جاہل آدمی میں علم،شعور اور تہذیب کی کمی ہوتی ہے،اسی لئے اْسے جہالت کا منبع کہا جاتا ہے،بحث برائے بحث بھی جہالت کی ایک اعلی قسم ہوتی ہے،جس میں شعور،علم،لحاظ،احترام اور رواداری کا شدید فقدان ہوتا ہے،انسان فرشتہ نہیں ہوتا کہ اس سے بھول چوک میں کوئی غلطی نہ ہو،دْنیا میں رہتے ہوئے ہم بہت سارے لوگوں کے منفی رویوں، تہذیبوں، بیہودہ گوئی، غیبتوں، سازشوں اور حسد و رقابت کو جانتے ہوئے بھی نظر انداز کردیتے ہیں،بلکہ اپنی خاندانی تہذیب،اپنی ماں کی دی ہوئی تربیت،اپنی عمدہ تعلیم اور اپنی اعلی ظرفی کی بنیاد پر بہت بار درگزر اور قوت برداشت سے کام لیتے ہیں،ہم اکثر موقعوں پر یہ جانتے ہوئے بھی کہ فلاں شخص ہمارا دشمن ہے،بدخواہ ہے،بد زبان ہے اور بدلحاظ بھی ہے،پھر بھی ارسطو کے بقول کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے،ہم اْسی شخص سے اخلاق اورتہذیب سے ملتے ہیں،کیونکہ ہر وہ شخص جو خاندانی،مہذ ب اور اعلی تربیت کا حامل تعلیم یافتہ ہوتا ہے،وہ کبھی بدتمیزی،بدتہذیبی بد زبانی کا مظاہر ہ نہیں کریا،لیکن جن لوگوں کی تعلیم سفارش رشوت اقرباپروری اور جعلی طر یقوں سے حاصل کی گئی ہے،جن کی تربیت میں نقص ہواور جن کے علم میں کھوٹ ہووہ تہذیبی سطح سے گر جاتے ہیں،اگر ہم اعلی ڈگریاں حاصل کرتے ہیں تو ڈگریاں ماتھے پر نہیں سجائی جاتیں،جیب میں لے کرنہیں پھرتے،اور نہ ہی ہاتھ میں اْٹھا کر لے جاتے،آپ کی تعلیم وتربیت آپ کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے،آپ کے کردار وعمل،روئیے اور گفتگوآپ کی اعلی تعلیم کی غماض ہوتی ہے،اگر پڑھے لکھے اور اعلی تعلیم یافتہ افراد کی زبان گندی پلید ہے،اْ ن کے روئیے منفی ہیں،اْن کی سوچ میں زہر ناکی ہے،اْن کے اعمال میں اشتعال انگیزی اور نفرت و حقارت ہے،تو یہ اس بات کی علامت ہے،کہ گدھوں کی پیٹھ پر کتابیں رکھ دی گئی ہیں،علم انسان میں نرمی تہذیب آداب اخلاق شعور درگزر اور بڑا پن پیدا کرتا ہے،اسی لئے آج کل جو ہزاروں لاکھوں ڈگری یافتہ نکل کر عملی میدان میں آرہے ہیں،اْن میں سے 55فیصد وہیں کھڑے ہیں جہاں سے اْنھوں نے یونیورسٹی شروع کی تھی،کیونکہ علم اگر آپ میں تبدیلی نہیں لاتا،آپ میں عجز و انکسار، درگزر، اخلاقیات اور تہذیب و شائستگی پیدا نہیں کرتا تو ایسے علم کا کیا فائدہ۔۔ایسی ڈگری محض کاغذ کا ٹکڑا ہے،جسے پھاڑ کر پھینک دینا چاہیے، کہا جاتا ہے کہ حکمران اور سیاستدان بہت کرپٹ ہوتے ہیں،ہم صحافی سیاستدان پر جس قد ر تنقید کرتے ہیں،عوام جس قدر بر ابھلا کہتے ہیں، اپوزیشن اپنے حکمرانوں کو اور حکمران اپنی اپوزیشن جماعتوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیںبلکہ سخت الزامات دھرتے ہیں، پھر بھی ان پر آفریں ہے کہ نہایت خندہ پیشانی سے تنقید،ا عتراضات اور الزامات کو برداشت کو نہیں کرتی،گالی گلوچ نہیں کرتی،اسی طرح شوبز کے لوگوں پر صحافیوں اور عوام کی طرف سے سخت سوالات اْٹھائے جاتے ہیں،ان کی نجی زندگی پر سٹوریاں شائع ہوتی ہیں،سیاستدانو ں کی پرسنل ویڈیوز چلائی جاتی ہیں،مگر کیا وہ صحافیوں اور اینکروں کی جان لے لیتے ہیں،میڈیا پر بھی سخت تنقید ہوتی ہے،بلکہ ہم صحافی اینکر زایک دوسرے پر معترض ہوتے ہیں،ایک دوسرے کی خامیاں کمزوریاں برائیاں کھل کر بیان کرتے ہیں،لیکن ایک دوسرے کی جان کے دشمن نہیں ہوجاتے،بلکہ اپنے عیب و نقائص کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں،میں نے سب سے مہذب اور اعلی ظرف دانشوروں، ادیبوں، شاعروں،صحافیوں اور بزرگان دین کو پایا ہے،کیونکہ یہ اعلی تعلیم یافتہ طبقہ ہے، جانتا ہے کہ ہمارے پیارے نبی پاکؐ پر طائف میں لوگوں نے پتھر پھینکے،اور ہمارے عظیم پیغمبر ؐ نے انھیں ہاتھ اْٹھا کر دعائیں دیں،آج اْسی نبیؐ کی اْمت ذرا ذرا سی بات پر کلاشنکوف،ریوالوار اور گن نکال لیتی ہے، ذرا سی گاڑی لگ جائے تو ماں بہن بیٹی کی گالیوں سے شروع ہوکر نوبت ہاتھا پائی پر آجاتی ہے،کیا آپ انھیں پڑھا لکھا کہہ سکتے ہیں،یہ تو نرا جانور پن ہے،چند ماہ قبل لاہور میں ایک اندھا فقیر ایک ورکشاپ پر آکر بھیک مانگنے لگا، ورکشاپ کے دو ملازمین نے پکڑ کر اْسکے منہ میں ہوا بھرنے والی پائپ لگا دی،فقیر کی آنتیں پھٹ گئیں، آنکھوں، کانوں، ناک سے خو ن بہنے لگا اور وہ دس منٹ سے بھی کم وقت میں تڑپ تڑپ کر مر گیا،اس وحشیانہ درندگی کی وجہ اْنکی جہالت اور تربیت میں نقص کے ساتھ فطرت میں بھرا ہوا بغض، شیطانیت،سفاکیت اور درندگی تھی،لیکن بسا اوقات پڑھے لکھے لوگوں کی بدزبان بد اخلاقی،بد لحاظی بھی اسی سطح کی ہوجاتی ہے۔ اخبار اْٹھا کر دیکھ لیں،روزانہ درجن بھر مردوں نے اپنی عورتوں بچوں کے خون میں ہاتھ رنگے ہوتے ہیں،اسی طرح دوتین درجن دشمنی کی واردتیں اور نصف درجن خودکشیاں ہوتی ہیں،دیکھا جائے تو پاکستان میں قتل، اغوا، دشمنی، خودکشی، حادثات، کرنٹ لگنے،چھتیں گرنے اور ایسے واقعات کی زد میں آکر مرنے والوں کی تعداد دوسو سے تین سو ہے،یہ بے وقت کی اموات ہیں۔