پاکستان تحریک انصاف نے 14 اگست کو پہلے سے آزادی (لانگ) مارچ کا اعلان کررکھا ہے، اگست کا پہلا ہفتہ شروع ہوچکا اور چودہ اگست میں تھوڑے دن ہی رہ گئے ہیں اور اب ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی یوم شہداء کا اعلان کردیا ہے، یعنی ایک اگست میں دو دو مارچ ہونے جارہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہرشخص متجسس ہے کہ آخر ملکی اتحاد اور یگانگت کے دن پر اس بار کیا ہونے جارہا ہے؟ ہر شخص یہی سوال پوچھ رہا ہے کہ چودہ اگست کو کیا ہوگا؟ قارئین کے یہ سوالات دراصل بہت سے ذیلی سوالات کے ساتھ نتھی ہیں، مثال کے طور پر ایک سوال تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے آزادی مارچ اورپی اے ٹی کے انقلاب مارچ سے مطلوبہ مقاصد حاصل بھی ہوسکیں گے یا نہیں؟ تحریک انصاف نے اس مارچ میں جو اہداف طے کیے ہیں، وہ دو طرح کے ہیں، ایک تو پی ٹی آئی کے ظاہری اہداف ہیں کہ حکومت کو پورے انتخابات کے آڈٹ پر مجبور کیا جائے، جس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں، جبکہ دوسرے اہداف کے مطابق حکومت پر دباؤ برقرار رکھنا ہے تاکہ حکومت غلطی کرے اور اسے اس غلطی کو ایشو بنانے کا موقع ملے، پی ٹی کے ان دوسرے اور مخفی اہداف کے پیچھے حکومت کو خدشہ ہے کہ خفیہ ہاتھ سرگرم ہیں۔ اس لیے پی ٹی آئی کے دوسرے (یعنی مخفی) اہداف کا انحصار پی ٹی آئی کی بجائے حکومت کی ’’کارکردگی‘‘ پرہے، دوسری جانب عوامی تحریک تو سرے سے نظام کو ہی اکھاڑ پھینکنا چاہتی ہے، جس کا فی الحال کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ ڈاکٹر قادری کے اس ایجنڈے سے پاکستانی عوام کی اکثریت متفق ہوسکتی ہے نہ ہی باقی سیاسی جماعتوں کی جانب سے انہیں یہ حمایت ملنے کی امید ہے۔
چودہ اگست قریب آنے کے باوجود خود تحریک انصاف کی قیادت میں آزادی مارچ کے حوالے سے اختلافات موجود ہیں،اس حوالے سے کے پی کے کے صوبائی حکومت میں موجود پی ٹی آئی کے رہنما برملا کہہ چکے ہیں کہ لانگ مارچ وفاقی حکومت کیلئے نہیں بلکہ کے پی کے کی صوبائی حکومت کیلئے مسئلہ بنا ہوا ہے، اس کے برعکس پی ٹی آئی کی مرکزی اور پنجاب کی قیادت مارچ کے فیصلے پر ڈٹی ہوئی ہے، پی ٹی آئی کے ان اندرونی اختلافات کے باعث یہ سوال کافی اہمیت اختیار کرجاتا ہے کہ پی ٹی آئی اپنے مارچ میں کتنے لوگ اکٹھے کرسکے گی؟اگرچہ پی ٹی آئی اس لانگ مارچ میں دس لاکھ افراد کو لانے کے دعوے کررہی ہے،لیکن مختلف محرکات کو سامنے رکھیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تحریک انصاف اسلام آباد میں دس لاکھ یا قابل ذکر تعداد میں لوگوں کو اکٹھا کربھی سکے گی؟ اور اگر قابل ذکر تعداد میں لوگ جمع نہ ہوئے تو پھر اتنی بھاگ دوڑ کا کیا فائدہ ہوگا؟ مسلم لیگ ق، عوامی مسلم لیگ اور آل پاکستان مسلم لیگ جیسی تانگہ پارٹیاں تو پہلے ہی حکومت کے خلاف ہونے والی ہر’’جدوجہد‘‘ میں آگے آگے رہتی ہیں لیکن لوہا گرم دیکھ کر اب پیپلز پارٹی نے بھی ’’چوٹ‘‘ لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے، لیکن پیپلز پارٹی یہ چوٹ سڑک کی بجائے پارلیمنٹ کی اندر سے لگائے گی۔ زیادہ امکان ہے کہ پارلیمنٹ میں احتجاج سے پیپلز پارٹی اپنے بعض مطالبات منوانے میں کامیاب ہوجائے۔ ایک سوال یہ بھی اہم ہے کہ حکومت لانگ مارچ سے کس طرح نمٹے گی؟حکومت ماڈل ٹاؤن واقعہ سے کافی ’’اپ سیٹ‘‘ ہوچکی ہے، اس لیے اسلام آباد میں اس طرح کے کسی واقعے کو روکنے کیلئے مسلم لیگ ن جارحانہ سوچ کو اپنے قریب بھی پھٹکنے نہیں دے گی، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اگر لانگ مارچ ہوا تو اس کا اختتام بھی ناخوشگوار نہیں ہوگا۔انقلاب اور آزادی مارچ سے نمٹنے کیلئے حکومت تھری سی (3-C) کاؤنٹر حکمت عملی پر عمل کرے گی۔پہلے ’’سی‘‘ میں کنٹینرز (Container)کی مدد سے اسلام آباد اور ممکنہ طور پر راولپنڈی کو بھی ’’سیل‘‘ کردیا جائے گا، دوسرے ’’سی‘‘ میں وزارت داخلہ میں کنٹرول روم(Control Room) قائم کرکے لانگ مارچ اور ’’انقلاب‘‘ کی سرگرمیوں کو مانیٹر اور کاؤنٹر کیا جائے گا جبکہ تیسرے ’’سی‘‘ میں حکمت عملی کے طور پر اسلام آباد راولپنڈی اور گردونواح میں موبائل فون (Cell Fone) سروس بند کردی جائے گی۔ اس کے علاوہ حکومت چودہ اگست سے پہلے پہلے اصلاحاتی کمیٹی اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی بلا سکتی ہے۔سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا حکومت واقعی پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کو لانگ مارچ کیلئے فری ہینڈ دے دے گی؟تو اس کا امکان ہے کہ حکومت اس بار ’’ہاتھ ہولہ‘‘ ہی رکھے لیکن اس مارچ کے ساتھ نمٹنے کیلئے حکومت اپنی اصل حکمت عملی کو آخر تک مخفی رکھنے کی کوشش کرے گی۔ لانگ مارچ کا’’ ڈنگ‘‘ نکالنے کیلئے حکومت بی اور سی پلان بھی تیار کررہی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اپنے فیصلوں اور اقدامات سے دوسروں کو چونکادینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، اس بات کا قومی امکان ہے کہ نواز شریف رواں ہفتے کے دوران لانگ مارچ میں شرکت کی ’’خواہش مند‘‘ جماعتوں کو مذاکرات کی دعوت دے کر پی ٹی آئی اور عوامی تحریک سے الگ کرنے کی کوشش کرے، اس سلسلے میں نواز شریف خود گاڑی ڈرائیو کرکے ’’بنی گالہ‘‘ میں عمران خان کی رہائش گاہ پر بھی پہنچ سکتے ہیں، اگر یہ ملاقات ہوگئی تو لانگ مارچ کے غبارے سے ساری ہوا نکل جائے گی، یہ وزیراعظم نواز شریف کی پرانی اور آزمودہ حکمت عملی ہے، لیکن اس کا استعمال وہ یقینا دونوں’’مارچوں‘‘ کا ’’ٹیمپو‘‘ دیکھ کر کریں گے۔ قارئین محترم!! احتجاجی مارچ میں لاکھوں نہیں تو ہزاروں افراد تو ضرور شرکت کریں گے اور ایک ہی جگہ اتنے زیادہ لوگوں کی موجودگی دہشت گردوں اور تخریب کاروں کو اپنی کارروائی کیلئے ’’سہولت‘‘ فراہم کرنے والی بات ہے ۔ اِن خدشات سے حکومت تو آگاہ ہے ہی، لیکن تحریک انصاف اور عوامی قیادت کو بھی اس موقع پر سمجھداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔آخر میں سب سے اہم سوال یہی ہے کہ اس مارچ اور دھرنے کا انجام کیا ہوگایا کیا ہونا چاہیے؟اس کا فیصلہ مارچ کرنے والوں اور مارچ روکنے والوں کو تیرہ اگست سے پہلے پہلے کرلینا چاہیے۔
دو ہزار دو سو اٹھاون میل دور کا دُکھ!
Aug 04, 2014