اسلام آباد (صباح نیوز) سپریم کورٹ نے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ سوسائٹی کو حکم دیا ہے کہ ایک ہفتہ میں گریڈ ایک سے پانچ تک کے کم آمدن والے ملازمین کو مختلف ہاؤسنگ سکیموں کے تحت اب تک دئیے گئے پلاٹس کے اعداد و شمار پیش کئے جائیں۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ جس کو موقع ملتا ہے زمینوں پر قبضہ کر لیتا ہے۔ فیڈرل ہاؤسنگ سکیم کے حکام کو چاہئے کہ پورے ملک کو کتر کر بڑے لوگوں کو دے دیں کیا بڑے ملازمین تنخواہیں نہیں لیتے۔ یہ ملک امیروں کے لئے بنا ہوا ہے۔ یہاں تو افسر ڈیپوٹیشن پر آتے ہیں 4ماہ میں پلاٹ اپنے نام کراتے ہیں اور بیچ کر اپنے اصل محکمہ میں چلے جاتے ہیں، چھوٹے ملازمین کو پلاٹ نہیں دئیے تو انہیں نیلا تھوتھا (زہر) دے دیں۔ فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز پائونسگ سوسائٹی کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلہ کیخلاف دائر اپیل کی سماعت میں جسٹس جواد نے کہاکہ کوٹہ سسٹم کے تحت پلاٹوں کی ملازمین میں تقسیم بذات خود ایک تفریق ہے۔ ملک میں عجیب صورتحال ہے غاصبانہ قبضہ کر کے مساجد تعمیر کی جاتی ہیں اور نمازی دھڑا دھڑ نمازیں پڑھتے ہیں ان کو کوئی یہ نہیں بتاتا کہ قبضے کی زمین پر بنائی گئی مساجد میں نماز جائز نہیں ہوتی اس حوالے سے واضح فتوے موجود ہیں۔ ہائوسنگ سوسائٹی کے وکیل نے موقف اختیارکیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈسٹرکٹ کورٹس کے 29ملازمین کی جانب سے دائر رٹ پٹیشن میں سنائے گئے فیصلہ میں تمام ملازمین کو پلاٹ دینے کا حکم دے دیا ہے حالانکہ ان ملازمین کا کوٹہ مختص ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے انٹرا کورٹ اپیل نمٹاتے ہوئے ہائوسنگ سوسائٹی کو حکم دیا کہ ہائیکورٹ کے فیصلہ پر من وعن عملدرآمد کیا جائے۔ انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیا جائے۔ دلائل سن کر جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ کیا بڑے ملازمین تنخواہیں نہیں لیتے کوٹہ سسٹم تو بذات خود تفریق ہے کیونکہ کوٹہ کے تحت تو یہ ہو گا کہ 22گریڈ کے افسر کو پلاٹ دے دو اور نائب قاصد کو پلاٹ نہ دو کیونکہ چھوٹے گریڈ کا ملازم نہ تو ملک کا شہری ہے اور نہ اس کے بیوی بچے ہیں۔ عدالت کو یہ بتایا جائے کہ بی ایس 1تا 5کے ملازمین کو اسلام آباد کے تمام سیکٹرز میں کتنے پلاٹ دیئے گئے ہیں۔ سی ڈی اے کا حساب تو اللہ ہی معافی دے، چھوٹے ملازمین کو بتا دیا جائے کہ انہیں ملک میں گھر لے کر جینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ جن کے پاس بہت کچھ ہوتا ہے وہ بہت زیادہ لینے کے خواہش مند ہے اگر بڑے وفاقی ملازمین کو تنخواہیں پسند نہیں ہیں تو گھر چلے جائیں بعض لوگوں نے تو چار، چار پلاٹس لے رکھے ہیں۔ عدالت کے سامنے ایک سول جج کا معاملہ بھی آیا تھا جس نے بڑے گل کھلائے تھے۔ جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ غریبوں کی بستیاں تو بارشوں اور طوفانوں میں اجاڑ دی گئیں کیا کبھی کسی سرکاری افسر کی پراپرٹی پر بھی قبضہ ہوا ہے۔