جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ کیا آیا ہے مولانا فضل الرحمان اور ایم کیو ایم کو جمہوریت اور آئین کی فکر پڑ گئی ہے۔ آئین کی خلاف ورزی پر ان کی جان جا رہی ہے جس کو انہوں نے کبھی بھی برداشت نہ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کو ڈی سیٹ کرانے کی قرارداد دونوں جماعتوں نے قومی اسمبلی میں جمع کرارکھی ہے جس پر رائے شماری ہونا باقی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں دونوں جماعتوں کا کوئی رکن نہیں اس لئے یہاں قرارداد نہیں جاسکی وگرنہ جمہوریت اورآئین کی محبت میں دونوں جماعتیں کہاں پیچھے رہنے والی تھیں۔ مولانا فضل الرحمان اور الطاف حسین نے ہمیشہ اصولوں کی سیاست کی ہے اور انکے اصولوں میں حکومت کے حلیف رہنا اور حلیفوں کو بلیک میل کرنا شامل ہیں۔ قیمت بڑھوانا ان کی سیاسی بلوغت ہوتی ہے۔ دونوں جمہوریت اور آئین کے محافظوں نے جنرل مشرف کا 1999ءسے لیکر2007ءتک بھرپورساتھ دیا۔ ایم کیو ایم کا تو یہ عالم ہے کہ عشرت العباد نے مسلسل گورنرسندھ رہنے کا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ وہ جنرل مشرف کی حکومت میں توکیا‘ پیپلزپارٹی کے دورحکومت میں بھی گورنر تھے اور آج جب میاں نوازشریف کی حکومت ہے تو کس کی مجال ہے کہ ان کی طرف کوئی میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔ الطاف حسین کتنے محب وطن ہیں‘ اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اگلے روز ہی انکے خلاف چالان عدالت میں جمع ہوا اور انہیں مفرور قرار دیا اور اتوار کو انہوں نے امریکہ کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے فوج پر بدترین الزامات لگائے۔ اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے احتجاج،کراچی میں نیٹو فوج کی تعیناتی اور بھارت کو مداخلت کی دعوت دی ہے۔ یہ شخص جمہوری ہونے اورآئین کے محافظ ہونے کا دعویدار ہے۔ شکر تو یہ ہے کہ اس معاملے میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کوئی مصلحت اختیار نہیں کی اور صاف صاف کہہ دیا کہ الطاف کا اصل چہرہ بے نقاب ہوگیا جبکہ وزیرداخلہ نے اسے اعلان جنگ قرار دیا۔ میں تو عرصہ درازسے ایم کیو ایم کے حقائق اور انکے جرائم پر لکھ چکا ہوں اس لئے مجھے تو کوئی حیرانی نہیں ہوئی۔ کراچی تو روشنیوں کا شہر تھاکیا اس حقیقت سے کوئی انکارکرسکتا ہے کہ الطاف حسین کی سیاست کی آمدکے بعدکراچی اندھیروں کے شہرمیں ڈوبنے لگا۔ رینجرز کے بلاامتیاز اور سخت اقدامات کے نتیجے میں عرصہ دراز کے بعدکراچی میں پُرامن عید ہوئی ہے جس کا الطاف حسین کو دکھ ہے۔ برطانیہ میں ان کا گھیرا تنگ ہورہا ہے اس میں پاکستان کا کیا قصور ہے؟ آج پوری دنیا فوج اور رینجرز کے اقدامات کو تحسین کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے چاہے وہ دہشت گردی کےخلاف جنگ ہو یا کراچی آپریشن۔ آج کی فوجی قیادت اورکراچی رینجرز پر الزامات لگانا اپنے منہ پر تھوکنے والی بات ہے۔
