حاصل بزنجو نے کیسے کہہ دیا کہ میں اخلاقی طور پر جیت گیا ہوں۔ تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ تحریک عدم اعتماد تحریک اعتماد بن گئی ہے۔ چیئرمین سینٹ بدستور صادق سنجرانی ہیں۔ یہ بات جو حاصل بزنجو نے کہی ہے یہ اُن کی ہار ہے۔ وہ بغیر الیکشن لڑے ہار گئے ہیں۔ انہوں نے اپنی اس انوکھی بات کا اعتراف کر لیا ہے۔ بلکہ اس پر فخر کیا ہے۔ بزنجو صاحب نے اپنے آپ کو چیئرمین سینٹ سمجھ لیا تھا۔ جبکہ چیئرمین سینٹ کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا۔ وہ صرف سینٹ کا اجلاس چلاتا ہے۔ جس میں اسے غیر جانبدار ہونا پڑتا ہے۔ اس کی پوزیشن پر ہوتا ہے کہ وہ اپوزیشن بھی ہوتا ہے اور حکومت بھی ہوتا ہے۔ بزنجو اخلاقی طور پر جیتے ہیں۔
سنجرانی پہلے بھی جیتے تھے اور اپوزیشن نے پورا زور لگا کر انہیں جتوایا تھا مگر اس کامیابی کی خوشی عمران خان کو ہوئی تھی۔ اب بھی اس کی کامیابی کی خوشی عمران خان کو ہوئی ہے۔ صادق سنجرانی اپوزیشن لیڈر کے پاس مبارکباد دینے نہیں گئے۔ یہ وزیراعظم کے پاس گئے ہیں۔ اب سینٹ بھی کچھ کچھ عمران خان کی ہو گئی ہے۔
آخر ضرورت کیا تھی اس ایڈونچر کی۔؟
اپوزیشن کے لئے کوئی کام نہیں ہے۔ وہ اس شعر کے مصداق کام کر رہی ہے۔ جیسے کوئی کام نہیں کر رہی۔
بیکار مباش کچھ کیا کر
کپڑے ادھیڑ کر سیا کر
اپنے کپڑے انہوں نے اھیڑ کے رکھ دیئے۔ انہیں کپڑے سینے کا موقع نہیں ملا۔ قومی اسمبلی میں بھی اپوزیشن بڑی بھاری بھر کم ہے حکومت سے چار پانچ ووٹ پیچھے ہے وہاں بھی اُن کے ساتھ کوئی ہاتھ ہوا۔ سینٹ میں بھی کوئی ہاتھ ہو گیا۔ 65 سینیٹرز نے کھڑے ہو کر اعلان کیا۔مگر خفیہ رائے شماری میں 14 کم ہوگئے۔
پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کے لئے کوئی شکایت آئی ہے کہ یہ صحت کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ پلاسٹک بیگز کا تو بہت رواج ہے۔ ہر کوئی استعمال کرتا ہے۔ پرچون وغیرہ کی دکانوں پر اور عام دکانوں پر بھی اس کا استعمال بے تحاشا ہے۔ اس سے پہلے بھی ایک بار ان کے خلاف شور مچا تھا اور کچھ دنوں میں خاموشی ہو گئی تھی۔ اب بھی ایسا ہو گا بلکہ ہوا ہے کہ اب پھر خاموشی ہے۔
مگر اس بات کو کاروباری لوگ بھی جانتے ہیں کہ کچھ گڑبڑ تو ہے۔ مگر اس کا یہ حل تو نہیں کہ اُسے فوری طور پر ختم کر دیا جائے۔ ان لوگوں کو بہت نقصان ہو گا جو اس معاملے میں ہیں۔ ملازم ہیں اور مزدور ہیں، گاہک بھی کیا کریں گے ان کو بھی پہلے کی طرح سامان وغیرہ گھر لے جانے کیلئے کچھ اور بندوبست کرنا ہوگا۔ کوئی تھیلے‘ کوئی کپڑا یا اور چیز ان کے پاس ہوگی تو وہ کچھ سامان گھر لے جائیں گے۔
اس میں بہت سہولت تھی اور آسانی بھی تھی۔ حیرت ہے کہ نئے زمانے میں سہولتیں تو بہت ہوتی ہیں مگر ان کے ساتھ جو نقصانات ہیں ان کا ہمیں انداز نہیں ہوتا۔ ان بیگز کیلئے 800 سے زیادہ فیکٹریاں ہیں اور چھوٹے موٹے کارخانے ہیں۔ ان میں بھی کئی لوگ کام کرتے ہیں۔ پلاسٹک بیگز بیچنے والے 60 ہزار سے زیادہ ہیں۔ صرف پنجاب میں لاکھوں لوگ بیروزگار ہو جائیں گے۔ میرے پاس کالم نگار دوست اسحاق جیلانی آئے تھے۔ بہت فکرمند اور پرجوش تھے۔ اس معاملے میں پریشان تھے مگر ناامید نہ تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ مثبت تجاویز پر غور کیا جائے تاکہ کوئی محفوظ راستہ نکالا جا سکے۔ شاپنگ بیگز کے سلسلے میں کوئی متبادل حل نکالا جا سکے۔
پلاسٹک کو موٹا کرکے مختلف چیزوں کیلئے لفافے بنا کر استعمال کیا جائے تو اس سے بہتری آنے کے امکانات ہیں۔ اس کی قیمت بڑھ جائے گی تو اس کے استعمال میں بھی کمی آئے گی۔ اس حوالے سے اور بھی کالم لکھے جا سکتے ہیں۔ یہ اب عام ضرورت کی چیز ہے۔ اس کیلئے خاص انتظامات کئے جا سکتے ہیں۔ اس ضمن میں اسحاق جیلانی کی تحریروں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بارشوں کے درمیان لانگ بوٹ پہن کر نکل کھڑے ہوئے۔البتہ راستہ ان کا شہبازشریف سے مختلف تھا۔ اس سے پہلے کیا فائدہ ہوا۔ صرف شہبازشریف کی تصویریں اخبارت میں لگ گئیں۔ اب عثمان صاحب کی تصویریں لگ گئیں۔ نشیبی علاقوں میں رہنے والوں کو کیا ملا۔
کام تو یہ ہے کہ پانی کہیں رکنے نہ دیا جائے۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ میں نے خود لندن میں دیکھا کہ وہاں تقریباً ہر وقت بارش ہوتی ہے مگر کہیں کسی سڑک کی رہ گزر پر ٹھہرا نہیں ہوتا۔ یہ کیا ہوا۔ کچھ سڑکیں بنانے اور بنوانے والوں سے پوچھیں۔ ہمارے کسی سیاستدان اور حکمران نے کبھی عوام کیلئے سوچا۔ کوئی منصوبہ ان کیلئے بنایا۔ کوئی کام ہوا۔ کوئی کارروائی جو یاد رکھی جا سکے۔ لوگ جس کی تعریف کریں۔ ہمارے عوام بھی حکام جیسے ہیں۔