پاکستان کی قومی زبان اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لئے، اقدامات تو کئے جا رہے ہیں لیکن اصل مسئلے کا حل تو تب ہی ہو گا۔ جب ”اردو زبان“ کو ذریعہ تعلیم و زبان میں ہی ہونگے۔ اس سارے منصوبے کو درہم برہم کرنے کےلئے ایک با اثر طبقہ، جسے ہم بیوروکریسی کہتے ہیں موجود ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم و تدریس ہی غیر ملکی زبان (انگریزی) اور غیر ملکوں سے حاصل کرنے پر ایک بہت بڑی رقم خرچ کی ہے۔ بھلا وہ آسانی سے کیسے مانیں گے؟ لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو بیس کروڑ کی آبادی میں یہ طبقہ صرف کل آبادی کا صرف ایک فیصد ہی بنتا ہے جمہوریت کا بھی یہی تقاصا ہے کہ ننانوے فیصد آبادی کے جذبات کا احترام کیا جائے اور یکساں نظام تعلیم پورے ملک میں رائج کیا جائے۔ کیا مدرسے (دینی) ہوں یا سکول کالجز وغیرہ۔اس یکسانیت سے طبقاتی اونچ نیچ میں فرق پڑے گا اور ایک ہی طرح کے نصاب اور ایک ہی طرح کے ذریعہ تعلیم و تعلم سے نہ صرف قومی یکجہتی اور قومی آہنگی پیدا ہو گی بلکہ قومی تقویت کا باعث بھی بنے گی۔
پاکستان کی قومی زبان اردو کو سرکاری زبان بنانے کیلئے، اقدامات تو کئے جا رہے ہیں لیکن اصل مسئلے کا حل تو تب ہی ہو گا۔ جب ”اردو زبان“ کو ذریعہ تعلیم و زبان میں ہی ہونگے۔ اس سارے منصوبے کو درہم برہم کرنے کیلئے ایک با اثر طبقہ، جسے ہم بیوروکریسی کہتے ہیں موجود ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم و تدریس ہی غیر ملکی زبان (انگریزی) اور غیر ملکوں سے حاصل کرنے پر ایک بہت بڑی رقم خرچ کی ہے۔ بھلا وہ آسانی سے کیسے مانیں گے؟ لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو بیس کروڑ کی آبادی میں یہ طبقہ صرف کل آبادی کا صرف ایک فیصد ہی بنتا ہے جمہوریت کا بھی یہی تقاصا ہے کہ ننانوے فیصد آبادی کے جذبات کا احترام کیا جائے اور یکساں نظام تعلیم پورے ملک میں رائج کیا جائے۔ کیا مدرسے (دینی) ہوں یا سکول کالجز وغیرہ۔اس یکسانیت سے طبقاتی اونچ نیچ میں فرق پڑے گا اور ایک ہی طرح کے نصاب اور ایک ہی طرح کے ذریعہ تعلیم و تعلم سے نہ صرف قومی یکجہتی اور قومی آہنگی پیدا ہو گی بلکہ قومی تقویت کا باعث بھی بنے گی۔
پاکستان کے تمام صوبوں کے لوگوں کے اندر ایک دوسرے کیلئے اپنائیت کا جذبہ پیدا ہو گا یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قومی زبان کے طور پر کوئی اور مقامی زبان ”اردو“ کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ انگریزی کو ایک بین الاقوامی زبان کے طور پر ضرور سیکھنا چاہئے نہ صرف انگریزی بلکہ اسکے ساتھ چینی، جرمن، جاپانی اور دیگر زبانیں بھی سیکھی جانی چاہئیں لیکن ہمارے دفتروں، عدالتوں اور تعلیمی اداروں میں بنیادی زبان تو ہماری اپنی ہی ہونی چاہئے اور وہ ہے ”اردو“۔
