لاہور (فاخر ملک) وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کا اگلا ٹارگٹ ملکی دولت میں اضافہ کو قرار دیا ہے۔ یہ امر ناممکن نہیں اگر اس کے راستہ کی رکاوٹوں کو ختم کر دیا جائے۔ اس ضمن میں ورلڈ بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ آنے والے سالوں میں اسکے عوام کی قوت خریداری دو کھرب ڈالر تک پہنچ جائے جو کہ 2017 میں ایک کھرب ڈالر تھی۔ تاہم 2019 میں ڈالر کے مقابلہ میںروپے کی قدر میں30 فیصد کمی سے انکی قوت خریداری متاثر ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق لینڈ اونرز اور صنعتکاروں جن کی تعداد ماضی کی اسمبلیوں میں کم تھی اب بڑھ گئی ہے جس کے نتیجہ میں ٹیکس وصولیوں کے لئے کی گئی اصلاحات ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ لیکن اگر اس ملک کو آگے بڑھنا ہے تو ایک طرف معیشت پر چھائے ہوئے موثر اور اجارہ دار گروپوں کو پیچھے ہٹانا ہوگا جن میں سول سرونٹس، لینڈ مافیا اور بعض کاروباری گروپ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیکس وصولیوں کی شرح میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اس شرح کو بتدریج 13 فیصد،18 فیصد اور 20 فیصد کی شرح پر لانا ہوگا جو اس وقت 9 سے 10 فیصد ہے۔ ورلڈ بنک کی اس رپورٹ میں علاقائی تجارت میں اضافہ کو بھی ملکی دولت بڑھانے کا ایک اہم فیکٹر قرار دیا گیا ہے جس کے مطابق آنے والی دو دہائیوں کے دوران اسے ماضی کے مقابلہ میں 60فیصد تک بڑھانا ہوگا جو اس وقت نہایت نچلی سطح پر ہے۔ علاوہ ازیںآبادی میں کمی کو بھی دولت بڑھانے کے فیکٹر میں شامل کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زرعی اور نجی شعبہ دونوں میں اصلاحاتی عمل کی ضرورت ہے کیونکہ ان میں گروتھ کے ان گنت مواقع ہیں۔ اس ضمن میں لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر طاہر منظور چودہری کا کہنا ہے کہ عوام کی خوشحالی ملکی دولت میں اضافہ سے جڑی ہوئی ہے لیکن اس کے لئے پالیسیوں کو مزید ریفائین کرنے اور صنعتکاروں کے اعتماد کی بحالی کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ پاکستان میں دولت کی افزائش کے بارے میں پاکستان کسان بورڈ کے ترجمان رمضان روہاڑی کا کہنا ہے کہ زرعی شعبہ پر توجہ دی جائے۔ صرف کپاس کی ایک فصل کی پیداوار میں اضافہ سے ملکی معیشت میں تین سے پانچ سالوں میں 10سے 30ارب ڈالر کا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے پا کستان کی زرعی پیداوار میں کمی کا ایک سبب بھارتی دشمنی کو قرار دیا اور کہاکہ پاکستان کی ندیوں میں پانی خرابی سے بھی کم سطح پر گر گیا ہے اس کا سبب صرف بارشوں میں کمی نہیں ہے، بلکہ بھارت دریاؤں کے بہاؤ کو محدود کر رہا ہے جو کہ بھارت سے نکلتے ہیں اور اس کے بعد پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ خاص طور پر دریائے سندھ، دریائے چناب اور دریائے جہلم جو کہ ہندوستانی مقبو ضہ کشمیر سے نکلتے ہیں۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ پاکستان کی زراعت کو مسائل کا شکار کرنے کے لیے بھارت دریائوں کے پانی کو کنٹرول کر رہا ہے جو یقینی طور پر ملکی پیداوار میں کمی کے ساتھ پاکستانی برآمدات پر اثراندازہو رہا ہے تاہم انہوں اس امر کو خوش آئند قرار دیا کہ اب ملک میں پانی کے ڈیمز بنانے کی طرف توجہ کی گئی ہے جس سے مستقبل میں توانائی اور زرعی شعبہ دونوں کو فائدہ ہو گا۔