سپریم کورٹ کا فیصلہ اور قومی مفاد کے تقاضے

پانامہ کیس کے بارے میں سپریم کورٹ کا 28 جولائی کو سنایا گیا فیصلہ دو لحاظ سے مثالی اور تاریخی تھا۔ پہلے اس لئے کہ پاکستان کی تاریخ میں فاضل عدالت نے پاکستان کے تیسری بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا۔ نہ صرف وزیراعظم بلکہ ان کے دو بیٹوں ایک بیٹی اور داماد کو بھی صادق اور امین تسلیم نہیں کیا گیا۔ اس ضمن میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ فاضل عدالت عالیہ کے پانچ معزز جج صاحبان کا یہ متفقہ فیصلہ تھا جس کے مطابق تمام متعلقہ ملزمان کے خلاف نیب عدالت میںNAB's LAWS کے تحت مزید ضروری کارروائی کیلئے احکامات صادر کئے گئے ہیں۔ ان میں وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار بھی شامل ہیں۔ عدالت عالیہ کے احکامات پر عملدرآمد کرتے ہوئے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے عہدہ کا قلمدان چھوڑ دیا۔ وزیراعظم ہائوس خالی کر کے فوراً پنجاب ہائوس اسلام آباد میں عارضی طور پر شفٹ ہو گئے اور پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلا کر وزیر پٹرولیم جناب شاہد خاقان عباسی کو لیڈر آف دی ہائوس اور وزیراعظم نامزد کر دیا جو یکم اگست کو قومی اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں بھاری اکثریت سے نئے وزیراعظم پاکستان منتخب ہو گئے ہیں۔ یہ سارا PROCESS قانون اور آئین کے مطابق جمہوری طریقے سے مکمل ہوا اور اس طرح جمہوری عمل سے انتقال اقتدار کے عمل کو نہایت پُرامن طریقے سے مکمل کرنے میں پاکستان کے تمام متعلقہ اداروں اور ریاست کے تمام ستونوں کو آئین کی بالادستی کی پابندی اور احترام پر مبارکباد ہو۔اس موقع پر یہ کہنا ضروری ہے کہ پانامہ کیس کا ابھی صرف ایک مرحلہ مکمل ہوا ہے جبکہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کے کئی مراحل جو نہایت نازک اور حساس ہیں ابھی باقی ہیں جس پر مجھے منیر نیازی یاد آتے ہیں جنہوں نے کیا خوب کہا تھا کہ وہ جب ایک دریا کو پار کرتے ہیں تو دوسری طرف کچھ فاصلہ پر ایک اور دریا پار کرنے کے لئے ان کا منتظر ہوتا ہے۔ اسی مسلسل جدوجہد اور کشمکش کا عمل زندگی کے متواتر امتحان کا آئینہ دار ہے۔ پانامہ کیس کے یہ تقاضے اور امتحانات جاری رہیں گے جب تک سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے فیصلہ میں دیئے گئے امتحانات کی تمام تفصیلات اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچ جاتیں۔کہا جاتا ہے کہ فاضل سپریم کورٹ کے فیصلہ نے پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں پہلی بار اعلیٰ ترین سطح پر ACCOUNTABILITY اور احتساب کا جو رول ماڈل پیش کیا ہے وزیراعظم کا نا اہل قرار دیا جانا اس کا پہلا منظرنامہ کہنا چاہئے۔ جسے انگریزی ڈرامہ کی زبان میں ایکٹ ACT 1 SEEN1 کہا جا سکتا ہے۔ اس ڈرامہ کے ایکٹ 4,3,2 اور ہر ایکٹ کے سین 1,2,3,4 ابھی منظر پر آنا باقی ہیں۔ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلہ نے تاریخ بدل دی ہے اور 28 جولائی کے فیصلہ کے بعد ایک نیا پاکستان ایک روشن پاکستان‘ ایک ایسا پاکستان جس میں چھوٹے بڑے غریب امیر کمزور اور طاقتور کی تمیز کو نظر انداز کرتے ہوئے قانون اور آئین کی بالادستی برقرار رکھتے ہوئے ایک مضبوط اور ریاست کے اعلیٰ ترین عہدہ پر فائز انسان کے ساتھ ACROSS THE BOARD ایک ہی پیمانہ سے انصاف کیا جائے گا۔خلیفہ وقت بھی قاضی کے سامنے پیش ہو کر جواب دہی کا پابند ہو گا۔ قانون شکنی کی صورت میں ایک عام سطح پر فائز خاتون اور ہمارے مولا اور آقا حضور سرور کائناتﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ قانون اور آئین کی نظر میں قاضی کے سامنے پیش ہوتے وقت برابر اور مساوی تصور کی جائے گی۔ یہ ہے اسلام کا تصور مساوات قانون کی نظر میں یہ کوئی آسان بات نہیں ہے۔ یہ بڑا مشکل مرحلہ انصاف ہے جو قاضی یا ہماری عدلیہ کو پیش نظر رکھنا ہے۔ پانامہ کیس میں فاضل سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس نظام اسلام کو فائز کرنے کی جرات اور بہادری کا جو عزم دکھایا ہے وہ قابل صد تعریف ہے۔سپریم کورٹ نے بہت سے مجرموں کے خلاف بہت سے مقدمات کی ریفرنس 6 ہفتے کے اندر نیب عدالتوں میں پیش کرنے کا حکم صادر فرمایاہے جس کے لئے نیب لاز کے تحت سماعت ہو گی۔ جس کی نگرانی سپریم کورٹ کا مقرر کردہ ایک سپیشل فاضل جج کریگا۔ تاکہ 6 ماہ کے اندر ان مقدمات کے فیصلے کئے جا سکیں۔ یہ وہ منزل ہے جس کی راہ میں بہت سے مشکل مقام کوہ گراں بن کر راستہ روکیں گے۔
دوسری طرف نئے وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی نے یکم اگست کی شام نئے وزیراعظم کا حلف اٹھا کر انا قلمدان اور نئی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ اگرچہ تادم تحریر یعنی 2 اگست کی شام ان کی کابینہ کے نام اور قملدانوں کا اعلان ابھی نہیں ہوا۔ امید ہے کہ اس کالم کی اشاعت تک یہ تفصیلات عوام تک پہنچ جائیں گی۔ جن سے نئے اور روشن پاکستان کے بارے میں اندازا لگایا جا سکے گا۔ راقم وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی اور دیگر وزراء کرام کو نئی تمنائوں کے ساتھ دلی مبارکباد پیش کرتا ہے۔ جناب وزیراعظم کی پہلی تقریر جو انہوں نے قومی اسمبلی کے فلور پر قوم کو خطاب کرتے ہوئے اپنے مستقبل کے ویژن کا جو منظر نامہ پیش کیا اس میں داخلہ و خارجہ پالیسی کے بارے میں یا ملک کو جو اکنامک خطرات درپیش ہیں یا سرحدوں پر جو خطرات منڈلا رہے ہیں جبکہ وطن عزیز حالت جنگ میں ہے عوام کو اعتماد میں لینے کی زحمت نہیں فرمائی۔ ماسوائے اس کے کہ بحیثیت نگران وزیراعظم وہ 45 دنوں میں 45 مہینوں کا کام کر کے دکھائیں گے جس سے میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ 45 مہینوں کے شب و روز انتھک قوم کی خدمت کا ماحاصل ان کے ویژن کے مطابق کیا ہو گا۔ انہوں نے صرف یہی فرمایا کہ وہ پوری وفاداری سے سابق وزیراعظم جناب میاں محمد نواز شریف کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے ان کا مشن جاری رکھیں گے۔ سو اس بارے میں نہایت ادب سے گذارش ہے کہ گزشتہ حکومت کا 4 سال کا ہر شعبہ میں تخمینہ انٹرنیشنل اداروں کے تجزیوں کے بعد ہمارے سامنے ہے۔ کیا نگران وزیر اعظم اگلے 3 ماہ میں کون سے تیر ماریں گے جن کے ہدف کے بارے میں اگر وہ اپنے اگلے قوم سے خطاب میں عوام کو بھی اپنے اعتماد میں لے سکیں تو غیر یقینی ماحول کی گرفت میں پھنسی ہوئی قوم کے لئے یہ بریکنگ نیوز کا موجدہ ہو گا۔ سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے فیصلہ کا یہ بھی ایک اہم تقاضا ہے کہ نئے وزیراعظم اس فیصلہ کو اپنے منطقی انجام تک کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے اپنی حکومت کے بھر پور تعاون کا یقین دلانے کی اور مختلف اداروں میں ہم آہنگی HARMONY کو فروغ دینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرینگے۔

ای پیپر دی نیشن