بھارتی آئین کا آرٹیکل 35-A

کشمیر ایک تباہ کن صورتحال کا سامنا کرنے والا ہے۔ ہر سو خوف و ہراس اور وحشت کا راج ہے۔ افواہوں کا بازار گرم ہے۔ امرناتھ یاترا کی آڑ میں یاتریوں کی حفاظت کے نام پر دس ہزار تازہ دم فوجی دستے تعینات کردیے گئے ہیں۔ وادی میں آئے سیاحوں کو کہہ دیا گیا ہے کہ وہ فوراً یہاں سے نکل جائیں کیونکہ ان کی جانوں پر حملے کا خطرہ ہے۔ اس سلسلے میں خصوصی بسوں کو چلانے کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔ لوگوں میں بے چینی پھیل گئی ہے۔ اے ٹی ایم مشینوں ، کھانے پینے کی اشیاء اور دوائیوں کی دوکانوں پر لمبی قطاریں لگ گئی ہیں۔ ایک انجانے خوف سے دوچار آبادی روز مرہ کی اشیاء کاذخیرہ کرنے پر مجبور ہوگئی ہے اور کہیں کہیں ان کی قلت کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔
اس ساری صورتحال کو پیدا کرنے میں جو وجہ سامنے آر ہی ہے وہ حکومت کا یہ منصوبہ ہے کہ وہ پندرہ اگست کو کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی سے متعلق ایک بڑا اعلان کرنے جارہی ہے۔ اس میں دو امکانات کا ذکر کیا جارہا ہے۔ اول یہ کہ اپنے انتخابی منشور میں کئے گئے وعدے کے مطابق، جس میں آرٹیکل 370اور آرٹیکل 35-A کو آئین سے ختم کرنا تھا، بی جے پی کی حکومت جموں کشمیر کو دو ریاستوں اور لداخ کو مرکز کے ماتحت علاقے قرار دینے جارہی ہے، جس سے ان دونوں آرٹیکلز کا اثر از خود ختم ہوجائیگا۔ وادی کے تمام حلقوں نے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی ہے اور دو ٹوک الفاظ میں یہ واضح کردیا ہے کہ بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ایک ایسی سرخ لکیر ہے جس کو عبور کرنے سے بڑی تباہی آجائیگی۔ حکومت نے ان خبروں پر پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ نہ وہ اس کی واضح تردید کرتی ہے اور نہ اس کا اقرار۔
ہم آج قارئیں کے سامنے بھارتی آئین میں جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت اور اس کے پس منظر کو مختصراً بیان کرینگے تاکہ اس بات کو سمجھا جاسکے کہ آخر کیوں کشمیر کے عوام اس کوناقابل عبور سرخ لکیر سمجھتے ہیں۔ اس معاملے کی تاریخ کے دو حصے ہیں۔ اول، آزادی کے موقع پر اور، دوم، اسکے سات سال بعد۔ پہلے مرحلے میں اگست 1947 میں مہاراجہ ہری سنگھ جو وادی کا حکمراں تھا اس نے ابتدا میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ آزاد ریاست کی حیثیت سے رہے گا جبکہ وادی مسلمانوں کی واضح اکثریت کی حامل ریاست تھی اور اس کو قدرتی طور پر پاکستان کا حصہ بننا تھا۔
اس سال اکتوبر میں بھارت نے اپنی فوجیں سرینگر میں اتار دیں اور مہاراجہ کو بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرنے پر مجبور کردیا۔ اس دستاویز میں بھی راجہ نے صرف تین شعبوں میں اپنی خود مختاری بھارت کو تفویض کرنے کی حامی بھری: دفاع، خارجہ امور اور مواصلات۔ اس کے علاوہ تمام مضامین جموں و کشمیر کے عوام اور ان کی اسمبلہی کا ستحقاق تھا۔ بعد ازاں جب 1949 میں بھارت کا آئین تشکیل ہونے والا تھا اور ریاستی اسمبلی نے اپنی آئینی تجاویز مکمل نہیں کی تھیں تو اس آئین میں بھارت نے کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 شامل کردیا جو سارے بھارت میں کسی اور ریاست کو حاصل نہیں ہے۔ اس کی بنیاد وہی دستاویز الحاق ہے جس پر مہاراجہ نے جبراً دستخط کئے تھے۔
