ون مین سیاسی پارٹیاں

Aug 04, 2015

ڈاکٹر محمد بشیر گورایا

پاکستان میں ون مین سیاسی پارٹیوں کی بنیاد قیام پاکستان کے بعد جلد ہی رکھ دی گئی تھی۔عوامی زبان میں ایسی پارٹیوں کو ”ٹانگہ پارٹی“ کہا جاتا ہے۔ صوبہ سندھ کے جی ایم سید وہ صاحب تھے جنہوں نے 1938ءمیں سندھ مسلم لیگ کے اجلاس میں قیام پاکستان کیلئے پہلی مرتبہ قرارداد پیش کی اور1943ءمیںمسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کراچی میںپاکستان کے حق میں تقریربھی کی تھی۔ 1946ءمیں انہیں مسلم لیگ کی جانب سے اسمبلی الیکشن لڑنے کیلئے ٹکٹ نہیں دیا گیا ۔قیام پاکستان کے بعد جی ایم سید کو کوئی حکومتی عہدہ بھی نہیں ملا بلکہ اِبن الوقت لوگ اقتدار پر قابض ہو گئے۔ مختلف طور طریقوں سے انہوں نے اربابِ بست و کشاد کو پاکستان سے اپنی محبت اور پاکستان کے لےے اپنی خدمات کاکا یقین دلایا مگر اُن کے مخالفین نے اُن کو اقتدارکے ایوانوں سے دور رہنے پر مجبور کر دیا چنانچہ وہ جارحانہ رویہ اپنانے پر مجبور ہو گئے اور عمر بھر پاکستان کے خلاف بیان بازی کرتے رہے۔ضیاءالحق اپنے دورِ اقتدار میں اُنکی عیادت کیلئے اُنکی رہائش گاہ پر بھی گئے لیکن بطور محب ِپاکستان اُن کو کسی عہدے یا سرکاری ایوارڈسے نہیں نوازا گیا۔انہوں نے اپنی الگ سیاسی پارٹی جئے سندھ کے نام سے عمربھر بنائے رکھی اور وہ تانگہ پارٹی ہی تھی۔
اس سے پیشتر صوبہ سرحد میں باچہ خاں کو پاکستان کے حکومتی ارکان نے پاکستانی گاندھی کے نام سے پکارنا شروع کر دیا تھا۔ مانا کہ انہوں نے پاکستان اور مسلم لیگ کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ وہ کانگرس سے وابستہ رہے، لیکن حالات کا تقاضا یہ تھا کہ اُن کو محب ِ پاکستان بننے کیلئے سیاسی طور پر راغب کیا جاتا مگر ایسا نہیں کیا جا سکا۔ وہ بھی شروع میں جی ایم سید کی طرح اپنی سیاسی پارٹی نیشنل عوامی پارٹی کے واحد ممبر اور سربراہ کے طور پر کام کرتے رہے۔ بعد میں انہوں نے خدائی خدمت گار کے طور پر کام شروع کیا اور 1971ءکے بعد پارٹی کا نام اے این پی رکھ لیا پھر اے این پی کوایکٹوکر لیا اور بہت سے لوگ ان کی پارٹی میں شامل ہو گئے۔ حتیٰ کہ صوبہ سرحد میں 2008ءکے الیکشن کے نتیجے میں اے این پی کی حکومت قائم ہو گئی۔
راولپنڈی کے شیخ رشید جو پہلے مسلم لیگ کی حکومت میں وزیر رہ چکے تھے اور سن2002ءمیں صدر مشرف کی حمایت سے الیکشن جیت کر وزیر رہے ۔سن 2008ء میں انہوں نے مسلم لیگ ن میں شمولیت کی کوشش کی مگر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو شیخ صاحب نے بھی اپنی سیاسی پارٹی عوامی مسلم لیگ کے نام سے رجسٹرڈ کر والی۔ اب شیخ صاحب موصوف خود ہی اپنی سیاسی پارٹی کے سب کچھ ہیں انکے ساتھ دوسرا کوئی معروف شخص پارٹی ممبر نہیں ہے۔
جب ہم الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ سیاسی پارٹیوں کی فہرست دیکھتے ہیں تو سینکڑوں ایسی پارٹیاں نظر آتی ہیں جو ون مین پارٹیوں میں شامل ہیںجن کوعرف عام میں ون مین شوبھی کہا جا تا ہے اور ٹانگہ پارٹی بھی۔سن 2002ءکے الیکشن میں ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کو ایک ایک سیٹ مل سکی تھی۔ وہ بھی صدر مشرف کے احکامات کے تحت ” کہ ہر سیاسی پارٹی کے سربراہ کو سیٹ ضروردی جائیگی“
سابق صدر مشرف نے بھی اپنی سیاسی پارٹی کا اعلان کیا ۔ اگر چہ اُنکی پارٹی میں احمد رضا قصوری اور ڈاکٹر امجد کے علاوہ عتیقہ اوڈو بھی شامل ہیں۔ تجزیہ نگاروںکا کہنا ہے کہ سابق صدر مشرف اور اُنکے ساتھیوںمیں سے کوئی کبھی بھی اسمبلی کی سیٹ نہیں جیت سکے گا۔
