وزیراعظم نواز شریف کا وزیراعظم کون ہو گا؟

الطاف حسین بھائی نے کہا ہے کہ نواز شریف حالات ٹھیک کرنے اور پاکستان بچانے کے لئے اقتدار چھوڑ دیں اور اپنی ہی پارٹی کے کسی آدمی کو وزیراعظم بنا دیں۔ یہ بات الطاف بھائی نے نیک نیتی سے کی ہو گی۔ اب گیند نواز شریف کی کورٹ میں ہے۔ وہ سویلین مارشل کورٹ نہ لگائیں۔ یعنی دارالحکومت فوج کے حوالے نہ کریں۔ نہ اپنی کورٹ کو ملٹری کورٹ بننے دیں۔ یہ بھی ان کا امتحان ہے کہ وہ اپنا ملک بچانا چاہتے ہیں یا اپنا اقتدار بچانا چاہتے ہیں؟ نواز شریف نے بہت اچھا کیا کہ مجید نظامی کی رہائش گاہ پر جا کر رمیزہ مجید نظامی کے ساتھ اظہار تعزیت کیا۔ مجید نظامی کے انتقال کو قومی نقصان قرار دیا۔ تو پھر اس کا سوگ بھی قومی سطح پر منانا چاہئے تھا۔ وہ سعودی عرب سے فوری طور پر واپس آ سکتے تھے۔ اور یہاں سرکاری طور پر سوگ منایا جاتا۔ قومی پرچم تھوڑی دیر کے لئے سرنگوں ہو جاتا۔ مجید نظامی نے عمر بھر قومی جھنڈے کو سربلند رکھنے کے لئے جدوجہد کی اور قربانیاں دیں۔ وہ اب آئے ہیں تو اس کے لئے بھی ہم مجید نظامی کے نیازمندان عشق ان کے شکر گزار ہیں۔ انہوں نے مجید نظامی کی جانشین بیٹی رمیزہ مجید نظامی سے کہا امید ہے کہ آپ بھی نوائے وقت گروپ کو نظریاتی سرحدوں کے توانا محافظ کی حیثیت سے چلائیں گی۔ جبکہ ان کے ایک ذاتی کالم نگار لکھتے ہیں کہ ”میں نظریاتی نہیں ہوں۔“رمیزہ مجید نظامی پورے عزم و حوصلے کے ساتھ اپنے والد کی اس نظریاتی امانت کی حفاظت کریں گی۔ شہباز شریف نے مجید نظامی کے ساتھ اپنی نیاز مندی اور روابط کو پوری طرح نبھایا کہ ایک دنیا حیران رہ گئی۔ مجید نظامی شریف برادران اور ان کے مرحوم عظیم والد بڑے میاں صاحب میاں محمد شریف کے ساتھ گہرے تعلقات رکھتے تھے۔ ہر قدم پر انہیں مجید نظامی کی سرپرستی اور رہنمائی حاصل رہی۔ بالخصوص شہباز شریف کے ساتھ مجید نظامی کی محبت اور شفقت بے پناہ تھی۔ شہباز شریف کو بھی اس کا احساس تھا۔ انہوں نے حق ادا کر دیا ہے۔
آخری دنوں میں مجید نظامی نواز شریف کی طرف سے بھارت کے ساتھ دوستی بڑھانے کے یکطرفہ معاملے پر خفا تھے۔ وہ کشمیر اور دوسرے مسائل کے حل کے بغیر اس دوستی کو خسارے کی تجارت سمجھتے تھے۔ پڑوسی اور پڑوسی ملک کے بہت حقوق ہیں اور ہم امن و سلامتی کے ساتھ زندگی کو آگے لے جانے کے حق میں ہیں۔ جبکہ نواز شریف نے خرم دستگیر کو وزیر تجارت یہی سوچ کر بنایا ہے کہ وہ آنکھیں بند کر کے بھارت کے ساتھ اپنی عزت اور سلامتی کا سودا کر لیں۔ ٹماٹر اور سبزیوں کی تجارت تو سودا سلف کی خریداری تک محدود ہے اور اس سے بھارت لامحدود فائدے اٹھانا چاہتا ہے۔ نواز شریف کو مجید نظامی کا یہ جملہ یاد ہو گا۔ خود انہوں نے نظریہ پاکستان کے یوم تکبیر پر مجید نظامی کی صدارت میں اعتراف کیا کہ ایٹمی دھماکوں کے لئے سارا کریڈٹ مجید نظامی کو جاتا ہے۔ میں ایٹمی دھماکے نہ کرتا تو میرا دھماکہ ہو جاتا۔
الطاف حسین بھائی کے مشورے پر نواز شریف کیوں عمل کریں گے؟ انہیں ایسا کرنے بھی نہیں دیا جائے گا۔ یہ ہو جائے تو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مثالی معرکہ آرائی ہو گی۔ تیسری بار وزیراعظم بننے والا چوتھی بار بھی وزیراعظم بن سکتا ہے۔ الطاف بھائی نے کہا ہے کہ اپنی پارٹی میں سے کسی کو وزیراعظم بنا دیں۔ وہ پارٹی لیڈر کے ماتحت رہے گا۔ نااہل ہونے والے کرپٹ وزیراعظم گیلانی کی مثال واضح ہے کہ اب بھی وہ ”صدر“ زرداری کی ہدایت کے بغیر کچھ نہیں کہتے۔ کچھ کرنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ نواز شریف کو تیسری بار وزیراعظم بنایا گیا ہے تو یہ کام چوتھی بار بھی ہو سکتا ہے۔ ہر بار ان کی ترجیحات اور ایجنڈا بدل جاتا ہے۔ ہمارے ہر حکمران کو ایک خاص ایجنڈا ملتا ہے۔ وہ اس کے مطابق حکومت کے معاملات چلاتا ہے۔ نواز شریف نے اپنا ایجنڈا اسحاق ڈار اور خرم دستگیر کے حوالے کر رکھا ہے۔ خرم دستگیر کو تجارت کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ اسے بھارت کے ساتھ تجارت کا بہت پتہ ہے۔ ”ہماری معاشی صورتحال بہت جلد بہتر ہو جائے گی“ ڈار صاحب اور دستگیر صاحب اس نے علاوہ کوئی بات نہیں کرتے۔ 14اگست کے حوالے سے ان کا بیان نہیں آیا۔ انہیں معلوم ہے کہ عمران بھی بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارت کے لئے ہم سے بھی زیادہ حق میں ہے۔
الطاف حسین نے یہ نہیں بتایا کہ کسے وزیراعظم بنایا جائے۔ نواز شریف کی کابینہ میں ہر وزیر شذیر وزیراعظم بننے کا امیدوار یعنی مستحق ہے اور کوئی بھی مستحق نہیں ہے۔ میرے خیال میں نواز شریف اپنے بھائی شہباز شریف کو وزیراعظم بنا دیں۔ میں شریف برادران کے بھائی چارے مفاہمت اور خاندانی روایات کا بہت قائل ہوں۔ یہ دونوں کے لئے ضروری ہیں۔ بڑے میاں صاحب نے کچھ سوچ کر اپنے کاروبار کے لئے اتفاق فونڈریز کا نام رکھا تھا۔ اتفاق بہت ضروری ہے۔ اس طرح حسن اتفاق جنم لیتا ہے۔ اور خاندان سوئے اتفاق سے بچے رہتے ہیں مگر یہ بات زبان پر آ گئی ہے۔ تو معذرت کے ساتھ عرض کر رہا ہوں کہ لوگ بھی جانتے ہیں کہ نواز شریف اور ان کے قریب ترین بعض وزراءکی وجہ سے پریشانیاں ہوں تو شہباز شریف کو لے آیا جائے۔ سنا ہے کہ یہ پیشکش صدر مشرف نے بھی بڑے میاں صاحب سے کی تھی۔ شریف برادران کے علاوہ موجودہ سیاسی منظر نامے میں چودھری برادران کا نام آتا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے علی برادران محمد علی جوہر اور شوکت علی ۔
اگر یہ نہیں تو پھر پروپز رشید کو وزیراعظم بنا دیا جائے وہ نواز شریف کے ہمیشہ ممنون رہیں گے۔ ممنون صدر کے لئے بھی کچھ آسانی ہو گی۔ پرویز رشید کے بیانات معنی خیز ہوتے ہیں۔ انہوں نے ابھی ابھی کہا ہے کہ عمران جمہوری حکومت کا تختہ الٹنا چاہتا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ ان کی خواہش ہے یا خوف ہے۔ نواز شریف سے گذارش ہے کہ وہ پرویز رشید کو عبوری یا ڈمی وزیراعظم بنا دیں ورنہ وہ یہ کوشش خود بلکہ خود کر رہے ہیں۔ ایک بار بہت مخلص جانبار وفادار اور تحریک پاکستان کے کارکن غلام حیدر وائیں کو وزیراعلیٰ پنجاب بنایا گیا تھا۔ حکومت چلانا شریف آدمی کا کام نہیں۔ شہباز شریف کا کام ہے۔ جب منظور وٹو وائیں صاحب تختہ الٹ کے وزارت اعلیٰ پر قابض ہو گئے تو پھر مجید نظامی کے مشورے کے مطابق شہباز شریف کو وزیراعلیٰ بنایا گیا تھا۔ اب بھی انہی کو وزیراعظم بنایا جائے۔ چودھری نثار علی بھی قابل غور ہیں مگر نواز شریف نہیں مانیں گے۔
عابد شیر علی کا بیان سنئے۔ عمران کا آزادی مارچ طالبان سے ڈیل کا نتیجہ ہے۔ طالبان سے مذاکرات نواز لیگ کرتی رہی ہے۔ کیا وہ بھی عمران نے کامیاب نہیں ہونے دیے۔ یا طالبان سے کسی ڈیل بلکہ ”گرانڈیل“ کا نتیجہ ہے۔ ہو سکے تو عمران خان سے بھی کوئی ڈیل کر لیں۔ طاہر القادری سے بھی کوئی ڈیل کرنا پڑے گی۔ میں طاہر القادری کو شریفانہ اقتدار کے لئے عمران سے زیادہ خطرناک سمجھتا ہوں۔ آخر میں لطیفہ سن لیں۔ ایک سیاستدان نے اخبار کے ایڈیٹر کو فون کیا کہ آپ نے اپنے اخبار میں مجھے احمق اور جاہل کہا ہے۔ ایڈیٹر نے کہا کہ کسی اور اخبار نے لکھا ہو گا۔ ہم ایسی باتیں اپنے اخبار میں نہیں لکھتے جنہیں لوگ پہلے سے جانتے ہوں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...