اسلام آباد (نیشن رپورٹ) سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ کی جانب سے اس امر پر سخت تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ سینٹ الیکشن کے حوالے سے اپوزیشن سینیٹر کی جعلی لسٹیں گردش کر رہ ہیں جس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ ان سینٹرز نے اپنی پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کی ہے۔ کمیٹی نے مزید کہا ہے کہ دراصل ان جعلی لسٹوں کا مقصد ان اصل سینیٹرز سے توجہ ہٹانا ہے جنہوں نے پارٹی لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ووٹ دیئے تاکہ تمام الزام بے گناہ سینیٹرز پر آ جائے۔ مزید کہا گیا ہے کہ ایسی لسٹیں جان بوجھ کر پھیلائی جا رہی ہیں اور ان میں ٹمپرنگ کے ذریعے کئی ناموں کوبدل بھی دیا گیا ہے تاکہ ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہو سکے۔ یہ تبدیل شدہ لسٹیں سوشل میڈیا پر موجود ہیں اور اس صورت حال کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ کمیٹی کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ ایسی فہرستیں پھیلانے والے سائبر کرائم سمیت کئی ضابطوں کے تحت پکڑ میں آتے ہیں۔ یہ آئین کی خلاف ورزی بھی ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ کمیٹی کے ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین کمیٹی رحمان ملک نے کہا ہے کہ معاملہ کی فرانزک اور سائنسی بنیادوں پر تحقیقات ہونی چاہئے چنانچہ چیئرمین نے ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس بات کا پتہ چلائیں کہ کہاں سے یہ فہرستیں پھیلائی جا رہی ہیں جس کا مقصد سینیٹرز کو بدنام کرنا ہے۔ یہ تمام عمل پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016ء کے تحت بھی قابل سزا ہے۔ اس سلسلے میں کمیٹی نے سیکشن 13 الیکٹرانک جعلسازی کا حوالہ دیا ہے جس کے تحت ایسا مواد پھیلانے والوں کو 3 سال تک قید اور اڑھائی لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ اس طرح انفراسٹرکچر سسٹم کے حوالے سے گمراہ کن ڈیٹا فراہم کرنیوالے 7 سال قید اور 50 لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں جبکہ سیکشن 14 الیکٹرانک فراڈ کے تحت 2 سال تک قید اور ایک کروڑ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں کمیٹی کے مطابق چیئرمین کمیٹی رحمان ملک نے 10 روز میں تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے۔