کس کا ستیا ناس کریں گے؟

قانون کے مطابق رینجرز کو شہری علاقوں میں امن و امان قائم رکھنے کی خاطر سول فورسز کی مدد کیلئے بلایا جائے تو رینجرز کو دئیے جانےوالے اختیارات 120 روز کیلئے ہوتے ہیں جن میں ضرورت کے مطابق توسیع کی جاتی رہتی ہے۔ بالکل اسی طرح رینجرز کو جب سے کراچی میں امن و امان قائم کرنے کیلئے خصوصی اختیارات دئیے گئے ہیں تو اسکے بعد سے کراچی میں بھی ایسا ہی ہوتا چلا آرہا ہے۔ اسکے علاوہ رینجرز کے سندھ میں قیام کی مدت میں بھی سالانہ توسیع ہوتی رہتی ہے، لیکن سابق صدر آصف علی زرداری کے دست ِراست اور ہمدم دیرینہ سابق وفاقی وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کے بعد حکومت سندھ اور رینجرز میں جو اختلافات پیدا ہوئے، وہ ختم ہونے میں نہیں آرہے بلکہ یہ اختلافات ایک بار پھر اُس وقت اُبھر کر سامنے آگئے جب رینجرز نے صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال کے گاو¿ں سے باقرانی میونسپل کے ملازم اسد کھرل کو گرفتار کیا جنہیں بعد میں ایک ہجوم نے تھانے سے رہا کروا لیا تھا۔ اسد کھرل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سہیل انور سیال کے بھائی طارق سیال کا ”فرنٹ مین“ ہے۔اسد کھرل کو بچانے کیلئے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اس حد تک آگے چلی گئی کہ اعلیٰ سیکورٹی اداروں سے ٹکرانے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کی گئی، صرف یہی نہیں بلکہ سندھ میں رینجرز کی موجودگی اور کراچی میں دئیے جانےوالے اختیارات کی مدت جولائی میں مکمل ہوگئی تو اس میں توسیع کا نوٹیفکیشن بھی حیلے بہانے سے روک لیا گیا۔ آئین و قانون نے رینجرز کے ہاتھ باندھے تو اِسی دوران کراچی میں سیکورٹی اہلکاروں پر حملے شروع ہوگئے۔ دہشت گردوں نے ایک واقعہ میں فوجی گاڑی پر حملہ کرکے دو فوجی جوانوں کو شہید کردیا، لیکن فوجی جوانوں کا لہو گرنے کے باوجود سندھ حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اِسی دوران پینترے پر پینترا بدلتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں اپنا وزیراعلیٰ تبدیل کرنے کا اعلان کردیا اور یوں مسلسل 8 برس وزیراعلیٰ رہنے والے قائم علی شاہ کی جگہ ایک اور ”شاہ“ سابق وزیراعلیٰ سندھ عبداللہ شاہ کے بیٹے مراد علی شاہ کو سندھ کا نیا وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔
وہ کہتے ہیں ناں کہ بکری نے دودھ دے دیا لیکن وہی ہر بار کی طرح مینگنیاں ڈال کردیا۔ اگرچہ بات تو وہی ہے مگر بکری پھر بھی شاید کبھی کبھار اپنی اس ”حرکت“ اور فطرت ثانیہ پر نظر ثانی کرلیتی ہو لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے رینجرز کے سندھ میں قیام کی مدت اور کراچی میں خصوصی اختیارات میں توسیع دیتے ہوئے تاخیر اور اعتراضات کی ”مینگنیاں“ ڈالنے کی روایت نہیں توڑی۔ نئے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے دبئی میں درِ زرداری پر حاضری قبول ہونے کے بعد وطن واپسی پر ناصرف رینجرز کے کراچی میں قیام میں ایک برس کی توسیع کر دی بلکہ رینجرز کو حاصل خصوصی اختیارات کی مدت میں بھی 90 دن کا اضافہ کردیا۔ رینجرز کو پولیس اختیارات اور صوبے میں موجودگی کی مدت کی میعاد گزشتہ ماہ جولائی میں پوری ہو گئی تھی۔اگر توسیع دینے میں اتنی تاخیر نہ برتی جاتی تو پاکستان پیپلز پارٹی کی اس قدر جگ ہنسائی بھی نہ ہوتی۔ اختیارات دئیے جانے سے پہلے رینجرز اور سندھ حکومت میں اُس وقت کشیدگی بھی دیکھنے میں آئی تھی جب رینجرز نے خواہش ظاہر کی کہ اُنہیں سارے صوبے میں کارروائی کے اختیارات دئیے جائیں ، لیکن سندھ کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے رینجرز کو ضروری اختیارات سے لیس کرنے کی بجائے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا کہنا تھا کہ رینجرز کو سنگین نوعیت کے چار جرائم دہشتگردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی روک تھام کیلئے جو اختیارات دئیے گئے ہیں وہ صرف کراچی تک محدود ہیں اورباقی سندھ کیلئے نہیں ہیں۔ اب نئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اور انکی ٹیم کے ارکان بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ رینجرز کو حاصل اختیارات صرف اور صرف کراچی کیلئے ہیں، جس کا مطلب اور مقصد اسکے سوا اور کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ رینجرز کو کراچی میں محدود رکھ کر سندھ میں پھیلے ”اسد کھرلوں“ کی جانب بڑھنے سے روکا جائے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی یہ تکنیک اور حکمت عملی کامیاب ہو یا نہ ہو، البتہ جیالوں کیلئے جگ ہنسائی کا سبب ضرور بن رہی ہے اور المیہ تو یہ ہے کہ چاروں صوبوں سے ”زنجیر“ لپیٹے جانے کے بعد اس زنجیر کی کڑیاں اب سندھ میں بھی ٹوٹ کو بکھرنے کو ہیں، لیکن کسی کو پیپلز پارٹی کے المیہ انجام کی کوئی فکر نہیں ہے۔
فکر تو لگتا ہے کہ امریکہ میں ریپبلکنز کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی نہیں ہے،ورنہ جو کچھ گزشتہ ایک ہفتے کی انتخابی مہم کے دوران ہی اُنکے منہ سے نکلا، اگر اُنہیں ذرا سی بھی امریکہ اور امریکیوں کے احساسات کی پروا ہوتی تو وہ اُس طرح کے الفاظ کہنے سے پہلے سو مرتبہ ضرور سوچتے۔ امریکہ کیلئے جان کی قربانی دینے والے مسلمان فوجی کی ماں سے متعلق تو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خبث باطن کا مظاہرہ کیا ہی لیکن اب ریپبلکنز امیدوار اس حد تک گرچکے ہیں کہ اپنی مخالف ڈیموکریٹس کی امیدوار ہیلری کلنٹن کو انہوں نے پہلی بار ”شیطان“ سے تعبیر کر ڈالااور اپنے سب سے بڑے حریف ملک روس کو ہیلری کلنٹن کی ای میلز کی تلاشی لینے پر بھی اکسا ڈالا۔ یہی وجہ سے ہے کہ صرف ڈیموکریٹس کی جانب سے ہی نہیں بلکہ ری پبلکن رہنماو¿ں کی جانب سے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ویت نام جنگ کا تجربہ رکھنے والے سینیٹر جان مکین نے تو انتہائی سخت اور واشگاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ ”ٹرمپ کو ہمارے بہترین لوگوں کو بے وقار کرنے کی کھلی چھوٹ نہیں ہے“، جبکہ امریکی صدر باراک اوباما نے تو ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر بننے کیلئے نا اہل قرار دیتے ہوئے یہ سوال تک کرڈالا ہے کہ ”ری پبلکنز اب تک اِس ارب پتی کی کیوں حمایت کر رہے ہیں؟“براک اوباما نے کہا کہ ”مجھے کئی سابق ریپبلکن صدور اور امیدواروں سے پالیسی اختلافات رہے، لیکن میں نے کبھی کسی کے بارے میں یہ نہیں سوچا تھا کے وہ بطور صدر کام نہیں کر سکتے،لیکن ٹرمپ کے بارے میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ ’بس بہت ہو گیا‘۔ ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ صدر کے عہدے کیلئے نا اہل ہیں اور وہ مسلسل یہ ثابت کر رہے ہیں“۔ ناصرف یہ بلکہ نیویاک سے تعلق رکھنے والے ری پبلکن رہنماءرچرڈ ہانا نے سرعام کہہ ڈالا کہ وہ ہلیری کلنٹن کو ووٹ دیں گے۔انہوں نے کہا کہ خان فیملی کے بارے میں ٹرمپ کا بیان اُن کیلئے فیصلہ ساز ثابت ہوا۔
قارئین کرام!! اپنے گرد کھینچا جانیوالا دائرہ تنگ ہوتے دیکھ کر ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی صدارتی انتخاب میںاب دھاندلی کا خدشہ بھی پیدا ہوگیا ہے اور اب انہوں نے انتخابات سے پہلے ہی جگہ جگہ جلسوں میں اپنی شکست کا رونا بھی رونا شروع کردیا ہے ، اپنے ساتھیوں کو کہہ چکے ہیں کہ ”8 نومبر کو (الیکشن کے دن) ہمیں مزید ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ انتخابات میں دھاندلی ہوگی اور مجھے امید ہے کہ رپبلکن اس پر گہری نظر رکھ رہے ہیں، نہیں تو یہ الیکشن ہم سے چھین لیا جائےگا“۔ڈونلڈ ٹرمپ کا رونا سن کر گزشتہ دور میں زور و شور سے لگایا جانیوالا ایک نعرہ بہت یاد آتاہے۔ پیپلز پارٹی کے جیالوں نے بھی کیا زبردست نعرہ ایجاد کیا تھا ”ایک زرداری، سب پر بھاری“، لیکن ریپبلکنز کے صدارتی امیدوار تو اپنے لیے خود ہی نعرے لگارہے ہیں کہ ”ایک ٹرمپ، سب پر جمپ“۔سب پر بھاری زرداری تو پیپلز پارٹی پر گرے اور پارٹی کا ستیا ناس کرگئے، لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کس پر گرینگے اور کس کا ستیا ناس کرینگے؟

نازیہ مصطفٰی

ای پیپر دی نیشن