سینماگھروں پلازوں میں تبدیل،بھارتی فلموں کی نمائش سے ملکی انڈسٹری بحران کا شکار ہوئی: مصطفی قریشی

لاہور (سیف اللہ سپرا) پاکستان فلم انڈسٹری کے سینئر اداکار مصطفیٰ قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ایک دور جب پاکستان وجود میں آیا اور جو پاکستانی فلمیں بن رہی تھیں یہ 1950ء اور 1960ء کا دور ہے وہ دور ہماری فلم انڈسٹری کے عروج کا تھا بالخصوص اس دور کی فلموں کی کہانیاں مقصدیت لیتے ہوئے ہوتی تھیں فنکاروں کی پرفارمنس ، اداکاری، میوزک ڈائریکٹر کی تخلیق کی ہوئی دھنیں وہ میوزک ڈائریکٹر جن میں خواجہ خورشید انور، رشید عطرے، تصدیق بابا چشتی، عبداللہ، نذیر علی، خلیل احمد کمال احمد اے حمید نثار بزمی غرضیکہ کئی پائے کے موسیقار جنہوں نے ملک کے بڑے گیت فنکاروں کی شاعروی کو اپنی اعلیٰ دھنوں میں مرتب کیا وہ شاعر جن کا ادب میں بڑا مقام تھا جسے فیض احمد فیض نے بھی فلموں کے گانے لکھے جوش ملیح آبادی سیف الدین سیف تنویر نقوی قتیل صفائی احمد راہی حبیب جالب منیر نیازی سمیت بڑے شاعروں نے نغمے لکھے آج بھی اگر ان کے گیت سنتے ہیں تو روح کو تازگی ملتی ہے اس کے بعد پھر 70 اسی اور 90 کی دہائی کا دور سے آتا ہے اس میں زیادہ تر ایکشن فلمیں بنی، 90 فیصد پنجابی فلمیں بنیں اور ان فلموں نے بڑا بزنس کیا اور ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کے روزگار کا ذریعہ بنیں اس کے بعد فلم انڈسٹری کا تیسرا دور جو 90 کے بعد دور ہے اس میں کچھ ایسے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر فلم انڈسٹری میں شامل ہو گئے کہ جنہوں نے بے مقصد لچر فحاشی اور عریانی سے بھرپور فلمیں بنائیں جس سے فیملیوں نے سینماز سے رخ موڑ لیا اور فلمیں فلاپ ہونے لگیں اس کے علاوہ فلم انڈسٹری کے بحران کی ایک بڑی وجہ بھارتی فلموں کی نمائش ہے اور سینما مالکان نے بھی بھارتی فلموں کو ریلیز کرنے میں ترجیح دی جس پر پاکستانی فلم پروڈیوسر نے فلمیں بنانا روک دیں دوسری بات کہ سینما مالکان نے اپنے سینما توڑ کر پلازے بنانے شروع کر دیئے ہاں بعض سینما گھر تھیٹر بن گئے جس سے پاکستان کی فلم انڈسٹری کو بہت بڑا دھچکا لگا جب پاکستانی فلمیں ایک سال میں دو ڈیڑھ سو سے دو تک بنتی تھیں تو کروڑوں روپے ریونیو کی صورت میں حکومت کے خزانے میں جاتا تھا جب فلمیں بننا بند ہو گئیں تو یہ ریونیو بھی بند ہو گیا حکومتوں نے فلم انڈسٹری کو فروغ دینے کی طرف توجہ نہیں دی لاہور جو کہ پاکستان فلم انڈسٹری کا مرکز تھا جہاں بارہ تیرہ فلم سٹوڈیوز تھے اور لاہور کے مرکز لکشمی چوک میں سینکڑوں فلم پرویوسرز کے دفاتر تھے جہاں کروڑوں روپے کا کاروبار ہوتا تھا وہ سب بند ہو گئے ۔ لاہور شہر جسے دھکیلنے کیلئے نہ صرف پاکستان کے دوسرے صوبوں بلکہ دنیا سے لوگ سیر کیلئے آتے لاہور جہاں جو تاریخی بادشاہی مسجد شاہی انار کلی بازار اور کئی تاریخی جگہیں دیکھنے آئے تھے وہاں فلم سٹوڈیو زمین بھی فن کاروں سے ملنے کے لئے آتے تھے آج وہ سب کچھ ختم ہو گیا البتہ اب کراچی میں فلمیں بننا شروع ہوئی ہیں لیکن نہ ان کی تعداد اتنی ہے نہ وہ معیار کے جانب سے پرانی فلموں کا مقابلہ کرتی ہیں میوزک بالکل ناپید ہے ہاں البتہ کراچی میں چند فلمیں اچھی بنی ہیں اورآج کل چونکہ جدید ٹیکنالوجی کی سپورٹ ہے۔ مثلاً ساؤنڈ سسٹم اور فوٹو گرافی اعلیٰ درجے کی ہے اور بے شک جدید ٹیکنالوجی سے ہیں منی ……… بنے ہیں لیکن وہ صرف چند بڑے شہر بنے ہیں جن کا ماحول بلاشبہ معیاری اور بین الاقوامی نے لیکن اس میں غریب کا تو سوال بھی پیدا نہیں ہوتا متوسط طبقہ بھی اس کا ٹکٹ خریدنے کی ……… نہیں رکھتا آخر پر میں یہ کہوں گا کہ موجودہ حکومت کو چاہئے جہاں وہ دوسرے شعبوں میں اصلاحات کر دی ہے وہاں فلم انڈسٹری کی طرف بھی توجہ دیتے میں ایک اور بات کرنا چاہتا ہوں ایک آرٹسٹ فنڈ قائم تھا جو کہ آج کل روک دیا گیا ہے یہ فنڈز صدر مملکت کی زیر سرپرستی تھا تو میں صدر محترم سے التماس کروں گا کہ اس فنڈ کو جاری رکھا جائے۔

ای پیپر دی نیشن