تمام معاشی مسائل کا حل ٹیکس کلچر کا فروغ

Aug 04, 2019

ایف بی آر کے مطابق مالی سال 2018ء کے گوشوارے 9 اگست تک جمع کرائے جا سکتے ہیں۔ قبل ازیں یہ تاریخ 2 اگست تھی۔ گزشتہ روز ایف بی آر کا آئرس سسٹم لوڈ پڑنے کی وجہ سے بیٹھ گیا۔ گوشوارے جمع کرانے کے خواہش مند افراد ایف بی آر اور وکلاء کے دفاتر میں گھنٹوں انتظار کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ایف بی آر ذرائع کے مطابق سال 2018ء کے ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں میں ریکارڈ اضافہ ہواہے اور تاحال 22 لاکھ 81 ہزار سے زائد گوشوارے جمع ہو چکے ہیں۔
ملک اس وقت شدید معاشی بحران سے دوچار ہے، وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی بھاگ دوڑ اور حکومت کی معاشی ٹیم نے اپنی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشتی کو ڈوبنے سے بچا لیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی، چوروں اور لٹیروں کے مال و زر کے انبار ملنے کی نوید اور غیر ملکی بنکوں میں پڑے پاکستان کے دوسو ارب ڈالروں کے قومی خزانے میں آنے کی اُمیدیں دم توڑ گئی ہیں۔ اب ہمیں صرف ملک کو معاشی بحران سے ہی نہیں نکالنا بلکہ اسے ترقی کی راہ پر بھی گامزن کرنا ہے۔ اس کے لئے ہر شہری کو قربانی و ایثار کا مظاہرہ کرنا ہو گا تا کہ ریونیو کا 5500 ہزار ارب روپے ہدف پورا ہو سکے۔ اگرچہ معاشی ماہرین نے اس ہدف کو ناقابل حصول قرار دیا ہے۔ لیکن ہمت نہ ہاری جائے اور محض باتوں پر ہی اکتفانہ کیا جائے‘ عوام کی آگاہی کے لئے بھرپور مہم چلائی جائے اور اُنہیں یہ یقین دلا دیا جائے کہ اُن کے دیئے گئے ٹیکس کی پائی پائی، ملک کی ترقی و فلاح خرچ کی جائے گی۔ اسی طرح ایف بی آر بھی ہر شہری تک پہنچے اور اُسے بتائے کہ ٹیکس کی ضرورت کیوں ہے۔ ٹیکس کس پر اور کتنا لاگو ہوتا ہے اور اس کی ادائیگی کا آسان طریقہ کیا ہو گا، تو یہ اقدامات ایک ایسے معاشرے کو TAX ORIENTED بنا دیں گے جس میں لوگوں کو اتنا بھی شعور نہیں کہ یہ ٹیکس کس بلا کا نام ہے۔ ملک میں ٹیکس کلچر کو فروغ دے کر ملکی ضروریات کے مطابق ریونیو بڑھایا اور بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ لوگوں کی بنیادی ضروریات ریاستی ذمہ داری سمجھ کر پوری کی جائیں تو ہ بخوشی ٹیکس دینے پر آمادہ ہوں گے۔ کرپشن کا شور مچا کر دیکھ لیا۔ چوروں، لٹیروں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا، غیر ملکی بنکوں میں پاکستانیوں کے دوسو ارب ڈالر کا ورد کرنے سے کچھ حاصل ہونے کی بجائے ملک بدنام ہوا ہے اور قوم مایوس ہوئی ہے۔ اب کچھ تھوڑا سا زور ٹیکس کلچر کو فروغ دینے پر بھی لگا کر دیکھ لیا جائے۔ کوئی بعید نہیں ہدف 5500 ہزار ارب روپے سے بھی آگے نکل جائے۔

مزیدخبریں