بعد ازاں کشمیری لیڈروں کو یہ احساس ہوا کہ بھارت کے کچھ حلقے ریاست کی آبادی کی ہیت کو بدلنا چاہتے ہیں خصوصاً اس حوالے سے کہ وہاں دیگر علاقوں سے لا کر نئی قوموں کو بسایا جائے، یہ ایک بڑی تشوش کی بات تھی اور کشمیر ی عوام کبھی اس بات کو قبول نہیں کرینگے کہ ان کی آبادی کو اقلیت میں بدل دیا جائے۔ یہ خوف کشمیریوں کو آزادی کے بعد پیدا نہیں ہوا تھا۔ بلکہ 1927 اور 1932 میں بھی یہ اندیشہ اس وقت پیدا ہوا جب مقامی آبادی کے اندیشوں کو دور کرنے کیلئے مہاراجہ نے دو احکامات جاری کیلیے جس کی رو سے کشمیریوں کو یہ حقوق حاصل ہوگئے کہ ان کے علاوہ کوئی اور ریاست میں جائیداد خریدنے کا حق نہیں رکھتا اور انہیں سرکاری نوکریوں اور سرکاری وسائل سے پیدا شدہ سہولتوں تک ترجیحاً رسائی حاصل ہوگی۔لہذا ضرروت اس بات کی تھی کہ ان حقوق کو آئینی تحفظ دیا جائے۔ دوسری جانب بھارتی حکومت بے چینی سے کشمیری آئین ساز اسمبلی سے دستاویز الحاق کی منظوری کا انتظار کر رہی تھی۔ اس پس منظر میں وزیر اعظم نہرو نے کشمیری قیادت کیساتھ 1952 میں طویل مذاکرات کیے اور ایک معاہدہ طے پا گیا جس کی اصل یہ تھی کہ مندرجہ بالا آئینی تحفظات مہیا کردے جائیں گے جیسے ہی کشمیری آئین ساز اسمبلی دستاویز الحاق کی توثیق کردیگی۔
اس تناظر میں 1954 میں بھارتی آئین کا نیا آرٹیکل 35-A ایک صدراتی حکم کے ذریعے شائع کردیا گیا۔ اس آرٹیکل کی رو سے ریاستی اسمبلی کو مندرجہ ذیل اختیارات حاصل ہوگئے، قطع نظر اس کے کہ بھارتی آئین میں اس کے متعلق کیا لکھا گیا ہے: (ا) ریاستی اسمبلی اس بات کا تعین کریگی کہ مقامی شہری (مستقل رہائشی) کون ہے؛ (ب) ایسے مستقل شہریوں پر خصوصی استحقاق تفویض کرناجس میں سرکاری نوکریوں میں ترجیح دینا؛ دیگر لوگوں کومشروط رہائش کی اجازت دینا؛ مستقل رہائشیوں کو دیگر سرکاری سہولیات کی ترجیحاً فراہمی، جائیداد کا استحقاق مستقل رہائشیوں تک محدود کرنا۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ صدراتی حکم نامہ بھارتی صدر نے ان اختیارات کے تحت جاری کیا ہے جو آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت ان کو حاصل ہیں اور جس میں ریاست جموں کشمیر کے حوالے سے بھارتی پارلیمنٹ کو سوائے دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے دیگر امور میں قانون سازی کا اختیار نہیں ہے۔ لہذا کچھ لوگوں کا یہ خیال کہ کیونکہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر طے ہوگیا تھا تو اس وجہ سے یہ غیر آئینی ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ میں کچھ فرضی NGOs کو کھڑا کرکے اس بات کی کوشش کی گئی کہ سپریم کورٹ کے ذریعے اس آرٹیکل کو آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم قرار دلوادیا جائے۔ لیکن تا حال یہ کوشش کامیاب نہیں ہوسکی کیونکہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کو التوا میں ڈالا ہوا ہے۔
