علی گڑھ کے گریجویٹ مولانا حسرت موہانی ابتدا ہی سے انگریز دشمنی اور انقلابی سوچ کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے جس کی سزا انہوں نے زندگی بھر بھگتی۔ اپنے وچار عام کرنے کیلئے صحافت کا سہارا لیا مگر مطبوعات زیر عتاب رہیں، کبھی جرمانہ تو کبھی بندش۔ ان کا سیای سفر مختلف جماعتوں سے ہوتا ہوا آل انڈیا مسلم لیگ پر ختم ہوا۔ آزادی کے بعد ہندوستان میں ہی رہے کہ پیچھے رہ جانے والے کروڑوں مسلمانوں کی دستگیری کون کرے گا۔ آخری عمر میں کسی نے پوچھا مولانا! کیسی گزری؟ فرمایا آدھی ریل میں آدھی جیل میں، اس حوالے سے آپ کا یہ شعر زبان زد عام ہے:
ہے مشق سخن جاری، چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی