رمضان المبارک 1435ھ ہجری کے اختتام پر جب عید الفطر منائی جا رہی تھی تو غزہ پر عارضی سیز فائر کے معاہدہ اسرائیل نے توڑ دیا تھا اور اس محصور شہر پر جہاں حماس نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی، وحشت ناک ہوائی حملوں اور بربریت آمیز زمینی فوجی آپریشن کا سلسلہ شروع کر دیا۔چنانچہ فلسطینی مائیں عید کے روز بھی اپنے بچوں کی لاشیں اٹھاتی رہیں، ان حملوں میں 11بچوں سمیت مزید تیس افراد شہید ہو گئے جبکہ غزہ میں فلسطین کے شہیدوں کی تعداد 1029ہوگئی، دوسری طرف ایک اسرائیلی اعلیٰ پولیس افسر نے غزہ پر صیہونی افواج کی تین ہفتوں سے جاری بربریت کا بھانڈا پھوڑ دیا اور کہا کہ جن تین اسرائیلی لڑکوں کے اغوا اور قتل کے الزام میں فلسطینی مزاحمت کاروں کو ملوث کیا گیا تھا، ان کا اس واردات سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ جبکہ یہ حقیقت بھی سامنے آ چکی ہے کہ جرمنی کے آمر مطلق ہٹلر کے زمانے میں جرمنی میں یہودیوں کا جو ”ہولو کاسٹ“ ہوا تھا ۔ چونکہ اسی قسم کا ہولو کاسٹ اکیسویں صدی میں نہیں ہو سکتا۔ اس لئے وزیر اعظم نتین یاہو فلسطین میں عورتوں اور بچوں کا قتل عام کر رہے اور وہ اپنے تیئس ہٹلر کے ساتھ اپنا نام لکھوانے کے لئے کوشاں ہے ۔ اس سے بعض تجزیہ نگاروں نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ نتین یاہو اس بات کو سچ ثابت کرنے پر تل گیا ہے کہ ہٹلر نے یہودیوں کے خلاف ٹھیک اقدام کیا تھا۔افسوسناک بات یہ ہے کہ اسرائیل جب غزہ(فلسطین) میں مسلمان کشی کر رہا ہے۔ ہسپتالوں تعلیمی اداروں، کاروباری مراکز پر حملے کر رہا ہے اور مساجد کو شہید کر رہا ہے تو انسانی حقوق کی محافظ عالمی طاقتیں صرف تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ چنانچہ دنیا کی واحد سپر پاور کا صدر بارک اوباما محض لفظوں کی تاش کھیل رہا ہے۔ مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت کا تختہ الٹنے والے مصری صدر ایسسی نے ان مظالم پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور ایسے بے روح حل پیش کر رہے ہیں جو عارضی امن کی ضمانت بھی نہیں بن سکتے۔ اور اسرائیل ” ڈاہیا ڈاکٹر ائن“ پر عمل کر رہا ہے جو 2006ءمیں ایک چھوٹے سے گاﺅں سے اسرائیل پر گولیاں چلانے کے بعد وضع کی گئی تھی اور جس کا مطلب اپنے نامزد دشمن کے خلاف بے پناہ طاقت استعمال کرنا۔ اس کے ٹھکانوں کو جنگی پنا ہ گاہیں موسوم کرنا اور پھر انسانی زندگیوں اور املاک کی تباہی و بربادی تھا۔ اس ڈاکٹرائن کے تباہ کن اثرات کی طرف اقوام متحدہ کے ایک حقائق دریافت کرنے والے کمیشن نے واضح ریمارکس دیئے تھے لیکن اسرائیل نے غزہ پر ایک ایسے الزام کی پاداش میں جو غلط ثابت ہو چکا تھا حملہ کر دیا تو اقوام متحدہ کمیشن کے ریمارکس کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملے کے خلاف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی محافظ 47رکنی کونسل نے جنیوا میں اجلاس بلانے کی تجویز پیش کی تو پہلے تو اس تجویز کی مزاحمت ترقی یافتہ ممالک نے کی اور جب ان ممالک کی دال نہ گلی تو غزہ میں بربریت کے سلسلے کو رکوانے کے لئے اجلاس منعقد کیا گیا تو انسانی حقوق کے سب سے بڑے محافظ امریکہ نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ یورپ کے تمام ممالک نے اس اجلاس سے اپنی غیر حاضری کو فوقیت دی ، صرف روس اور چین کے علاوہ چند ترقی پذیر ممالک نے اس قرار داد کے حق میں ووٹ دیئے۔ نتیجہ کہ اسرائیل کو عالمی رائے عامہ کی مخالفت کا خطرہ بھی نہ رہا۔ جبکہ امریکی وزیر خارجہ فلسطین اور اسرائیل کے دورے میں زبانی جمع خرچ کرنے کے بعد واپس امریکہ جا چکے ہیں۔ امریکہ صدر بارک اوباما۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون دونوں اسرائیل اور حماس کو ایک ہی سطح پر رکھتے ہیں اور اسرائیل کی بربریت کی مذمت کرنے کی بجائے دونوں کو ہاتھ روکنے کی تلقین کرتے ہیں۔ جبکہ اسرائیل خود ساز بہانوں کے تحت حملہ آور ہے اور حماس اپنے دفاع میں راکٹ چلانے پر مجبور ہیں۔ پس منظر کی حقیقت یہ ہے کہ 2006ءمیں جب حماس نے غزہ کے انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی تو اس وقت سے اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ چنانچہ گزشتہ آٹھ سال سے اس علاقے کو ایک جیل بنا دیا گیا ہے جہاں مسلمانوں کو ضروریات زندگی بھی میسر نہیں ہیں اسرائیل کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ غزہ کے مسلمان حماس کے خلاف بغاوت کر دیں لیکن حماس کے ترجمان ڈاکٹر سامی ابوزہری نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہو کی دھمکیاں انہیں خوفزدہ نہیں کر سکتیں اور اگر اسرائیل نے محاصرہ میں لئے ہوئے غزہ سے اپنی فوج نہ نکالی تو اسے مزید نقصانات برداشت کرنے پڑیں گے۔ حماس نے مومنانہ فراست کے تحت مصر کی جنگ بندی کی غیر مشروط پیشکش کو بھی ٹھکرا دیا ہے۔ محمود عباس نے بھی حماس کے مطالبات کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ غزہ میں اسی وقت حماس جو کچھ کر رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل نے اوسلو معاہدے اور سلامتی کونسل کی قرار داد کی خلاف ورزی کی اور مغربی کنارے پ پروشلم اور غزہ پر قبضہ ختم کرنے کی بجائے اس کا فوجی محاصرہ کر لیا۔ نومبر2012ءاسرائیل نے حماس سے غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ کیا لیکن اس پر عمل نہیں کیا۔ چنانچہ بنیادی مسئلہ غزہ اور وشلم کی آزادی کا ہے جو اوسلو معاہدے کے تحت اب تک محاصرہ میں ہیں۔ سطح پر جب اس قسم کے مسائل پیدا ہوتے ہیں تو اقوام متحدہ ایسا کردار ادا کرتی ہے کہ انسانی زندگیاں محفوظ رہیں اور کوئی فریق آمرانہ روپ اختیار نہ کرے۔ لیکن اس وقت کھجور کی گھٹلی سے بھی چھوٹی ریاست کو واحد عالمی طاقت امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے اور اقوام متحدہ کے ادارے کو امریکہ نے اپنی لونڈی بنا رکھا ہے۔ غنیمت امر یہ ہے کہ چین اور روس کو اقوام متحدہ میںویٹو کا حق حاصل ہے اور وہ امن دشمن قرار دادوں کو مسترد کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ ویٹو کا حق صرف اپنے اسرائیل کے حقوق کے تحفظ کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اس وقت بھی بارک اوباما بظاہر عالمی امن کی زبان بول رہے ہیں لیکن در حقیقت وہ اسرائیل کے مفادات کی نگرانی کرتے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں مسلمان ریاستوں کا امن تباہ کرنے کے در پے ہیں۔ غزہ میں حماس اپنا دفاع قوت ایمانی سے کر رہی ہے۔ اور اسرائیل اس سے کسی حد تک خائف ہے، دوسری طرف چوں کہ اسرائیل کو امریکہ اور یورپی ممالک کی حمایت حاصل ہے اور شاید یہ بھی یقین ہے کہ روس یا چین فلسطین کی حمایت میں ایک اور عالمگیر جنگ نہیں چھیڑ سکتے اور ان کے معاونت ویٹو پاور کے استعمال تک محدود ہے اس لئے اسرائیل من مانی کرنے سے ہرگز باز نہیں آتا اور ایک ایسے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے جسے عالمی طور پر ”ہولو کاسٹ“ کی دوسری شکل سے تعبیر کہا جا سکتا ہے۔ عالم اسلام وسائل اور ذرائع موجود ہونے کے باوجود سویا ہوا ہے۔ اور دوسری طرف حماس کو اپنی قوت ایمانی پر یقین ہے کہ حزب اللہ کے جنگجو اگر مغربی لبنان پر اسرائیل کا قبضہ ختم کرا سکتے ہیں تو حماس بھی غزہ کو صیہونیت کے قبضے سے آزاد کرا سکتا ہے۔ رہ گئی او آئی سی (O.I.C)تو وہ کل بھی نمائشی ادارہ تھا اور آج بھی اس کی حیثیت وہی ہے جو کسی مسلمان ریاست کی مشکلات کے وقت نہ مدد کر سکتا ہے اور نہ دنیا کی مسلمان ریاستوں اور انکے بے پناہ وسائل کو مجتمع کر سکتا ہے۔