑھ اور پھر نارووال جا کر بے سرو سامانی کے عالم میں آباد ہوئے۔ گا¶ں سے دریائے راوی کے پتن تک مسلمانوں کی کٹی پھٹی خون سے لبریز لاشوں سے اٹے ہوئے راستوں کو عبور کرتے ہوئے جس طرح پہنچے۔ وہ خوفناک اور دل دہلا دینے والا منظر آج بھی جب آنکھوں کے سامنے پھرتا ہے تو کئی کئی راتیں نیند حرام ہو جاتی ہے۔ موجودہ ڈاکو لٹیرے حکمرانوں کو ملک و قوم کو کنگال کر اور ان گنت خطرات کے حوالے کرکے بھارت سے خسارے کی تجارت کرنے اور درندے کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی پڑی ہے۔ نئی نسل کو کون سمجھائے کہ ان ظالم حاکموں سے ملک و قوم کی جان چھڑانے کیلئے فوری طور پر میدان میں آئیں ورنہ کچھ بھی نہیں بچے گا۔