تجارتی گھاٹے سے بیرونی شعبہ پردباؤبڑھا، مالیاتی خسارے کاچیلنج ہے :سٹیٹ بنک

کراچی (کامرس رپورٹر) بینک دولت پاکستان نے اپنی ادارہ جاتی سالانہ مطبوعہ ’مالی استحکام کا جائزہ- 2017‘ گزشتہ روز جاری کر دیا۔ اس جائزے میں مالی شعبے کے جن اجزا کی کارکردگی اور خطرات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے ان میں بینکاری، غیر بینک مالی ادارے، مالی بازار، مبادلہ کمپنیاں، غیر مالی کارپوریٹ ادارے اور مالی بازار کا انفراسٹرکچر شامل ہیں۔ اس میں زیرِ تجزیہ خطرات کے ان ممکنہ مضمرات پر بحث بھی کی گئی ہے جو مالی شعبے کے مجموعی استحکام پر پڑ سکتے ہیں۔ ’مالی استحکام کا جائزہ‘ میں بتایا گیا ہے کہ مالی زد پذیری کے اشاریے میں ناپی گئی مالی استحکام کے مجموعی خطرات کی سطح 2017 میں پست ترین رہی تاہم مالی صورت حال کی سختی کے باوجود مالی اداروں نے خاصی اچھی کارکردگی دکھائی۔ مالی شعبے کے یکجا اثاثوں میں 2017کے دوران 12.8 فیصد اضافہ ہوا جبکہ جی ڈی پی میں اثاثوں کا تناسب 2017میں بڑھ گیا جو مالی گہرائی میں مزید اضافے کی علامت ہے۔بین الاقوامی تناظر میں مطبوعہ میں اجاگر کیا گیا ہے کہ عالمی پیداواری نمو کی رفتار توقعات سے بڑھ کر رہی جسے بحال ہوتی ہوئی تجارت اور سرمایہ کاری سے مدد ملی۔ عالمی معیشت کی نمو 2017میں 3.8 فیصد رہی جو 2016میں 3.2 فیصد تھی۔ تاہم جائزے میں توجہ دلائی گئی ہے کہ عالمی مالی استحکام کو لاحق قلیل مدتی خطرات 2017میں کم رہنے کے بعد حال میں 2018 میں بڑھ گئے ہیں جس کا سبب ایکویٹی مارکیٹ میں تغیر پذیری اور تجارتی تنازعات ہیں۔ملکی معیشت کی نمو مالی سال 17میں 5.37 فیصد یعنی خاصی مناسب رہی جبکہ مالی سال 18 میں نمو کا تخمینہ 5.79 فیصد ہے۔ تاہم معیشت کو نمایاں چیلنج درپیش ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کی بنا پر بیرونی شعبے میں بڑھتا ہوا دبائو ہے، جس کے بعد مالیاتی خسارے کا چیلنج ہے۔ عمومی مہنگائی کم رہی تاہم قوزی مہنگائی بلند سطح پر برقرار ہے۔ شعبہ بینکاری کے اثاثوں میں 15.86 فیصد اضافہ ہوا جس کا بڑا سبب نجی شعبے کو قرضوں میں مضبوط نمو ہے۔ قرضوں کی طلب کو بنیادی مہمیز ٹیکسٹائل، سیمنٹ، اور زرعی کاروبار کے شعبوں سے ملی۔ قرضے بڑھنے کے سبب قرضوں میں غیر فعال قرضوں کا تناسب 8.4 فیصد ہوگیا جو ایک عشرے کی پست ترین سطح ہے جائزے میں بتایا گیا ہے کہ اسلامی بینکوں اور مائکرو فنانس بینکوں میں پختگی آتی جا رہی ہے جس میں انہیں بہتر کارکردگی، قرضوں، امانتوں اور صارفین کی تعداد میں اضافے، اور مالی شعبے کے اثاثوں میں اپنے بڑھتے ہوئے تناسب کی مدد حاصل ہے۔بیمہ کاری کی صنعت کو مجموعی پریمیم میں عمدہ نمو حاصل ہوئی تاہم چند بیمہ کاروں کے غلبے کی بنا پر اسے ارتکاز کا خطرہ درپیش ہے۔ اسے مارکیٹ کے خطرے کا بھی سامنا ہے کیونکہ شرحِ سود یا ایکویٹی نرخوں میں منفی تبدیلی اس کی سرمایہ کاری آمدنی کو متاثر کر سکتی ہے۔ مبادلہ کمپنیاں 2017 کے دوران متواتر نمو اور بہتر منافع کے ساتھ ساتھ مالی نظام کے لیے محدود نظامیاتی خطرے کا باعث ہیں۔ تاہم چونکہ بعض مبادلہ کمپنیاں بینکوں کا ذیلی ادارہ ہیں، اس لیے اپ اسٹریم خطرہ محدود ہے لیکن بہرحال موجود ہے۔مالی بازار کے انفرا سٹرکچر (ایف ایم آئیز) نے ہموار اور عمدہ کارکردگی دکھائی۔ مزید برآں، بینکوں سے سب سے زیادہ قرض لینے والوں میں شامل ٹیکسٹائل شعبہ نسبتاً بلند لیوراجیہ اور قرض کی ادائیگی کی کم استعداد کا حامل ہے۔قلیل مدت میں اگر بیرونی کھاتے کی دشواریاں برقرار رہیں، مالیاتی عدم توازن موجود رہا، اور معیشت میں بچت (خصوصاً امانتوں میں نمو) پست رہی تو ملکی مالی استحکام کو لاحق خطرات مزید بڑھ سکتے ہیں۔ جائزے میں بتایا گیا ہے کہ اگر نمو کی رفتار برقرار رہے، سی پیک سے مواقع بڑھیں، توانائی کی دستیابی بہتر ہو، اور بڑھتی ہوئی عالمی طلب کے باعث برآمدات میں متوقع اضافہ ہو جائے تو وسط مدت میں مالی نظام کو خطرات کم ہو سکتے ہیں۔’مالی استحکام کا جائزہ‘ کے آخر میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان ابھرتی ہوئی زد پذیری کے پیشِ نظر صورتِ حال پر بھرپور نظر رکھے ہوئے ہے جس میں پیش قدمی اور کلّیت کے عناصر شامل ہیں، اور وہ نہ صرف اپنے ضوابط اور نگرانی کا نظام مستحکم بنا رہا ہے بلکہ نظامیاتی تشویش کے ازالے کے لیے سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے ساتھ اشتراک بھی کر رہا ہے۔

ای پیپر دی نیشن