الطاف حسین کیساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمان کا کمال دیکھیں کہ وہ حکومت میں بھی ہوتے ہیں اور اپوزیشن میں بھی۔ 2002ءمیں صوبہ سرحدکی وزارت اعلیٰ سو فیصدجنرل مشرف کی سرپرستی میں سنبھال رکھی اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی سیٹ سپیکر قومی اسمبلی کے فیصلے کی روشنی میں حاصل کی وگرنہ قومی اسمبلی میں انکی اتنی نشستیں کہاں تھیں کہ انہیں اپوزیشن لیڈر چنا جاتا۔ ایم کیو ایم کی سیاست بھی حکومت کیساتھ ساتھ اپوزیشن لیڈری کرتے ہوئے چلی آرہی ہے۔ ان جماعتوں کو آئین اور جمہوریت کے دعویدار بنتے ہوئے ذرا بھر بھی شرم نہیں آتی۔ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی مخالف ہیں لیکن تحریک انصاف دشمنی میں ایک ہوگئی ہیں۔ تکلیف یہ ہے کہ KPK میں عمران خان نے مولانا فضل الرحمان کی سیاست کو چاروں شانے چت کردیا ہے جبکہ ایم کیو ایم کو جتنی دلیری اور جرا¿ت کے ساتھ عمران خان نے چیلنج کیاہے‘ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایم کیو ایم کے معاملے پر پیپلزپارٹی ہو یا پاکستان مسلم لیگ(ن)‘ ماسوائے مفادات کی سیاست کے ان پارٹیوں نے کچھ نہیں کیا۔
جمہوریت اور آئین کے ان دعویداروں کا مو¿قف کیا ہے ذرا اندازہ کریں کہ وہ کہتے ہیں کہ استعفوں کے بعد تحریک انصاف کے اراکین کو ڈی سیٹ کرنا چاہئے۔ ان نام نہاد چیمپئنوںکو ان اراکین اسمبلی کی موجودگی میں اسمبلی جعلی جعلی لگتی ہے۔ سپیکر کی رولنگ کو دونوں پارٹیاں کوئی حیثیت دینے کو تیارنہیں۔ 126 دنوں کا دھرنا تاریخی تھا۔ اس بحث میں پڑے بغیرکہ غلط مو¿قف تھا یا صحیح‘ لیکن حقیقت حقیقت ہوتی ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں اور دانشوراس وقت عمران خان پر زوردیتے رہے کہ استعفے واپس لیں اور اپنا رول اسمبلی میں آکر ادا کریں۔ سچ یہ ہے کہ حکومت سمیت تمام سیاسی پارٹیوں کو خوف تھا کہ اگر استعفے منظورکرنے کی پالیسی اختیارکی گئی تو100 سے زائد نشستوں پر ضمنی انتخاب کرانا پڑے گا اور اتنا بڑا الیکشن ہوگا یا پھر سب کا طوطی بول جائیگا؟ جس پر سیاسی دوراندیشی دکھائی گئی۔ سپیکر نے حکومت اور سیاسی پارٹیوںکیلئے سہولت کے دروازے کھلے رکھے۔ استعفوں کی تصدیق اور ذاتی طورپر پیش ہونے کی شرائط رکھ کر استعفوں کو قبول کرنے سے انکارکردیا اور پھر وہ بھی دن آیا جب عمران خان نے اپنے اراکین اسمبلی سمیت دوبارہ اسمبلی کاحصہ بن گئے۔
جمہوریت اور آئین کی خاطر ہی تحریک انصاف سے مذاکرات کئے گئے جسکے نتیجے میں جوڈیشل کمیشن بنایاگیا اور237 صفحات پر مشتمل فیصلہ آیا۔ ڈی سیٹ کرنے کا معاملہ اب اس لئے تیز ہوا ہے کہ جوڈیشل کمیشن نے Concluding فیصلے میں تحریک انصاف کے الزامات کو مستردکردیا ہے وگرنہ اسی فیصلے میں تحریک انصاف کے تحقیقات کرانے کے مطالبے کو درست بھی کہا گیا ہے اور بے قاعدگیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ دونوں پارٹیاں کیا چاہتی ہیں اور اب بلیک میلنگ کس لئے کی جارہی ہے؟ دونوں پارٹیوں کو علم ہے کہ انکی تحریک قومی اسمبلی میں منظور نہیں ہوگی۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کبھی بھی رائے شماری میں ان قراردادوں کو سپورٹ نہیں کریں گی۔ اس حقیقت کے باوجود ان دونوں پارٹیوںکا کمال ہے یا حکومت وقت کی شرارتی حکمت عملی‘ اخبارات اور ٹیلی ویژن کی سکرینوں پر تماشہ برپا ہے۔ تحریک انصاف کو زچ کرنے کی مکمل تیاری کی جارہی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ اگرڈی سیٹ کیا گیا تو الیکشن میں حصہ لیں گے۔ حکومت نے پارلیمانی جماعتوں کا اجلاس بلایا جوکہ اچھی بات تھی‘ لیکن جس طرح اس اجلاس میں لطیفے اور خوشیوں کے شادیانے بجائے گئے‘ انتہائی غیر مناسب رویہ ہے۔ جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ کسی سیاسی پارٹی کی فتح نہیں اور نہ ہی کسی کی شکست۔ کسی بھی الزام کی انکوائری کرانے کا مطالبہ کرنا ہر شخص اور ہر پارٹی کا حق ہے۔ انکوائری کے فیصلے کو شکست اور فتح میں نہیں لینا چاہئے۔