مبتلائے درد کوئی عضو ہو، روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
صدی ہونے کو آئی اقبال کہہ گئے حکمران قوم کا چہرہ ہوتا ہے اسے دیکھ کر ہر شخص کو ایک ہی نظر میں قوم کی حقیقی حیثیت کا اندازہ ہو جاتا ہے وہ قوم کے جسم میں آنکھ کا مقام رکھتا ہے اس لیے وہ ہر ایک کے دُکھ درد پر تڑپ کر آنسو بہاتا ہے۔ نواز شریف پارلیمانی کمیٹی میں کہہ رہے تھے مجھے اس بات کا کوئی غم نہیں کہ اقتدار ختم کر دیا گیا خوشی اس بات کی ہے کہ مجھے جس الزام پر اقتدار سے باہر کیا گیا وہ لایعنی بات ہے میں اس فعل کے بعد بھی یہ چاہتا ہوں کہ میری قوم خوشحال ہو اور ملک ترقی کرے۔ ان کی ساری فکر قوم کے لیے ہے اور قوم اب بھی ان کو اپنا قائد مانتی ہے۔پاکستان کی تاریخ بھی کیسی نرالی ہے کوئی بھی وزیراعظم اپنی پانچ سال کی آئینی مدت پوری نہ کر سکا۔ لیاقت علی خان قائد ملت 4 سال 2 ماہ وزیراعظم رہے اور شہادت کے منصب پر فائز ہوئے۔ یہ سب سے زیادہ مدت تک وزیراعظم کے عہدہ پر فائز رہے۔ اس کے بعد خواجہ ناظم الدین 51 سے 1953ء تک منصب سنبھالا۔ محمد علی بوگرہ ایک سال بھی نہ گزار سکے۔ چودھری محمد علی 55 میں آئے اور 12 ستمبر 1956ء کو مستعفی ہو گئے۔ حسین شہید سہروردی 1957ء میں فارغ ہوئے۔ ابراہیم اسماعیل چندریگر 2 ماہ وزیراعظم رہے۔ فیروز خان نون بھی ایک سال وزیراعظم رہے۔ 1973ء میں آئین بننے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم رہے انہیں قبل از وقت انتخابات کروانے پڑے وہ 77 جولائی میں فارغ کر دیئے گئے۔ محمد خان جونیجو 1985ء میں آئے اور تین سال بعد 1988ء میں فارغ ہو گئے۔ بے نظیر بھٹو 1988ء تا 1990ء ملک کی وزیراعظم رہیں۔ نواز شریف پہلی بار 90 میں وزیراعظم بنے جو 93ء میں گھر بھیج دیا گیا۔ سپریم کورٹ میں نواز شریف کیس جیتے لیکن پھر بھی وزارت عظمیٰ نہ بچ سکی اور ایک فارمولے کے تحت اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں۔ 93ء میں بے نظیر بھٹو دوبارہ اقتدار میں آئیں لیکن نومبر 1996ء کو انہیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ 97ء میں میاں نواز شریف دوسری بار وزیراعظم بنے اور 12 اکتوبر کو انہیں ہٹا دیا گیا۔ میر ظفر اللہ جمالی 19 ماہ چودھری شجاعت حسین 2 ماہ اور شوکت عزیز تین سال وزیراعظم رہے۔ یوسف رضا گیلانی 2008ء میں وزیراعظم بنے لیکن 4 سال اور ایک ماہ کے بعد وہ بھی عہدے سے ہٹا دیئے گئے۔ راجہ پرویز اشرف وزیراعظم بنے تقریباً چھ یا سات ماہ اس کے بعد 2013ء میں نواز شریف بھاری اکثریت سے جیت کر وزیراعظم بنے اور 28 جولائی کو عدالتی حکم پر رُخصت کر دیئے گئے۔ہم کس قسم کی جمہوریت کے دعویٰ دار ہیں؟ جمہوریت کا سربراہ اپنے عہدے کا دورانیہ پورا نہیں کر سکتا۔ یہ کس قسم کا مذاق ہے کہ کبھی وزیراعظم قتل کر دیا جاتا ہے کبھی پھانسی پر چڑھا دیا جاتا ہے اور کبھی ہتھکڑیاں لگا کر باندھ دیا جاتا ہے۔ یہ جمہوریت کی توہین ہے تبھی تو ہم اس جمہوریت کے فیوض و برکات سے مستفید نہیں ہو سکتے۔