غلام بنگلہ دیشی‘ قوم اپنے ’’حقیقی دشمن‘‘ کو پہچان رہی ہے، رفتہ ہی سہی لیکن تبدیلی آرہی ہے۔ موذی مودی کا منہ بھی حیرت سے کھلا ہے کہ ہماری مرضی سے پْل اور سڑک تعمیر نہ کرنے والوں میں ’جرات انکار‘کہاں سے پیدا ہوگئی؟پاکستان میں بنگلہ دیش ماڈل کی پریشان خیالی کرنے والوں کو چاہئے کہ پہلے ’’اس ماڈل‘‘ اور اس کے ’’اثرات‘‘ کا جائزہ لیں کیونکہ خرابی نظام میں نہیں، اسے بنانے، چلانے اور سنورانے والوں میں ہوتی ہے۔ بھارتی غلامی میں جینے والے بنگلہ دیش کے ماڈل کو پوجنے، پچکارنے اور چمکار نے کے بجائے دانائی کی راہ اپنائیں۔ اس گندگی سے نجات پائیں جس سے ہمارے دامن آلودہ ہورہے ہیں، ہماری راہ کی دلدل بنے مسائل سلجھائیں، نظام رواں دواں خودبخود ہوجائے گا۔
دسمبر1971 میں مشرقی پاکستان ’بنگلہ دیش‘ بنا تو مکار بھارت نے اسے اپنی فتح کے طورپر پیش کیا۔ جن کی سرزمین تھی، وہ بنگلہ دیشی ’’فوج‘‘ یعنی ’’مکتی باہنی‘‘ منظرسے غائب ہوگئی۔ فاتح ہوکر بھی انہیں فتح مند ہونے کا اعلان کرنے کی اجازت نہ تھی۔ یہ تھی وہ ’’آزادی‘‘ جو ’’شکست فاتحانہ‘‘ تھی۔ نوماہ کی لڑائی، خون کے دریابہانے کے باوجود یہ تھا، ان کا تمام حاصل وصول۔ اپنی ہی سرزمین پر مفتوح،جو حقیقت کم ہی انہیں معلوم ہے، وہ جولائی 1971 کا سات نکاتی ایجنڈا ہے جو جلاوطن سربراہ تاج الدین نے قبول کیا تھا۔ بنگلہ دیش بھارت کی کٹھ پتلی بن گیا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن اور بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کا مارچ 1972 کا معاہدہ اس پر مہر تصدیق تھی۔ دوستی کے اس معاہدے کے پیچھے ’دفاع اور سلامتی‘ مشترکہ معاملہ بن گیا۔ طے پایا کہ کسی ایک ملک پر حملے کا جواب دونوں مل کر دیں گے۔ یہ بھی لکھاگیا کہ دونوں میں سے کوئی اپنی سرزمین دوسرے کے خلاف استعمال کرنے دے گا نہ ہی کسی مخالف اتحاد کا حصہ بنے گا۔
ان سات نکات میں اول یہ تھا کہ ’بنگلہ دیش کی پیرا ملٹری فورس ہوگی جس کی تنظیم، مسلح کرنا اور اس کی نگرانی بھارت کرے گا۔‘ دوسرا نکتہ تھا کہ ’بنگلہ دیش تمام فوجی سازوسامان بھارت سے خریدے گا۔‘ تیسرا نکتہ تھا کہ ’بنگلہ دیش کی غیرملکی تجارت پر بھارت کا کنٹرول ہوگا۔‘ چوتھا نکتہ تھا کہ ’بنگلہ دیش کے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری بھارت دے گا۔‘ پانچواں نکتہ تھا کہ ’خارجہ تعلقات میں رہنمائی بھارت سے لی جائے گی۔‘ چھٹا نکتہ تھا کہ ’بھارت ان معاہدات کے کسی بھی حصے کوبھارت کی پیشگی منظوری کے بغیر ختم نہیں کرسکتا۔‘ ساتویں نمبر پر لکھا ہے کہ ’کسی بھی مزاحمت یا عوامی تحریک کے ابھرنے پر کسی بھی وقت بھارتی فوج بنگلہ دیش میں داخل ہوسکے گی۔‘‘
