بجلی کے معاملات وزیراعظم سے مخفی کیوں؟

موسلادھار بارش شروع ہوتے ہی بازار جھیل کی شکل اختیار کرگیا۔اسی اثنا میں بجلی کی مین ٹرانسمیشن لائن ٹوٹ کر سڑک پر آگری۔ اسکے گرنے کی دیر تھی کہ بارش کے کھڑے ہوئے پانی میں کرنٹ آگیا۔ پھر وہاں سے جو بھی گزر رہا تھا ٗکرنٹ اس کی جان کا دشمن بن رہا تھا۔ نہ جانے کتنے ہی اس سانحے کی وجہ سے موت کی وادی میں جا سوئے۔ سڑک کے دونوں کناروں پر موجودلوگ یہ جان لیوا سانحہ دیکھ تو رہے تھے لیکن کوئی بھی پانی میںاتر کر مرنے والوںکو بچانے کی ہمت نہیں کررہا تھا۔ یہ واقعہ سیالکوٹ کے اس حلقے کا ہے جس شہر سے خواجہ آصف کامیاب ہو کر اسمبلی میں پہنچے۔ شیخوپورہ میں بارہ سالہ عبداللہ اور آٹھ سالہ نعیم گھر کی چھت پر بارش میں نہانے کے لیے چڑھے اور 11 کے وی کی تاروں کی زد میں آکر جھلس گئے۔ لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے افسروں کی تعداد اس قدر زیادہ ہوچکی ہے کہ ان کی تنخواہوں اور مالی مراعات سے ہی کچھ نہیں بچتاجس سے سسٹم کواپ ٹو ڈیٹ ٗ نئے ٹرانسفارمر کی خرید اور ہیوی ٹرانسمیشن لائنوں کو تبدیل کیا جاسکے۔ ڈنگ ٹپائو اقدامات کے تحت سارا نظام چل رہا ہے۔ ہر ماہ افسر اور ملازمین اندازاً 4کروڑ یونٹ بجلی مفت استعمال کرتے ہیں جبکہ ان کا بل صارفین ادا کرتے ہیں اور کسی کو کانوں کان بھی خبرنہیں ہوتی۔ گزشتہ دنوں گیپکو (گوجرانوالہ )پر چھاپہ مارکر نیپرا نے ریونیو آفس کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا۔ تفصیلات کے مطابق 52 لاکھ یونٹ (جسے لائن لاسز کا نام دیاگیا تھا ) نہایت راز داری سے صارفین کے بلوںمیں شامل کردیئے گئے تھے۔ ہر شخص چیختا چلاتا گیپگو کے دفتر کے چکر جاپہنچا لیکن کون سنتا ہے پاکستان میں تو ہر سرکاری دفترمیں یکطرفہ فیصلے ہوتے ہیں۔ حالیہ بجٹ کے نفاذ کے بعد بجلی کے ہر یونٹ پر 1.25 پیسے جی ایس ٹی نافذ کرکے بلز کی رقم کو آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ بجلی چونکہ دور حاضر میں زندگی کی علامت بن چکی ہے اس لیے ادھار لے کر بھی بل ادا کرنا ہی پڑتا ہے چاہے تمام گھر والے بھوک رہ جائیں۔ بہرکیف ایک جانب بجلی کا بوسیدہ سسٹم جو تھوڑی سی تیز ہوا اور بارش کی چند بوندوں کو بھی برداشت نہیں کرپاتا اور ٹرپ کرجاتاہے ٗ تو دوسری طرف جانب جی ایس ٹی سمیت لائن لاسز اورملازمین کے استعمال شدہ یونٹوں کو بھی صارفین کے بلوں میں شامل کر سخت ترین زیادتی کے مترادف ہے۔ نہ جانے کیوں عدالتیں بھی اس کانوٹس نہیں لے رہیں۔ میرے گھر کا بل 7 ہزار آیا جس میں 2100 روپے کے ٹیکس شامل ہیں یہ زیادتی نہیں تو اور کیا ہے۔ اس پر بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ نے پورے ملک میں کہرام مچا رکھا ہے۔ کونسا شہر اور قصبہ ہوگا جہاں لوڈشیڈنگ کے خلاف مظاہرے نہ ہوئے ہوں۔ لاہور میں بھی کئی علاقوں میں چھ سے آٹھ گھنٹے بجلی بند رہنا معمول بن چکاہے۔افسوس تو اس بات کاہے کہ بجلی کے اچانک بند ہوتے ہی شکایت سیل کے فون بھی ڈیڈ ہوجاتے ہیں۔ جاپان میں 20 منٹ بجلی بند ہوئی تو وزیر 20 منٹ تک قوم کے سامنے جھکے دکھائی دیے۔ لیکن پاکستان میں حد سے زیادہ ڈھیٹ ٗ نااہل اور عوام دشمن وزیر اور مشیر کو بجلی کے محکمے پر مسلط کردیا گیا ہے جو سخت ترین گرمی میں بھی عوام کو تڑپتا دیکھ کر بھی لوڈشیڈنگ کم نہیں کررہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ گھنٹے میں 60 منٹ ہوتے ہیں لیکن جب بجلی بند ہوجاتی ہے تو پھر گھنٹہ 600 منٹ کامحسوس ہوتا ہے اور ہر لمحے حکمرانوںکے لیے بدعا نکلتی ہے۔ اس کیفیت سے پاکستانی قوم کو دن میں آٹھ دس مرتبہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر آپ ( نواز شریف) نے اسی طرح بجلی کے معاملات سے چشم پوشی اختیار کیے رکھی تو عوام کے دلوں میں پیدا ہونے والی نفرت انتہاء کو پہنچ سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے بجلی کے سسٹم کو اپ ٹو ڈیٹ کرنے کے ساتھ ساتھ لوڈشیڈنگ پر بھی فوری طور پر قابو پایاجائے۔ اس مقصدکے لیے قابل عمل راستہ یہ ہے کہ ملک میں بنکوں کی تمام برانچوںٗ فائیو سٹار ہوٹلوں اورشادی گھروں کو سولر انرجی پر منتقل ہونے کا حکم دے دیا جائے اگر ایسا ہو جائے تو نہ صرف ایک دن میںلوڈشیڈنگ ختم ہوسکتی ہے بلکہ یہ کریڈٹ مسلم لیگ ن کو 2018 میں ایک بار پھر دو تہائی اکثریت دلاسکتا ہے۔ اگر 500 یونٹ تک بلوں پر سبسڈی بھی دی جائے تو یہ اقدام بھی شریف برادران کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔یہ صرف تجویز نہیں آزمائش شرط ہے۔

ای پیپر دی نیشن