اغواکاروں کا مقصد کیا ہے؟

اذانِ سحری کے ساتھ انسان کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ کلمہ پاک کا ورد کرتا ہوااُٹھ جاتا ہے۔ تمام انسانیت اور اپنے اہل خانہ کیلئے ایک اچھے دن کے آغاز و انجام کی دُعا کرتا ہے اور پھر معمولاتِ زندگی میں مصروف ہو جاتا ہے۔ صُبح تا شام تک اُسے خبر نہیں ہوتی کہ کون سی اُفتاد آئے گی اور کونسی خوشخبری سُننے کو ملے گی۔ اسی طرح سے جب ٹی وی آن کیا جاتا ہے یا نیوز پیپر ہاتھ میں تھاما جاتا ہے تو یقین جانیئے زندگی میں عدم تحفظ کے بے شمار خیالات اور افکار کے ساتھ انسان خیر کی دُعا کر رہا ہوتا ہے مگر خیر کہاںاخبارات اور ٹی وی چینلز کو دیکھ کر تو لگتا ہے جیسے کسی نہ کسی خطہ ارض پہ قیامت ہو کر گزر گئی اور کہیں بس دوچار لبِ بام رہ گئی ہے۔ہم عرصہ دراز سے عدم تحفظ اور یقینی اور غیر یقینی کی سی زندگی جی رہے ہیں اس میں اگر کوئی ہمارے دل پہ ہاتھ ڈالے تو جسم و جان لرز جاتا ہے! بچوں کے اغوا کے معاملات کوئی معمولی بات یا طفلی جرائد کی جاسوسی کہانیاں نہیں ہیں یہ ایک انتہائی تکلیف دہ اذیت ناک مسلمہ حقیقت ہے جس نے والدین کا چین حرام کر دیا ہے۔ جس طرح دن دیہاڑے حیلے بہانے سے اور کسی بھی ذریعہ سے بڑھتی عمر کے بچوں بچیوں کو سفاک عورتیں اور مرد اغوا کر لیتے ہیں پھر کسی کو قتل کر دیا جاتا ہے کہیں یہ درندے نفس کے بازار میں اُنہیں بیچ آتے ہیں کہیں غلام بنا لیا جاتا ہے، کہیں ان کو معذور بنا کر بھکاری بنا دیا جاتا ہے یا کہیں سرحد پار کسی سرغنے کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور وہ معصوم بچے اور بچیاں جو وقت کی چالوں اور انسانوں کی عیاریوں سے نا آشنا ہوتے ہیں ہر طرح کے ظلم و ستم،غیر اخلاقی حرکات اور جبر و تشدد پر اُن کی آنکھیں سوالیہ؟ اور زبان گنگ ہو جاتی ہے۔ جگر کے ٹکڑوں کو ظلمت کدوں میں سوچ کر والدین ہذیانی کیفیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ گھرانے ماتم کدہ بن جاتے ہیں۔ اپنے ہاتھ سے دفنانے میں اللہ تعالیٰ نے ایک سکون کی کیفیت بھی رکھی ہے مگر جو اغوا کاروں کے ہاتھ اُٹھا لیے جائیں تو وہ کہاں ہیں؟ کس حال میں ہیں؟بھوکے پیاسے ہیں،تکلیف میں ہیں درد سے ماں کو پکارتے ہیں یہی احساس اہلِ خانہ کیلئے مسلسل اذیت اور بے چینی کا سبب بن جاتا ہے۔

