سات دہائیوں کا سفر۔۔۔کیا کھویا کیا پایا؟

علامہ اقبال نے 1930ء میں تصور کی آنکھ سے پاکستان کا خواب دنیا کے نقشے پر دیکھا دس سال وہ مسلمان قوم کی آنکھوں میں اس کی جوت جگاتے رہے بالآخر ان کی رحلت کے بعد 1940ء میں قراردادِ لاہور کی صورت میں مسلمانوں نے اس کو عملی تعبیر دینے کی جد و جہد کا اعلان کیا اور قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اس خواب کو عملی تعبیر دینے کا بیڑا اٹھایا آخر کار 14اگست1947ء کو مملکتِ پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھر کر سامنے آ گئی۔ اس خواب کو تعبیر ہوئے 7دہائیاں گزر چکی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ 70برس ہمارے ملک و قوم کے لئے کوئی خوش کن نہیں تھے، قیامِ پاکستان کے محرکات اور مقاصد بہت سے حوالوں سے پورے نہیں ہوئے، ہم ابھی تک اپنے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کا ہی تعین نہ کر سکے۔ ہر دور میں ہماری تغیر پزیر پالیسیوں میں موجود تضادات، الجھاؤ، انتشار اور بے یقینی کی کیفیت نے ہماری اجتماعی سوچ و شعور کو پختہ ہی نہ ہونے دیا۔ نہ صرف قیامِ پاکستان کے مقاصد بلکہ بنیادی نظریے پر بھی شکوک و شبہات کے سائے پھیلائے گئے، اس سے بھی بڑھ کر دستور، قانون اور اجتماعی اخلاقیات کے ہر اصول و ضابطے کو پارہ پارہ کیا گیا۔ نتیجتاً حصولِ آزادی کے 70سال بعد بھی ہم اپنی آزادی کی بقاء اور نظریاتی تشخص کی حفاظت کی جد و جہد کر رہے ہیں۔
یہ مو قع اچھا ہے کہ سات دہائیوں کا سفر مکمل ہونے پر ہم جائزہ لیں کہ وہ وطن جس کا خواب لاکھوں مہاجرین اوراس خطے میں پہلے سے آباد لوگوں نے دیکھا تھا آج کس حال میں ہے۔ ہماری منزل کیا تھی، ہم کس سمت میں چلے تھے اور اس کے اعتبار سے ہم کہاں پہنچے ہیں۔ اس عرصہ میں کوئی کمائی کی تو کیا، کچھ گنوایا تو کیا؟ گویا ہمارا میزانیہ کیا ہے۔ پھر مزید یہ کہ داخلی اور بین الاقوامی اعتبار سے ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں اور حالیہ بحرانوں میں بچاؤ کا کوئی راستہ ہے کہ نہیں؟ اگر ہے تو کون سا ہے؟
پاکستان نے 70کے سفر میں بہت کچھ پایا ہمیں وطنِ عزیز ملا، اپنی قومی شناخت ملی اور پاکستان عالمِ اسلام کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن گیا۔ قیامِ پاکستان کے وقت ملک میں اکا دکا صنعتیں اور چھوٹے کارخانے تھے اور کوئی بڑی قابلَ ذکر صنعت نہ تھی ، جب کہ آج ہماری ٹیکسٹائل کی صنعت دنیا میں ایک اہم مقام حاصل کر چکی ہے۔ آج پاکستان دفاعی لحاظ سے ایک مضبوط ملک ہے ۔ ہماری میزائل اور ایٹمی ٹیکنالوجی دنیا میں بہترین ہے۔ہمارے ملک کی اسٹاک ایکسچینج کارکردگی کے حوالے سے دنیا میں بہترین اسٹاک ایکسچینج قرار دی گئی ہے۔ ترقی کے ا س سفر کو زیرو سے شروع کر کے ہم آج اس مقام تک پہنچے ہیں جو کہ ایک قابلِ فخر بات ہے۔ لیکن ہماری کارکردگی اس سے بہتر ہو سکتی تھی اگر ہم اخلاص سے ملک کی ترقی کے لئے کوشش کرتے ،ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے سے ہم آج مشکلات کا شکار ہوئے۔
سیاسی سطح پر پورے70سال میں افراتفری اور عدم استحکام کا دور دورہ رہا ہے یعنی حکومتیں بن رہی ہیں، بگڑ رہی ہیں، ایک تکون ہے جو حرکت کرتی ہے، اس کا کبھی ایک رخ سامنے آ گیا کبھی دوسرا رخ سامنے آ گیا۔ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک طویل عرصہ فوجی حکمرانوں کے ادوار پر مشتمل ہے، اس کا نتیجہ ہے کہ ہم سیاسی سطح پر ایک نابالغ اور اپاہج قوم کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ افراتفری اور عدم استحکام کے علاوہ سیاسی سطح پر پاکستانی قوم مختلف قومیتوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ پہلے چار قومیتیں تھیں اب مہاجر، ہزارہ، سرا ئیکی اور دیگر قومیتیں وجود میں آ چکی ہیں لہٰذا اب ہم ایک قوم بھی نہیں رہے۔ معاشی سطح پر ہمارا ریکارڈ بد ترین ہے، بھاری بھر کم بیرونی قرضوں کا بوجھ قوم کے کندھوں پر ہے۔ دوسری جانب جاگیرداری نظام اپنے انڈوں اور بچوں کے ساتھ پوری طرح قائم و دائم ہے اور موجودہ زمینداری نظام سے بڑا کوئی ظلم نہیں ہے جس میں خون پسینہ کاشتکار کا ہوتا ہے اور عیش زمیندار کرتا ہے۔ کسان کے بچوں کو وہ میسر نہیں جو جاگیر داروں کے کتوں کو دیا جاتا ہے۔ امن و امان کی سطح پر قتل،ڈکیتیاں، دہشت گردی، چوریاں، غارت گری، خود کش حملے اور اغواء برائے تاوان معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔ ایجوکیشن سیکٹر میں بہت کام ہوا لیکن اب بھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ ہم گزشتہ 70سالوں میں کوئی آئیڈیل مقام حاصل کر لیا بلکہ اس شعبے میں ابھی بہت سا کام ہونا باقی ہے۔ شرح خواندگی دوسری اقوام کے مقابلے میں جو ہمارے ساتھ آزاد ہوئیں ان سے بہت کم ہے، نظامِ تعلیم عصری اعتبار سے جوہر قابل پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اب تعلیم ایک کاروبار اور نفع بخش صنعت بن چکی ہے۔ اخلاقی سطح پر جھوٹ، وعدہ خلافی اور خیانت انتہائی عروج پر ہیں۔ تقسیمِ برِ صغیر کے وقت پاکستان کے حصے میں جو علاقے آئے وہ صنعتی لحاظ سے بالکل پسماندہ تھے، اکا دکا ملیں اور چھوٹے کارخانے تھے زیادہ تر معیشت کا انحصار زراعت پر تھا، بڑی صنعتیں نہ ہونے کے برابر تھیں ۔ جدید دور میں کوئی ملک محض زراعت کے بل پرمعاشی خوشحالی نہیں حاصل کر سکتا ہے۔ تمام حکومتوں نے اس طرف توجو دی لیکن اب میں ہم صنعتی ترقی کی وہ سطح حاصل نہیں کر سکے جہاں دنیا کے دوسر ممالک پہنچ چکے ہیں۔ میڈیکل کے فیلڈ میں بہت کام ہوا ہے لیکن ملکی ضرورت سے پھر بھی کم ہے، ڈاکٹرز، سرکاری ہسپتال بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ اسی تناسب سے نہیں بڑھائے گئے۔ زیادہ تر ادویات پر ملٹی نیشنل کمپنیو ں کا قبضہ ہے جو کہ بہت مہنگی ہیں ہم یا تو وہ تیار نہیں کر سکے یا پھر ہمیں ان ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بنانے نہیں دیں۔ غربت، بے روزگاری، مہنگائی، انسانی حقوق، رہائش کی سہولتیں وطنِ عزیز کے تمام شہریوں کو مہیا نہیں کر سکے ہیں۔ مذہبی رواداری اور بین الصوبائی ہم آہنگی میں بتدریج کمی واقع ہوئی ہے۔
ان 70سالوں میں ایک حد تک ترقی کے باوجود ملک میں غربت او رمہنگائی میںبدستور اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ہمارے ہاں امیر غریب کے درمیان اس بڑھتے ہوئے فرق کی وجہ دولت کی غیر مساویانہ تقسیم ہے۔ پوری دنیا کی نظریں اس وقت پاکستان پر لگی ہوئی ہیں۔ کسی بھی ملک میں معاشی استحکام اس ملک کے سیاسی استحکام سے مربوط ہے۔ موجودہ غیر یقینی صورتحال میں صنعتکاری کا عمل رک گیا ہے جس سے ملازمتوں کے مواقع محدود ہو گئے ہیں۔ اس سال ہم اپنے برآمدی اہداف بھی پورے نہیں کر پائے جس سے پاکستان کی تاریخ کا تجارتی خسارہ سب سے زیادہ ہے اسی طرح مالی خسارہ بھی بڑھ گیا ہے۔ ہمارے ملک میں ادارے کمزور اور اشخاص مضبوط ہوئے ہیں ہمیں چاہئے کہ ہم اداروں کو مضبوط بنائیں ۔ میرے نزدیک وطنِ عزیز میں ترقی کی بے انتہا صلاحیت ہے صرف متحرک اور اعماندار قیادت میسر آ جائے تو مستقبل میں پاکستان جنوبی ایشیا میں معاشی و صنعتی ترقی کے میدانوں میں نمایاں کرادر ادا کر سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن