عمران خان کے استعفوں کے عندیہ کے بعد طاہر القادری کا یوم شہداءکے نام پر تخریبی سیاسی ایجنڈے کا اعلان

مفاداتی سیاست میں سسٹم اور ملک کو نقصان پہنچانے سے گریز کیا جائے


اس ماہ اگست کے دوران حکومت کے گرد گھیرا تنگ کرنے کیلئے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے ممکنہ احتجاجی پروگراموں کے پتے شو کرنا شروع کر دئیے ہیں۔ گذشتہ روز تحریک انصاف کی جانب سے اپنے 14 اگست کے آزادی مارچ کو کامیاب بنانے کی حکمت عملی کے تحت تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفے 13 اگست کو پیش کرنے کا عندیہ دیا گیا جس کی تحریک انصاف کی ترجمان شیریں مزاری نے تصدیق نہیں کی جبکہ اب ادارہ منہاج القرآن کے ڈاکٹر طاہر القادری نے جارحانہ انداز میں اپنی تنظیم کی جنرل کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے 10 اگست کو ”یوم شہدا“ اور آج 4 اگست سے 9 اگست تک ہفتہ شہدا منانے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی باور کرایا ہے کہ وہ یوم شہداءکو پُرامن رکھنے کی ذمہ داری لیتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے ارکان کو یہ حکم بھی دیا کہ وہ اسلام کے قصاص کے فلسفے کے تحت اپنے 15 کارکنوں کے بدلے 15 پولیس والوں کی جانیں لیں جس کیلئے وہ جتھے بن کر پولیس اہلکاروں کے گھروں پر ٹوٹ پڑیں اور ان کی خواتین کو حفاظتی تحویل میں لے کر اپنے ساتھ ادارہ منہاج القرآن لے آئیں تاکہ ان سے ادارہ منہاج القرآن سے 15 شہید کارکنوں کی روحوں کو ایصال ثواب کیلئے قرآن خوانی کرائی جا سکے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے یہ کہہ کر بھی اپنے کارکنوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی کہ حکومت نے 10 اگست کے یوم شہداءمیں کسی قسم کا رخنہ ڈالنے کی کوشش کی تو پھر دما دم مست قلندر ہو گا اور ہمارا یوم شہداءجاتی عمرہ کے اندر منایا جائے گا۔ انہوں نے لگے ہاتھوں حکومت کو یہ الٹی میٹم بھی دے دیا کہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف خود ہی فیصلہ کر لیں انہوں نے پہلے وفاقی حکومت کی قربانی دینی ہے یا پنجاب حکومت کی۔ ان کے بقول حکومت کی جانب سے ادارہ منہاج القرآن کے 10 اگست کے یوم شہداءکو پُرتشدد بنایا گیا تو حکمران اس کے ردعمل میں نشانِ عبرت بن جائیں گے۔ اگرچہ بعض حکومتی سیاسی حلقوں کی جانب سے اس رائے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ عمران خان کے آزادی مارچ اور طاہر القادری کے انقلابی ایجنڈے سے حکومت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کے بقول تحریک انصاف نے خیبر پی کے حکومت چھوڑ دی تو اس کی جگہ نئی حکومت آ جائے گی اور تحریک انصاف کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے استعفوں سے خالی ہونے والے حلقوں پر ضمنی انتخابات کرا دئیے جائیں گے تاہم بعض سیاسی حلقے 14 اگست سے پہلے عمران خان اور طاہر القادری کے مابین اتحاد کے امکان کا عندیہ بھی دے رہے ہیں جس سے ملک میں سیاسی درجہ حرارت بڑھتا نظر آ رہا ہے جبکہ اس میں کشیدگی اور اشتعال کا عنصر شامل ہونے سے سسٹم کی بقا کیلئے بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اس لئے اس موقع پر اپوزیشن قائدین ہی نہیں، حکومت کو بھی فہم و تدبر سے کام لینا ہے اور ایسی کوئی غلطی کی جائے نہ دہرائی جائے جو ماضی کی طرح ماورائے آئین اقدام والوں کو جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا کوئی جواز مہیا کرے۔ اگر حکومت سابقہ روایات کے مطابق جشن آزادی کے موقع پر قوم میں ملی جذبہ ابھارنے کیلئے جشن آزادی کی تقریبات اور پروگراموں کو ترتیب دیتی جن میں یہ عندیہ موجود نہ ہوتا کہ ان تقریبات کا اہتمام عمران خان کے آزادی مارچ یا طاہر القادری کے انقلابی ایجنڈے کا توڑ کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے تو یقیناً قوم اسی جذبہ کے تحت جشن آزادی کی تقریبات میں حصہ لیتی مگر حکومتی اعلانات اور بیانات میں یہ واضح اشارے موجود ہوتے ہیں کہ یہ سب بندوبست عمران خان کے آزادی مارچ، طاہرالقادری کے ساختہ انقلاب کو روکنے کیلئے کیا جا رہا ہے چنانچہ اس حکومتی پالیسی سے ہی اپوزیشن کو حکومت مخالف تحریک کے لئے صف بندی کا موقع ملتا ہے۔ اگر تو حکومت نے اپنے اقتدار کے ایک سال سے زائد کے عرصے کے دوران عوام کے روٹی روزگار کے مسائل، غربت، مہنگائی، بدامنی اور توانائی کے بحران کے خاتمہ کیلئے قوم کو امید کی کرن دکھا دی ہوتی اور ان سنگین مسائل کے حل کیلئے عملی اقدامات اٹھائے گئے ہوتے تو عمران خان اور طاہر القادری کو حکومت مخالف پروگراموں کے اعلانات کی جرا¿ت ہوتی نہ انہیں عوام کی جانب سے اپنے ان احتجاجی پروگراموں کیلئے پذیرائی حاصل ہوتی۔ اول تو حکومت نے خود سے عوام کے ساتھ لاتعلقی والا رویہ اختیار کر کے اور پہلے سے موجود ان کے مسائل کو مزید گھمبیر بنا کر خود حکومت مخالف ممکنہ تحریک کی راہ ہموار کی جبکہ مزید بے تدبیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اب عمران خان اور طاہر القادری کے احتجاجی پروگراموں کو آگے بڑھانے کا بھی خود ہی اہتمام کیا جا رہا ہے جبکہ حکمرانوں کی ان عاجلانہ پالیسیوں کی بنیاد پر ہی سسٹم کے استحکام کیلئے ان کی ڈھال بننے کا اعلان کرنے والے پیپلز پارٹی کے قائدین بھی اب حکومتی پالیسیوں اور اقدامات کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے نظر آتے ہیں اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے بھی ملک اور سسٹم کو بچانے کی خاطر میاں نواز شریف کو وزراتِ عظمیٰ چھوڑ دینے کا مشورہ دیا ہے۔ اس لئے حکومتی وزیروں مشیروں کو غیر سنجیدہ بیان بازی اور محاذ آرائی کی سیاست کو فروغ دینے کی پالیسی ترک کر کے سیاسی رواداری اور افہام و تفہیم کی راہ اختیار کرنی چاہئے اور بالخصوص عمران خان کو آزادی مارچ کیلئے فری ہینڈ دے دینا چاہئے جس سے اس حکومت مخالف پروگرام میں تشدد کا عنصر شامل ہونے کا امکان نہیں رہے گا۔ وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت منعقد ہونے والے اعلیٰ سطح کے حکومتی اجلاس میں اگرچہ یہ باور کرایا گیا ہے کہ اپوزیشن کیلئے مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں جبکہ اس اجلاس میں تحریک انصاف کی قیادت کو لچک کا مظاہرہ کرنے کیلئے بھی کہا گیا ہے مگر حکومت کی اصل حکمتِ عملی کی موجودگی میں یہ پالیسی محض رسمی کارروائی نظر آتی ہے۔ اس فضا میں تو حکومت کو نہ صرف عوام کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے انہیں غربت، مہنگائی، بیروزگاری کے سنگین مسائل سے نجات دلانے اور توانائی کا بحران حل کرنے کے عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں بلکہ اپوزیشن لیڈران کے خلاف بلیم گیم کا سلسلہ بھی ترک کر دینا چاہئے۔ اس کے بعد بھی عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری حکومت گرانے کے اپنے اپنے پروگراموں پر ہی بضد رہتے ہیں تو اس سے عوام کو بھی ان کے اصل ایجنڈے سے مکمل آگاہی ہو جائے گی جبکہ عوامی تائید کے بغیر کسی حکومت مخالف تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنا تو کجا، آگے بڑھانا بھی ناممکن ہوتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے گذشتہ روز اپنے جس احتجاجی ایجنڈے کا اعلان کیا وہ بادی النظر میں ملک میں لاقانونیت، بدامنی اور خانہ جنگی کو فروغ دینے والا ایجنڈہ ہے جبکہ کوئی امن پسند شہری اور جمہوریت پسند سیاسی جماعت اور اس کے لیڈران ایسے ایجنڈے کا ساتھ دینے کو ہرگز تیار نہیں ہوں گے، سوائے ان کے جو ایسے ایجنڈے کے ذریعے ماورائے آئین اقدام والوں کی راہ ہموار کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں تاہم ایسے جمہوریت اور آئین و قانون دشمن ایجنڈے کو ناکام بنانے کیلئے حکومت کو عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہو گا جو ان کا حال اور مستقبل بہتر بنانے کی ضمانت دئیے بغیر ممکن نہیں۔ اگر حکومت طاہر القادری کی ”للکار“ کا سیاسی حکمتِ عملی کے تحت جواب دے گی تو دوسری سیاسی جماعتیں بھی ڈاکٹر طاہر القادری کے تخریبی ایجنڈے کے خلاف ماضی کی طرح حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آئیں گی، لیکن اگر حکومت خود ہی سیاسی محاذ گرم کرنے کی پالیسی پر گامزن رہی تو پھر حکومت ہی نہیں، سسٹم کی بساط کا لپیٹا جانا بھی نوشتہ¿ دیوار ہے۔

ای پیپر دی نیشن