میں نے پہلے بھی ایک کالم لکھا تھا "خاندانی نظام میں دراڑیں"ان دراڑوں کے باعث بھی ایسا ماحول پنپتا ہے کہ بچے کسی کے بھی بہکاوے میں آجاتے ہیں۔ گھر والوں کے علاوہ گلی محلوں میں رہنے والوں کے بھی کچھ فرائض ہیں ہر علاقے میں کچھ افراد یقینا ایسے ہوتے ہیں جو آنے جانیوالوں کو پہچانتے ہیں کوئی گلی یا کونے پہ کھُلی ہوئی دکان پہ دکاندار آنے جانے والوں کو نظر میں رکھتا ہے اگر کوئی اجنبی نظر آئے اور باربار نظر آئے اور کوئی ٹھیلے والا نیا چہرہ ہو تو اُس کے بارے میں باز پُرس کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ بچوں کے اغوا،تشدد اور اُنکی خریدو فروخت ہمارے معاشرے اور ریاست کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ان اغواکاروں کا مقصد کیا ہے؟ وہ ایسا کر کے اپنے کون سے جذبے کی تسکین کرتے ہیں اور ان غیراخلاقی، غیر قانونی اور غیر انسانی فعل میں ملوث لوگ کون ہیں؟ کیا وہ ہمارے معصوموں کے کچے ذہنوں کو دوزخ اور جنت کے بارے میں ڈرا کر دہشت گردوں کا کردار ادا کروانا چاہتے ہیں؟ وزیرستان میں راقمہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہاں کے چا رسال کی عمر سے ہی لڑکوں کو ایسی جگہ لے جایا جاتا ہے جہاں پر دوزخ کی تصاویر انتہائی اذیت ناک منظر پیش کر رہی ہوتی ہیں اور دوسری جگہ جنت نظیر کو بہت خوبصورت دکھایا جاتا ہے مگر اُنہیں بتایا یہ جاتا ہے کہ جن کو ہم کہیں گے اُن کو قتل کرنا مارنا اور خود کو بم سے اُنکے بیچ میں اُڑا دینا اس جنت کا راستہ ہے۔ حکم عدولی کرنااور راہے فرار اختیار کرنا دوزخ کا۔ اُن معصوم اور نابالغ ذہنوں کو اور کوئی شعور دیا ہی نہیں جاتا نجانے ایسے بچوں کا آخرت میں حساب کیا ہو گا؟ مگر وہ تو اُنکے اپنے بچے ہوتے ہیں وہ اُن پر رحم نہیں کرتے تو جب ہمارے نودمیدہ،گلچین ذہن و بدن والے معصوم ہمارے لختِ جگر اُنکے ہاتھوں بیچے جاتے ہیں تو وہ اُن پر رحم کیا کرینگے۔ (ماں) پکارنے پر جب اُنکے جسموں کو داغا جائیگا پھر بلکنے اور درد سے چلانے پر اُنکے اعضاء کاٹ کر پھینکے جائینگے تو آخر وہ گل و بُلبل ماں پکارنا چھوڑ کر صرف اُن کوہاں کہے گا اور ظلم سہہ سہہ کر ایکدن وہ رحم و کرم سے نابلد بچہ ظالم ذہن،کٹھور دل اور انتہائی اذیت دینے والا کردار بن کر اس معاشرے کیلئے ناسور بن جائیگا۔
ہیومن رائٹس پہ کام کرنیوالے ادارے سر گرم عمل کب ہونگے؟ کیا ہم مہذب معاشرہ کہلانے کے حقدار ہیں؟ جہاں بچوں بچیوں کی تجارت سرعام بھی ہوتی ہے اور سرنہاں بھی اس تجارت کو اگر ہم اس جدید اور ترقی یافتہ دور میں غلامانہ ذہنیت کا شاخسانہ کہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ منفی کرداروں میں ملوث منظم گروہوں کی حکمت عملی کتنی کارگر ہوتی ہے اُس پر عملدرآمد من و عن ہوتا ہے اور وہ انتہائی کامیابی سے قانون،ریاست اور معاشرے کی آنکھوں میں دھول جھونک کر بچے ہماری ناک کے نیچے سے اُٹھالے جاتا ہے مگر ہم ناکام کیوں ہیں؟ توچلیں ان دہشت گردوں اور گمنام سرغنوں سے ہی تربیت لے لیتے ہیں تا کہ ہمیں بھی پتہ چلے کہ صرف سیمینار یا تقریریںنہیں کرنی عملاً کامیابی حاصل کرنی ہے اور اس کا صحیح طریقہ کار ان مافیوں کے سرغنہ ہی سے سیکھتے ہیں تا کہ ہم اپنے معاشرے میں اُسی طرح امن و سکون اور تحفظ کا بول بالا کر سکیںجس طرح یہ تمام مافیے اس کو بے سکون اور عدم تحفظ کا شکار کرتے ہیں۔ اُنکے اصول و ضوابط اپنا کر ہم اُسے مثبت کردار کیلئے استعمال کرنے کا ارادہ کریں تا کہ معاشرے کو سلامتی ملے،انسان کو تحفظ ملے،والدین کو اُنکے بچے ملیں،طالبعلم صحیح علم حاصل کرے،پابندی قانون ہو، عدالتوں تک رسائی ہو اور نجانے کیا کچھ ٹھیک ہو جائے جس کے بگاڑ سے پورا معاشرہ ہی ہیجان کا شکار ہے۔
جب عوام الناس سڑک پہ آتے ہیں تو بھی ریاست ہل جاتی ہے لیکن یاد رکھیں جب ایک ماں سینہ کوبی کرتے اپنی آہ وفغاں کی داد رسی کیلئے نکل پڑتی ہے تو پھر یا تو انصاف لے کے رہتی ہے یا جان دے کے آتی ہے۔ مائوں کا تڑپنا کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان بچوں کو بازیاب کون کرائے گا؟ مزید اغواکاروں کی کاروائیوں پہ کون نظر رکھے گا ؟ ماں کی گود سے چھینے گئے بچوں کے اغوا کنندہ کیلئے سخت ترین سزا کون تجویز کریگا؟ ریاست،فوج ، عدالت یا خود والدین۔۔ !

ای پیپر دی نیشن