بنگلہ دیش فوج کے لیفٹیننٹ کرنل ضیاء الدین ’’معاہدہ دوستی‘‘ میں گوندھے غلامی کے زہریلے پیغام کو بھانپ گئے اوراسے چیلنج کیا۔ امریکہ میں آباد سابق فریڈم فائٹر ’آر۔چوہدری‘ نے اسی بنگلہ دیشی اخبار میں اپنے مضمون میں جواب دیا کہ ’’1971 کی روح بیدار کریں۔‘‘
شیخ مجیب الرحمن کی 15 اگست1971 کو روانگی تک بھارت بنگلہ دیش ’ہنی مون‘ جاری رہا۔ بھارت کو کسی طورپر برداشت نہیں تھا کہ برسوں کی زہریلی کھیتی کا ثمر ’’بنگلہ دیش‘‘ ہاتھ سے نکل جائے۔ اس بار شیخ مجیب کی بیٹی شیخ حسینہ واجد کی ذہن سازی سے یہ مقصد حاصل کرنے کا جتن ہوا۔ ایسی چالیں چلی گئیں تاکہ بھارت کا اثرونفوذ یہاں پوری شدت سے قائم رہے۔ سچ مچ ’’آزادملک‘‘ بننے کی بھاری قیمت صدر ضیاء الرحمن کو23 مئی 1981 میں اپنی جان کی صورت ادا کرنا پڑی۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل حسین محمد ارشاد ضیاء الرحمن کی قوت بنے لیکن بعد میں ان کی وابستگی نئے صدر جسٹس عبدالستار کے ساتھ ہوگئی۔
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی۔این۔پی) کے دور میں بھارت کواپنی گرفت ڈھیلی ہوتی محسوس ہوئی۔ 2006 کے اختتام تک بھارت نے اپنے ایجنڈے پر عمل کے لئے جنرل معین یو احمد کو آلہ کار بنالیا جس نے 11 جنوری 2007 کو قبضہ کرلیا۔ یہ عملًا بھارت کی براہ راست حکمرانی کا دور قراردیاگیا۔ دسمبر2008 میں کھلم کھلا دھاندلی سے حیسنہ واجد کو اقتدار دے دیا گیا جو نئی دہلی کے براہ راست قابو میں تھیں۔ تجزیہ کاروں نے کہاکہ بھارت نے ایک گولی چلائے بغیر بنگلہ دیش کو اپنا غلام بنالیا۔ بدنام زمانہ ‘را‘ کے دو مقاصد تھے۔ حسینہ واجد بھارتی ایجنڈے پر چلے اور دوسرا یہ تھا کہ بنگلہ دیش کو بتدریج بھارت کے رنگ میں رنگ دیاجائے۔ 90 فیصد مسلمان آبادی کو ہندوتہذیب وثقافت کا گہوارہ بنادیا جائے۔
اس ایجنڈے پر عمل درآمد کے لئے اس امر کو یقینی بنایا گیا کہ حسینہ واجد کے اقتدار کے لئے کسی بھی جانب سے کوئی خطرہ پیدا نہ ہو۔ خواہ وہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی صورت ہو، اقتدار پر قابض حواریوں کی کرپشن ہو، تاریخ کو مسخ کرنا ہو یا سقوط بنگال کا عوامی بیانیہ ہو، ہر مخالفت کا بھارت نے راستہ مسدود کردیا۔ اسی ایجنڈے میں یہ بھی شامل تھا کہ بھارت پر تنقید نہ ہو۔ اثر یہ نکلا یہ جیلیں مخالفین سے بھر گئیں، ان پر درجنوں جھوٹے مقدمات قائم کئے گئے۔ ’بی۔این۔پی‘ کی سربراہ اور تین مرتبہ وزیراعظم جھوٹے مقدمے میں سترہ سال سے قید تنہائی کی سزا کاٹنے پر مجبور ہے۔ یہ خالدہ ضیاء ہیں جو بنگلہ دیش کے قتل ہونے والے سابق صدر ضیاء الرحمن کی اہلیہ ہیں۔ (جاری)