لاہور (خبر نگار) حکمران اختیارات کی عوام تک منتقلی نہیں چاہتے۔ سپریم کورٹ کے احکامات نہ ہوتے تو بلدیاتی نظام کا بل پیش بھی نہ ہوتا۔ موجودہ مجوزہ بلدیاتی بل منظور نہیں ہے۔ خواتین کی کم از کم نمائندگی 33 فیصد کی جائے۔ ان خیالات کا اظہار سا¶تھ ایشیا پارٹنرشپ کے محمد تحسین، عورت فا¶نڈیشن کی ممتاز مغل، فرزانہ مختار، محمد عرفان اور دیگر نے گذشتہ روز مقامی حکومتوں کے حوالے سے قانون سازی کے بارے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ محمد تحسین نے کہا کہ حکمران دل سے اختیارات کی منتقلی نہیں چاہتے۔ سندھ میں بھی 4 طرح کا بلدیاتی نظام سامنے لایا جا چکا ہے۔ بھارت کے آئین میں 72 دفعہ مقامی حکومتوں کا ذکر ہے۔ یہ جمہوریت کا پہلا ستون ہے یہاں سے جمہوریت کا آغاز ہوتا ہے۔ ممتاز مغل نے کہا کہ عورتوں کی 33 فیصد نمائندگی ہر حال میں ضروری ہے۔ نئے مجوزہ نظام میں عوام کے نمائندوں کو اختیارات نہیں سونپے جا رہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ پنچایت اور جرگے کو تسلیم نہیں کرتی۔ نئے نظام میں پنچایت کو لایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مصالحتی انجمن میں خواتین کی نمائندگی لازم ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی بنیادوں پر جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہونے چاہئیں۔ محمد عرفان نے کہا کہ 18 ویں ترمیم میں صوبوں کو وفاق سے اختیارات مل گئے مگر صوبے اضلاع کو اختیارات نہیں دینا چاہتے۔ حکمران 58 ٹو بی کے مخالف ہیں۔ اس کا خاتمہ کر چکے ہیں مگر بلدیاتی حکومتوں کیلئے 58 ٹو بی چاہتے ہیں۔ نئے نظام میں بلدیاتی حکومتیں ”ماتحت ادارے“ بن جائیں گے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں ”میونسپل ٹیکسیشن“ صوبوں کے پاس ہیں۔