مٹھو کہتا ہے کہ ن لیگ کے دو بیانیے ہونیت یا ان میں تضاد کا مسئلہ ہو یا بحر سیاست کا طلاطم، کشمیر کا الیکشن، اس میں ہونیو الی دھاندلی مبینہ دھاندلی، وزیر اعظم کے عہدہ پر بیرسٹر سلطان محمود اور سردار تنویر الیاس کی رسہ کشی ہو یا پھر کوئی اور بڑی سیاسی اور تکنیکی مسئلہ، دنیا میں ان کی وجہ سے ہماری صحت پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں، ؛لیجئے صاحب، اب ایک مسئلہ درمیان میں اور آن پڑا، آپ پوچھیں گے کہ یہ مٹھو کون ہے؟ ارے بھائی گھوٹکی کا ہے، مگر وہ والے عبدالحق میاں مٹھو نہیں جن پر ہندو لڑکیوں کو زبردستی ا سلام قبول کرانے کا الزام ہے، اور اس الزام کے معاملہ میں صوبائی حکومت یا کوئی اور ان کا کچھ بگاڑنے ناکام ہے۔ یہ تو بیچارہ پڑھا لکھ نوجوان ہے، تبدیلی کی آس میں پرانا سندھ چھوڑ کو نئے پاکستان آیا اور اب واپسی کا کرایہ تک نہیں۔ دانشور وہ بھی سکہ بند قسم کا تو پہلے ہی ہے،،، یہاں اسلام آباد آکر ا س کا دماغ اور بھی بہت سمجھدار اور وسیع ہوگیا ہے، قلابوں سے قلابے ملاتا ہے، تجزیئے کرتا ہے، ہمیں راہ راست پر لانے کی کوششیں کرتا ہے مگر ہم بھی ڈھیٹ ٹھہرے،ہاں اس کی عقلمندانہ گفتگو کو کبھی کبھار سوچنے کا زریعہ سمجھ کر اس سے فائدہ ضرور اٹھانے کی کوشش کرتے ہیںہاں تو صاحبو بات ہورہی تھی مٹھو کی… وہ کہتا ہے کہ عجیب ملک اور معاشرہ ہیں ہم، سترسال ضائع کردیئے مگر پاکستانی قوم کی تربیت ہی ناں کر سکے، ناں اپنی ترجیحات کا تعین کرسکے،،، سیاسی حکومتیں جوابتدا میں رہیں وہ تو بیچاری ڈرائینگ روم کی سیاست کے عادی افراد پر مشتمل تھیں۔ ساتھ اس وقت کے بعض بیورو کریٹس کی سازشیں، جن کے سرخیل غلام محمد رہے اسکندر مرزا آئے، اور پھر ’’لوگ ملتے ہی گئے کاررواں بنتا گیا‘‘کے مصداق صورتحال نے اس حوالے سے بنیاد ہی ٹیڑھی کر دی۔ وہ تو اللہ بھلا کرے قیام پاکستان کے سے پہلے حالات، علی گڑھ کی طلبہ تحریک، قائد اعظم کی قیادت، اور لیفٹ رائٹ کی سیاسی جماعتوں کی جنہوں نے معاشرہ م یں مکالمہ کی بنیاد ڈال دی تھی، یوں کچھ وقت معاشرہ معتدل اور ڈائلاگ پسند رہا، قادیانیت سے لے کر بڑے سے بڑا مسئلہ مکالمہ کے زریعہ سلجھایا،، لیکن بیورو کریسی کا غلبہ تو اس سے بہت پہلے لیاقت علی خان کے قتل کے بعد ہی ہوچکا تھا اور پھر خیر سے پاکستان کے پہلے اسمارٹ، ذہین، فطین اور عقلمند حکمران اسکیندر مرزا اور پھر معتدل مزاج، عشرہ ترقی کے بانی اور پہلے آمر ایوب خان نے رہی سہی کثر ہی پوری کردی۔ بڑے بڑے سیاست دان ایبڈو ہوئے، ملک الطاف گوہروں کے ہاتھ چڑھا اور پھر ناں پوچھ،،، بنگلہ دیش کی علیحدگی کی وجوہ پر ہم نے کمیشن تو بنایا مگر کسی کو عبرت کی مثال ناں بنا سکے۔ جھوٹ، اور دروغ کوئی ریاست اکابرین کی اس حد تک عادت بنی کہ 16 دسمبر سے ایک روز پہلے بھی ہمارے حکمران ہمیں حقائق سنانے کے بجائے مکار دشمن کی شکست اور اپنی فتح کی نوید سنا رہے تھے،،، لیکن اگر نہیں ہوسکا تو وہ پاکستان کی تریحات کا تعین، اپنی غلطیوں کا اعراف، اور مستقبل کی راہیں متعین کر کے اقوام عالم میں پاکستان کو ایسے ملک بنانے میں کامیابی ناں ہوسکی جسے ایک معتدل، ترقی پسند، اسلام کا حقیقی چہرہ اور نئے رجحانات اور خیالات کو جلا بخشنے ولی سرزمین کے طور پر پیش کیا جاسکے،،، بھٹو حکومت کے تو تعمیر نو اور دیگر معاملات میں الجھی رہی مگر پاکستان گلوبل لیڈرکے طور پراس وقت سامنے ضرور رہا اسلامی کانفرنس ہوئی، تھرڈ ورلڈ بلاک تشکیل پایا۔ گو کہ داخلی سیاست میں اس وقت بھی بہت کچھ منفی ہوا، مگر پاکستانی پاسپورٹ اس وقت عالمی سطح پر اہمیت رکھتا تھا،،، عوام کی سیاسی آزادیاں، مزدور حقوق، ملازمتوں کا تحفظ، معارتی تحفظ، سب موجود تھاپھر آئے جنرل ضیا، اور ا سکے نتیجہ میں آج کے حالات، اب عالم یہ ہے کہ ہم اپنے ہیروز جن کی دنیا عزت کرتی ہے انہیں وطن فروش سمجھتے ہیں، یوں ہیرو کا کردار ہم نے محدود کر دیا،،، معاشرہ تکڑیوں میںبٹ گیا۔ میں جٹ تو گجر، میں پنجابی، تو سندھی، میں پختون تو بلوچ، میں کشمیری تو سرائکی کی بحث کے دوران میں بریلوی، تو دیو بندی، وہابی او ناں جانے کون کون سے فرقوں کی تقسیم شروع ہوئی۔ اپنا نکہ نظر بندوق کے زور پر منوانے کی ریت مضبوط ہوئی، بہت سے ٹیکس چوری، اسگلنگ اور منافع خوری اور دیگر برایئوں کے رسیا حاجی صاحب اور شیخ صاحب بن کر ناں صرف معزز ہوئے بلکہ مجلس شوریٰ اور پھر قومی سیاست کا حصہ بن کر صالحین میں شمار بھی ہوئے لیکن ناں ہوا تو معاشرہ کی تربیت اور ترتیب کا کام ، سخت گیر اور نرم موقف والوں کو مذہبی شدت پسندو اور لبرلز یں تبدیل کیا گیا،، وہ سیاسی مکالمہ جسے لیفٹ اور رائٹ کے نام پر رواج دیا جاتا رہا اچانک انتہا پسند اور خونریز نظریات میں تبدیل ہوا۔ غداری اور مذہب دشمنی کی اسناد بانٹنے کا سلسلہ دراز تر ہوکر معاشرہ کی رگ و پے میں سرائیت کر گیا۔ بس پھر کیا تھا ’’وہ ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے‘‘ معمولی سی بات پر گلے کاٹنے اور جان سے مار دینے کا رواج قائم ہوگیا،،، معاشرہ کو متوازن اور معتدل رکھنے والی تحریکیں دم توڑ گئیں، انسانی حقوق، عرتوں کے حقوق، معاشرتی حقوقم شہری آزادیاں، اور مزدور حقوق عنقا ہوئے۔ مزدور حقوق، خواتین کے حقوق، انسانی حقوق اور سیاسی آزادیاں دشنام اور الزام کا باعث بنے، اور آج ہماری معاشرتی اخلاقیات کا یہ عالم ہے کہ قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کا تصور ضعف کا شکار ہوکر نیم بیہوش ہے، معاشرہ میں عورتوں کی عزت لٹنے کے واقعات میں ہوشربا تیزی آئی ہے، لاہور سیالکوٹ موٹروے جیسے واقعات اب معمول بن رہے ہیں، سر تن سے جدا کئے جارہے ہییں، پیر فقیرر اور عالم کی شکل بنائے درندے معصوم بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کر رہے ہیں، لڑکوں کے ساتھ بھی درجنوں واقعات رونما ہو رہے ہیں اور معاشعرہ اس پر تقسیم کا اتنا شکار ہوچکا کہ لوگ مدارس میں مولوی دکھتے حضرات کی وحشت اور بربریت کا شکار بچوں کو ہی الٹا قصور وار سمجھتے اور اپنے من پسند داڑھی والوں کو بچانے کی تاویلات گھڑ رہے ہیں، نور مقدموں کے قتل اور ان کے سر تن سے جدا کرنے کے حق میں دلائل تراش رہے ہیں، تعلیم، صحت، سائینس اور ٹیکنالوجی، اور کھیلوں میں ہماری کوئی دلچسپی نہیں، اولمپک میں کارکردگی سب پر عیاں ہے، سوشل میڈیا پر جنسی جرائم پر مزے لے لے کر بیان کرتے اور الٹی سیدھی بحث کرتے ہیں، بڑے عہدہ جلیلہ پر متمکن شخصیات بھی غیرمہذب بیانات دیے جاتے ہیں، مگر کوئی سنجیدہ سوچ نہیں پنپ رہی ایسے میں صحت مند معاشرہ کہاں سے پیدا ہوگا
تو پھر مٹھو درست ہی کہتا ہے ناں، آج اقوام عالم میں ہم کہاں کھڑے ہیں، معاشرہ سفرمعکوس پر گامزن ہے، حکومت اور قیادت تربیت کرنے میں ناکام ہے، صرف سزاوں کے خوف سے جرائم رکنے والے نہیں، ادارے اپنی اپنی بالادستی کے سینڈروم کو شکار ہیں، انصاف تاخیر سے بلکہ اکثر تو ملتا ہی نہیں، سماجی انصاف ناپید ہے، مکالمہ ختم ہے، رویئے انتسہا پساندانہ ہورہے ہیں،،، رکئے، غور کیجئے، اور سمت درست کرنے کے لئے اقدامات کیجئے، سفارتی تنہائی سے نکلنے کے لئے سنجیدگی سے مل بیٹھیے، ملک کے وسیع تر مفاد میں گروہی اختلافات سائیڈ پر رکھیے، ورنہ ’’کہیں دیر ناں ہوجائے‘‘