یہ بات بھی قابل قدر ہے کہ آئین پاکستان کی مذکورہ دفعہ 251 کے تحت ہی ”وفاقی اردو یونیورسٹی“ کراچی میں قائم ہوئی۔ اس کا شعبہ تالیف و ترجمعہ گزشتہ چند سالوں سے سائنسی علوم میں ماسٹر ڈگری کی سطح تک کتابیں شائع کر چکا ہے جو کہ یونیورسٹی میں پڑھائی جا رہی ہیں۔ کم و بیش ماسٹر ڈگری نصاب پر مشتمل طبیعات، کیمیا، حیوانات، نباتات، ارضیات، علم الاادویہ اور ریاضیات وغیرہ کے مضامین کی اکثر کتب، اردو میں لکھی جا چکی ہیں اس یونیورسٹی نے بائیس جلدوں پر مشتمل اردو لغت تیار کی ہے۔ یہ ”اردو لغت بورڈ کراچی“ کا ایک عظیم الشان کارنامہ ہے جس میں تمام علوم و فنون کی اصطلاحات اور ان کا استعمال درج کیا گیا ہے۔ اسکے علاوہ بھی بہت سارا کام، ”اردو زبان“ پر ہو چکا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی نے بائیسں جلدوں میں تصنیف کی ہے جسے پنجاب یونیورسٹی نے شائع کیا ہے۔ منہاج القرآن نے بڑی محنت سے ”ناموس الاصطلاحات“ کے نام سے ڈکشنری مرتب اور شائع کرائی جس میں انگریزی زبان کی تمام سائنسی، دفتری اور تکنیکی اصطلاحات کا اردو ترجم شامل ہے۔ ”اردو سائنس بورڈ“ بھی اسی کارخیر میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اردو زبان کو ذریعہ تعلیم اور دفتری زبان بنانے میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔ یہ وہ زبان ہے جس نے ”پاکستان کے قیام“ کا مقدمہ لڑا، آج خود اس کا اپنا مقدمہ سپریم کورٹ پاکستان میں زیر سماعت ہے
برصغیر میں 200 سال حکومت کرنے والے انگریز آج بھی ریشہ دوانی کی وجہ سے ہم پر حاکم ہیں جب تک ہم ذہنی طور پر انکی غلامی سے آزاد نہیں ہوتے ہمارے علم و تحقیق کے سوتے خشک ہی رہیں گے۔ ہمیں اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے کےلئے اپنی زبان و تہدیب کے مطابق تعلیمی نظام وضع کرنا ہو گا جس کے نتیجہ میں، چین، جاپان، فرانس، جرمنی اور دیگر ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا ہوا جا سکتا ہے۔
چند ایک دلچسپ حقائق آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں ایک بار بابائے اردو مولوی عبدالحق مرحوم نے فرمایا تھا ”زبان کسی قوم کی جان ہوتی ہے اور اس کا گلا گھونٹنا، گویا قوم کا گلا گھونٹنا ہوتا ہے“ اس لئے عرض ہے کہ ہمارے حکمران طبقات ، پارلیمنٹ ، سیاسی جماعتیں اور بالخصوص تعلیم سے وابستہ ماہرین کو سنجیدگی سے اس بات پر توجہ دینی چاہئے کہ اب تک جو انگریزی زبان کو اپنی زبانوں پر فوقیت دے کر جو ظلم اپنی قوم اور اس کی ترقی کے عمل میں کرتے رہے ہیں۔ اس مجرمانہ غفلت کے ازالہ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اردو یا مقامی زبان کی ترویج کیلئے، ہمیں اپنے اندر موجود نفسیاتی کمتری کے احساس سے باہر نکلنا ہو گا۔
ایک اور حقیقت آپکے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ جنرل ضیاءالحق واحد شخص تھے۔ جنہوں نے جنرل اسمبلی سے، اردو میں خطاب کیا۔ اس سے انکی شان میں کمی نہیں.... بلکہ اضافہ ہی ہوا ہے۔ ہمارے رہنمایان قوم کو اردو بولنے میں عار ہے؟ ذرا سوچئے!
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم مجموعی طور پر بحیثیت قوم ، ہوش کے ناخن لیں اور فوری طور پر، قومی زبان اردو، کی ہر شعبے میں عملداری قائم کرنے کی سعی کریں.... اور قومی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ، ”انگریزی کی حاکمیت“ کو ختم کریں، اور پڑوسی وقت ممکن ہو سکتا ہے، جب ہم اپنے ”نظام تعلیم و تدریس“ کو اپنی قومی زبان اردو،، میں کریں گے.... اور اس کو سرکاری، نیم سرکاری دفتری زبان کا درجہ دیں گے، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پوری پاکستانی قوم کا حامی و ناصر ہو۔ آمین! .... (ختم شد)