مرزا اسلم بیگ نے بھی ایک سیاسی پارٹی بنائی جو کوئی کرشمہ نہ دکھا سکی۔عبدالوحید کاکڑ،جنرل جہانگیر کرامت اور جنرل ریٹائرڈ کیانی وغیرہ بڑے ہوش مند لوگ نکلے جو ریٹائرمنٹ کے بعد مزے اور سکون کی زندگی گزار ہے ہیں۔ اگر خدانخواستہ سیاست کے خار دار میدان میں اُترتے تو سوائے رسوائی کے کچھ حاصل نہ کر پاتے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر کی رسوائی کی چال بھی اُن کے کچھ ذہین دوستوں نے چلی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اچھی بھلی سکون کی زندگی گزار رہے تھے کہیار لوگ انہیںسیاست میں گھسیٹ لائے۔ اب وہ سیاست سے تائب ہوچکے ہیں۔ڈاکٹر صاحب جانے کیوں لوگوں کی باتوں میں آگئے، سمجھ سے بالا تر ہے۔ اگرچہ صدر مشرف کے زمانے میں ڈاکٹر قدیر کو بہت رسوا کیا گیا لیکن عوام الناس کے دلوں میں ڈاکٹر صاحب کے لےے بڑی عزت اور احترام ہے۔
آجکل سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخارچوہدری بھی اپنی سیاسی پارٹی کا اعلان کرنے والے ہیں حالانکہ اُن کی ریٹائرمنٹ کے بعد کئی سیاسی اور غیر سیاسی لوگ اُن پر مختلف قسم کے الزام لگا چکے ہیں۔ اُنکے بیٹے پر ملک ریاض سے کروڑوں روپے حاصل کرنے اوراُنکی بیگم پر سونے کے زیورات حاصل کرنے کے الزامات بھی ہیں۔
جس روز ایک مقامی ٹی وی چینل پر ملک ریاض کے الزامات کے بارے خبریں نشر ہونیوالی تھیں اس دن افتخارچوہدری کو یو کے (UK) میں پاکستانی جوڈیشل سسٹم سے متعلق دنیا کا اہم ترین ایورڈ ملنے والا تھا۔کسی طرح چوہدری اعتزاز احسن کو انکشاف ہو گیا تو فوری طور پر انہوں نے اپنے ذرائع سے ایک روز کیلئے مذکورہ خبر رکوا دی تاکہ چوہدری افتخار کو ایوارڈ مل جائے۔اس پس منظر میں جھانکنے سے نظر آتا ہے کہ افتخارچوہدری کو جو لوگ وزیراعظم پاکستان کے عہدے پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں وہ بھی احمقوں کی جنت میں رہنے والے ہیں۔
پاکستان کی ٹانگہ سیاسی پارٹیوں میں ایک قابلِ احترام نام نواب زادہ نصراللہ مرحوم کا بھی ہے اگرچہ ایک دو الیکشنوں میں وہ خود اور اُنکے دو تین ممبر الیکشن جیت کر اسمبلیوں میں چلے گئے تھے تاہم جب سے نواب زادہ نصر اللہ نے اپنی سیاسی پارٹی کا اعلان کر کے لاہور میں ایمپرس روڈ پر دیال سنگھ ہاسٹل کے بالمقابل اپنا دفتر قائم کیا تھا۔ صحافی اور سیاست دان اکثر انکے دفتر نواب زادہ صاحب سے ملاقاتوں اور رہنمائی حاصل کرنے جایا کرتے تھے۔گویا ان کا دفتر مرجع خلائق تھا۔ خود راقم بھی ایک مرتبہ حاضری کیلئے گیا تھا لیکن اتفاق سے نواب زادہ صاحب سے ملاقات نہ ہو سکی۔ نواب زادہ صاحب پاکستانی سیاست کے روح رواں تھے۔1968ءمیں ایوب خان کےخلاف نواب زادہ نصراللہ کی قیادت میں تحریک چلائی گئی ۔ بالآخر ایوب خان نے نواب زادہ صاحب کو مذاکرات کی دعوت دی اور ناراض سیاسی رہنماﺅں کو ساتھ لے کر نواب زادہ صاحب نے ایوب خان سے مذاکرات کئے اور اپنی شرائط منوالیں۔
اعلیٰ پائے کے مقرر ہونے کے علاوہ بہت اچھے شاعر تھے اور دیگر شعراءکے ہزاروں شعر ان کو یاد تھے۔ ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے ایک شعر پڑھا جو آج تک راقم کو یاد ہے۔انہوں نے فرمایا”پاکستان میرا ملک ہے اور میں آزاد منش شخص ہوں“۔
کبھی شاخ و سبزہ و برگ پر کبھی غنچہ و گلِ رخسار پر
میں چمن میں چاہے جہاں رہوں میرا حق ہے فصل ِ بہار پر
٭....٭....٭

مزیدخبریں