بہت سارے ذہنوں میں اس وبائی مرض کے بارے میں سوالات اٹھتے رہے ہیں اور ابھی بھی اٹھ رہے ہیں کہ کیا کرونا واقعی ہی ہے بھی یا ایسے ہی بڑی طاقتوں کی پھیلائی ہوئی افواہیں ہیں۔ دوسرا سوال یہ عام ذہن میں آتا ہے کہ کیا یہ قدرتی ہے یا (Manmade) ہے؟ یہ سوالات ہر کسی کی زبان اور ذہنوں میں موجود رہتے ہیں۔ میرے خیال کے مطابق پہلے سوال کا جواب تو ہمیں مل ہی چکا ہے کہ کرونا ایک حقیقی بیماری ہے۔ جب سے ہمارے قریبی رشتے دار اور دوست بھی اس کا شکار ہونا شروع ہوئے۔ ہم سب لوگ مان بھی نہیں رہے تھے اور ہر بندہ دوسرے سے پوچھتا تھا کہ بتاؤ کوئی آپ کی جان پہچان والا بندہ اس بیماری کا شکار ہوا ہے یا نہیں؟ لیکن جیسے جیسے اس وباء نے ہمارے اپنے دروازوں پر دستک دینا شروع کی تو ہمیں یقین آ گیا کہ یہ وباء تو اصل میں موجود ہے اور ہم اس سے بچاؤ کے طریقوں کو ڈھونڈنے میں لگ گئے۔ پھر ہم نے گھریلو ٹوٹکوں سے لے کر دواؤں (دواؤں اور دعاؤں) پر عمل کرنا شروع کر دیا۔اب آتے ہیں دوسرے سوال کی طرف کہ Manmade یا قدرتی تو میں اس سوال کو اس طرح لیتا ہوں کہ اگر تو یہ قدرتی ہے تو پھر اس کا سیدھا سا جواب مل گیا ہے لیکن اگر یہ Manmade ہے تو یہ کس نے کیا اور کیوں کیا؟ میرا ماننا یہ ہے کہ اگر یہ Manmade بھی ہے اور اگر کسی ملک اور حکومت کو اس کا فائدہ بھی پہنچا ہے تو یہ بہت ہی چھوٹے پیمانے پر تھا۔ اصل مقصد اس کا قدرت نے ہی حاصل کرنا تھا اور کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود زمین پر آ کر کوئی کام تو نہیں کرتے بلکہ وہ کسی کی ذمہ داری ہی لگاتے ہیں۔ اب یہ ذمہ داری جس کو بھی دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا خاص مقصد ہی حاصل کرنا چاہتے تھے۔
بحیثیت مسلمان میرا ماننا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت کا ایک وقت مقرر کیا ہے، میرے خیال کے مطابق یہ زمین جوکہ ایک گولہ نما چیز ہے، اس کو اپنی اصل حالت میں رکھنے اور انسان اورباقی تمام مخلوقات کے کچھ قواعد و قوانین ہونے چاہئیں جن پرعمل کرنا بہت ضروری ہے ورنہ اس کا نظام بگڑ جائے گاا ورقیامت سے پہلے ہی قیامت برپا ہو جائے گی۔ اس بنی نوع انسان نے اس سیارے (زمین) کا نظام اتنا بگاڑا کہ اللہ تعالیٰ نے سوچا اور ایسا نہ نظر آنے والا وائرس پیدا کیا کہ دنیا کا نظام کچھ بہتر ہو جائے۔ ہم نے تو پہاڑوں کو توڑ دیا، سمندر کو آلودہ کردیا، جنگلات کاٹ دیئے اور آبادی اتنی زیادہ کردی کہ اس سیارے پر اسکی برداشت سے زیادہ بوجھ ڈال دیا۔ فیملی سسٹم کو تباہ کر دیا۔ نفسانفسی کا عالم شروع ہوگیا اور ہر کوئی اپنی سمت میں اپنے فائدے کیلئے دوڑنا شروع ہوگیا۔ گندگی (ذاتی اور اجتماعی) اس حد تک ڈال دی کہ رہے نام اللہ کا۔ اب جیسے کمپیوٹر سے وائرس دور کرنے کیلئے کوئی اینٹی وائرس ڈالا جاتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس سسٹم کو صاف کرنے کیلئے اس کرونا وائرس کو ایک اینٹی وائرس کے طور پر بھیجا جس نے کافی حد تک فضائوں، سمندروں، پہاڑوں اور ندی نالوں کو صاف کر دیا۔ ستارے نظر آنا شروع ہوگئے۔ نیلا آسمان نظر آنا شروع ہوگیا اور کچھ تازہ ہوا انسان کیلئے موجود ہوگئی۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ، پرندوں کی اڑانیں پھر سے نظر آنا شروع ہوگئیں کیونکہ یہ سب کچھ تھرڈ ورلڈ وار بھی ہو جائے تو اس طرح دنیا Stand Stillنہ ہوتی۔ نہ تو فیکٹریاں اور MILLSبند ہوتیں ، نہ ہی بحری جہاز رکتے اور نہ ہی ہوائی جہازوں کی پرواز کو کوئی روک سکتا۔
اور نہ ہی ریل گاڑیوں کو کوئی روک سکتا۔ جس کی وجہ سے نہ تو دنیا سے آلودگی کم ہوتی اور نہ ہی بڑی قوتوں کی غلط کاریوں کو کوئی روک سکتا۔ لیکن یہ کام ایک نہ نظر آنے والے وائرس نے جہاں کچھ حد تک اس سیارے کے گند کو صاف کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو ایک Super Power ہونے کا احساس بھی ہمیں دلا دیا ۔ وہ اس طرح کہ دنیا اتنی ترقی یافتہ ہونے کے باوجود ایک ویکسین نہیں نکال سکی۔ اگر اللہ تعالیٰ پہاڑوں کو سرکا دیتا ، یا زمین کو ہلا دیتا ، یا ہوائوں اور بارشوں کو تیز چلنے کا حکم دے دیتا تو ہمارا کیا بنتا۔ اس اپنے سیارے کو Reset کرنا اور اپنی Super power ہونے کا مقصد (یقین دہانی) تو پورا ہوا لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو بہت مثبت پہلو اس وباء کے (جو کہ الحمد اللہ پاکستان میں تو ختم ہوتی جا رہی ہے) نکلے (دورانِ وبائ) وہ یہ ہیں کہ:
(1) فیملی سسٹم کا Reactivate ہونا جس میں کم از کم مجھے تو یہ پتا چلا ہے کہ میری بیگم Full time جاب کرتی ہے حالانکہ جس کو میں ہمیشہ House wife ہی سمجھتا رہا۔ بچے بڑی اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں، ہمارے گھر کے Lawn میں پھول بھی بہت اچھے ہیں جو کہ شام کی چائے پیتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اپنے رشتہ داروں ، بہن بھائیوں کو ، ماں باپ کو دیکھ بھی سکتے ہیں اور سن بھی سکتے ہیں۔
(2) شادی بیاہ کے بہت بڑے بڑے Functions بہت بڑی مقدار میں رزق ضائع کیے بغیر بھی ہو سکتے ہیں۔
(3 ) بچوں کی چھٹیاں بغیر یورپ / امریکہ جائے بھی خوشی سے گزاری جا سکتی ہیں۔
(4 ) روزانہ Fast Food اور ہوٹلنگ کیے بغیر گھر کا صاف ستھرا کھانا کھا کر بھی زندہ رہا جاسکتا ہے۔
(5)بڑی بڑی MEETOGSکیلئے گھنٹوں براستہ ہوائی جہاز یا کاروں پر سفر کئے بغیر بھی SKYPEیا ZOOKSپر گزارا کیا جاسکتا ہے۔
(6)Shopping Mallsرات کو بارہ، ایک بجے تک کھلے رکھ کر بجلی ضائع کئے بغیر اور لوگوں کی رات کی نیند خراب کئے بغیر بھی شاپنگ صبح 7بجے سے شام 7بجے تک کی جاسکتی ہے۔
(7)بغیر کسی مقصد کے گھنٹوں گپیں لگانا اور Get Togetherکرنے کے بغیر بھی گزارا ہوسکتا ہے۔
اور آخر میں ایک چھوٹا سا واقعہ جوکہ میرے بیٹے نے سنایا‘ وہ یہ وہ گھر آکر مجھے کہنے لگا کہ ابو آج میرے ایک دوست نے حیران ہوتے ہوئے کہا کہ یار میں کچھ دنوں سے اپنے گھر والوں کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے محسوس کر رہا ہوں کہ ’’یہ بھی اچھے ہی لوگ ہیں۔‘‘
٭…٭…٭