کشمیر ی عوام نے اپنی جدوجہد آزادی یا کم از کم ان ضمانتوں کے حصول کیلئے جن کی بنیاد پر انکی مرضی کے خلافت ان کا بھارت سے الحاق کردیا گیا تھا ، جو قربانیاں دی ہیں وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ اگر بھارتی حکومت کو یہ زعم ہے کہ وہ اسرائیل کی طرز پر کشمیریوں کی زمین اسی طرح چھین لے گی جیسا فلسطینی زمینوں کے ساتھ کیا جارہا ہے تو یہ اس کی نادانی ہے۔ نہ کشمیر فلسطین ہے اور نہ بھارت اسرائیل۔ دونوں جگہ آبادیوں کی تعداد کا بہت بڑا تفاوت ہے۔ ایک مشابہت ضرور ہے کہ ہر دو قضیوں میں ایک جابر طاقت ایک مظلوم قوم پر جبراً قابض ہوگئی ہے۔
دونوں قضیوں کے حل کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی موجود ہیں لیکن بڑی طاقتوں کے سامنے اقوام متحدہ کوئی موثر ادارہ نہیں ہے۔ اس مسئلہ میں پاکستان ایک فریق ہے، لہذا اس علاقے کا ایسا کوئی تصفیہ جس سے اس کو بھارت میں ضم کردیا جائے یا اس کی خود مختاری کو ختم کردیا جائے، پاکستان کو قابل قبول نہیں ہوگا۔ اور پاکستان کو یہ استحقاق حاصل ہوگا کہ اس کے تدارک کیلئے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے۔
اقوام متحدہ کی قراردادیں اس ضمن میں بڑ ی واضح ہیں اوران کی موجودگی میں اقوام متحدہ نے ماضی میں بھی اس بات کو لائق اعتبار نہیں سمجھا ہے کہ بھارت وادی کے انتخابات کو استصواب رائے کا متبادل یا اس کی اسمبلی کی ایسی قراردادیں جو کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہتی ہیں انہیں قبول کرے۔
نامور جریدے انڈیا ٹوڈے نے ایک طویل پروگرام میں وادی میں بڑھتی بے چینی اور خوف کی فضا سے متعلق اپنی رپورٹ میں تفصیل سے آرٹیکل 35-A کو ختم کرنے کے مضمرات پر گفتگو کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وادی میں اس خبر سے خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں اس پر متفق ہیں کہ ایسی کسی بھی کوشش کی شدید مزاحمت کی جائیگی۔ تما م سیاسی رہنما آگاہی مہم میں حصہ لے رہے ہیں تاکہ عوام میں اس مسئلے سے متعلق شعور پیدا کیا جا سکے۔ سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے ایک بڑے جلسے عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس آرٹیکل کا چھونا بارود کے ڈھیر کو چھونے کے مترادف ہوگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جو ہاتھ اس آرٹیکل کیطرف بڑھے گا وہ اپنے جسم سے جدا ہوجائیگا۔ فاروق عبداللہ صاحب کاکہنا تھا کہ کشمیری عوام کبھی بھی اس بات کو قبول نہیں کرینگے، یہ دونوں آرٹیکلز ہمارے بھارت سے الحاق کی بنیاد ہیں اور ان کو ختم کرنے سے وہ بنیاد منہدم ہوجائیگی۔ عوام کے ایک حصے نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہماری شناخت پر حملہ کیا گیا تو ہم اس کی کھل کر مزاحمت کرینگے۔
ایک سکھ دانشور نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں‘ یہ آرٹیکلز کشمیریوں کیلئے تقدس کے حامل ہیں۔ ان کو ختم کرنے کا سوچنا آگ سے کھیلنا ہے۔ وادی کے معاملات بہت خراب ہوچکے ہیں۔ ایسا کرنے سے جلتی پر تیل ڈالنا ثابت ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...