کرونا کنٹرول اور دُہری شہریت

حکومت کی طرف سے عید الفطر پر بھی عید الضحیٰ کی طرح احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کو کہا گیا تھا مگر اس پر پوری طرح عمل نہ ہوا تو کرونا بے قابو ہوا نظر آیا۔ اس سے قبل کرونا کا پھیلاؤروکنے کے لئے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے جو کوششیں کی گئیں اور اقدامات اٹھائے گئے وہ اکارت ہوگئے۔ وزیراعظم کرونا کی جولائی اگست میں پیک کے خدشات کا اظہار کر رہے تھے وہ جون میں اس وجہ سے نظر آئی کہ عید الفطر پر عوام الناس کی اکثریت نے یوں سمجھ لیا کہ کرونا کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ ایک طرف بیروزگاری اور قوت خرید کی کمی کا واویلا کیاجا رہا تھا تو دوسری طرف بازاروں میںعام حالات کی طرح تل دھرنے کو جگہ نہیں مل رہی تھی۔ اس سے عید کے بعد چند ہفتوں میں کروناکی صورت حال بگڑگئی۔ جون کے وسط یعنی عید الفطر کے ایک ماہ بعد ایک روز میں 170افراد جان کی بازی ہار گئے اور ایک ہی روز میں سات ہزار کیسز سامنے آئے تو حکومت کا سٹپٹانا فطری امر تھا۔عید الفطر پر جو کچھ ہو چکا تھا یعنی لوگوں کی جانب سے ایس او پیز کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔ اس کا کوئی تدارک اور مداوہ تو ممکن نہیں تھا تاہم عید الضحیٰ کے موقع پر ایک سبق ضرور تھا حکومت نے کرفیو تو نہیں لگایا مگر عید سے تین روز قبل جس طرح مارچ کے آخری ہفتے لاک ڈاؤن کیا تھا اسی طرح کا عید پر کر دیا اور پھر اس پر سختی سے عمل کرایا گیا مبادا عید الفطر کی طرح لوگ پھر گھروں سے امڈتے نکل کر بازاروں میں اژدہام مچا کر کوئی کرونا تقسیم کرتا اور کوئی متاثر ہوتا نظر آئے۔ اس پر تاجر تلملائے اور بپھر کر احتجاج بھی کرنے لگے۔اپوزیشن کو حکومت کے خلاف احتجاج کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہاکہ تاجر ایسے احتجاج میں ہر اول دستہ ہونگے۔ اپوزیشن حکومت کی مخالفت میں ایک ہی حد تک جا سکتی ہے۔ احتجاج کی صورت میں سوشل فاصلوں کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہو سکتا۔ایسے میں اپوزیشن کے لیڈر اور کارکن حکومت کی جتنی بھی مخالفت کریں اپنی جانیں ان کو بہرحال عزیز ہیں ۔ عید پر کچھ کاروباری لوگ پورے سال کے برابر کمائی بھی کر لیتے ہیں جس سے ہاتھ دھونا کچھ کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ انہیں بہرحال دوسرے لوگوں اور اپنے خاندانوں کا ہی احساس کرلینا چاہیے تھا۔ اب بہر حال جو ہونا تھا ہو چکا عید، اللہ کا شکر ہے خیروعافیت سے گزر گئی۔ کاروباری لوگوںکو جو نقصان ہوا سے صدقہ سمجھ کر برداشت کر لیں اس سے کرونا کی تباہ کاریوں کے سامنے تو بندبندھ گیا۔عید الفطر پر تعاون کیا ہوتا تو حکومت عید الضحیٰ پر عدم تعاون نہ کرتی۔حکومت کی سخت پالیسی کے مثبت نتائج سامنے آئے اور عید کے دوسرے دن لاک ڈاؤن ختم کردیا۔
کرونا کا پھیلاؤ محدود کرنے میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے ہیلتھ ڈاکٹر ظفر مرزا کا اہم کردار ہے مگر بد قسمتی یاآپ جو بھی کہہ لیں وہ دُہری شہریت رکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوںدُہری شہریت اور وزیر اعظم کے معاونین اور مشیروں کے اثاثے سامنے آئے تو اس پر میڈیا میں ایک غوغا برپا ہو گیا۔ دُہری شہریت پر زوردار آوازیںاٹھنے لگیں تو پہلے وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے ڈیجیٹل پاکستان تانیہ ایدروس نے استعفیٰ دیا اس کے بعد اسی روز ظفر مرزا بھی مستعفی ہوگئے دونوں نے کہاکہ ان پر بے جا تنقید ہو رہی تھی جو ان کے استعفوں کا باعث بنی۔ وطن کی حیثیت ماں سے کم نہیں جو اپنی اولاد سے پہلی اور آخری محبت اور اٹوٹ وفاداری کی متقاضی ہے۔
مستعفی ہونے والے ہر دو معاونین نے دُہری شہریت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا وہ ایسا فیصلے کرنے کے مجاز اور اس کے لیے خود مختار ہیں مگر میڈیا میں ایک اور بھی کہانی ان کی کرپشن کے بارے میں دُہرائی جا رہی ہے۔ ظفر مرزا کی اُن کی صحت کے شعبے میں کردار اور معاملات میں شفافیت پر سوال سپریم کورٹ کی طرف سے بھی اٹھائے گئے تھے۔ ماسک کی خریداری اور ایکسپورٹ بھی قضئے کی صورت میں سامنے آیا۔یہ بحث بھی جاری ہے کہ انہوں نے استعفیٰ دیا ہے یا ان سے استعفیٰ لیا گیا ہے۔وزیر اعظم کے سیاسی امور کے ترجمان شہباز گل نے یہ کہہ کر کہ یہ نہ کہا جائے کہ ان کو نکالاگیا بلکہ یہ کہنا بہتر ہے کہ ان کو الگ کر دیا گیا۔ اگر الگ کیا گیا ہے تو کیوں؟ یہی سوال ابھی تک جواب طلب ہے ۔ وزیر اعظم نے اگر کسی بے ضابطگی پر معاونین کو ’’الگ‘‘ کیا ہے تو اس کی مکمل تحقیق ہونی چاہیے اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ تحقیق کے نتائج قوم کے سامنے رکھے جائیں کیونکہ وزیر اعظم تو خود ہی ایسی تحقیقاتی رپورٹس جاری کر دیتے ہیں۔ ان معاونین نے اگر واقعی تنقید کے باعث مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تو اسے سراہا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی دوسرے دُہری شہریت کے حامل معاونین کو یا تو دُہری شہریت تیاگ دینی چاہیے۔ اگر اس شوق سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے تو ظفر مرزا اور تانیہ کی طرح اپنی ذمہ داریوں سے مستعفی ہو کر ایک ٹکٹ میں دو مزے لینے سے احتراز کریں۔

محمد یاسین وٹو....گردش افلاک

ای پیپر دی نیشن