خان لیاقت علی خان شہید ملت کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو ’’قائد عوام‘‘ کے خطاب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو ’’دُختر مشرق‘‘ اور شہید کہلائی جاتی ہیں۔ میاں محمد نواز شریف ’’قائد جمہوریت‘‘ کے لقب سے پکارے جاتے ہیں۔ کیا ان میں سے ایک بھی خطاب عوامی نفرت، غصہ کا اظہار پر ہے۔ نہیں جناب نہیں۔ یہ عزت و شرف ’’جمہوریت‘‘ میں پنہاں ہے کیونکہ جمہوریت میں حکومت ’’عوام کی‘‘ عوام کے لیے ہے۔ عوامی راج کا نام جمہوریت ہے اور اس جمہوریت کو قائم رکھنے والے محبوب رہنماؤں کو کس طرح عوام کے دلوں سے باہر نکالا جا سکتا ہے۔میاں محمد نواز شریف ایک تحریک کا نام ہے۔ وطن عزیز کا سب سے مقبول راہنما … کروڑوں دلوں کی دھڑکن، کروڑوں عوام کا امام… ہر انتخاب میں ثابت ہوا کہ عوام کی حکومت عوام کے لیے صرف نواز شریف کے نام سے قائم ہوتی تھی اور انشاء اللہ قائم ہوتی رہے گی۔ حکومت اور اقتدار یہاں کئی افراد نے سنبھالا آج ان کا کوئی نام لیوا نہیں وقت کی عدالت میں نواز شریف ہمیشہ سرخرو ہوئے اور سُرخرو ہوتے رہیں گے۔78ء میں ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا۔ معزز عدالت کا فیصلہ ایک اور منتخب وزیراعظم تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ اس عدالتی فیصلے کو آج ہمارے ملک میں مثال کے طور پر بھی پیش نہیں کیا جا سکتا۔ مرحوم جسٹس نسیم حسن شاہ نے ببانگ دھل اقرار کیا تھا کہ بھٹو کا عدالتی قتل دباؤ میں کیا گیا۔ انصاف، قانون اور آئین کو پامال کیا گیا۔ تاریخ نے اس سچ کو کچھ سالوں میں اُگل دیا۔ کیا اگلے کچھ سالوں کے بعد ایک نیا سچ بھی اُگلا جائے گا کیا تاریخ کو پھر دُہرایا جائے گا؟بدقسمتی کیا ہمارے دروازے پر آن رُکی ہے۔ ایٹمی قوت بنانے کی ابتداء کرنے والا تختہ دار پر چڑھایا گیا۔ ایٹمی قوت کا دھماکہ کرنے والا ہتھکڑیاں ڈال کر مجرموں کی طرح گھومایا گیا۔ نہ اس نے وطن کی مٹی کو دھوکہ دیا نہ اس نے غداری کی۔ بلکہ اپنا تن من دھن اس پاک وطن پر قربان کر کے اس کی ترقی، خوشحالی اور دفاع کے لیے شب و روز کام کیا۔ اپنی تمام صلاحیتیں عوام کے لیے وقف کیں۔ دربدر ہو کر جب وہ واپس آیا تو کبھی ملک کو اندھیروں سے نکالنے کے لیے پاور پلانٹ کا اہتمام کیا اور کبھی سی پیک کے لیے چین کے دورے کئے۔ کبھی ترکی کی خاک چھانی اور کبھی متحدہ عرب امارات اور سعودیہ عرب میں ذاتی دوستوں کو جمع کیا۔ ملک کی اکانومی کو تیزی کے ساتھ مستحکم کیا حالانکہ دل کے عارضے میں مبتلا سات دہائیوں سے مسلسل جدوجہد کرنے والا یہ رہنما اب جسمانی طور پر تھک چکا ہے لیکن اس کی خواہش ہے کہ وہ عظیم پاکستان کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھے۔نواز شریف عدلیہ کے فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم کر چکے وزیراعظم کوئی بھی بنے۔ شاہد خاقان عباسی یا میاں شہباز شریف سب کی اصل قوت ’’نواز شریف‘‘ ہے۔ یہ جمہوریت کا وہ عظیم محور ہے جس کے گرد حکومت اور اقتدار گھومے گا۔ اقبال کہہ گئے ہیں اور ہم مُرشد اقبال کا کہا سند مانتے ہیں۔
نگہ بلند، سُخن دل نواز، جاں پُرسوز
یہی ہے فرحت سفر میر کارواں کے لئے