سرخیِ خونِ شہیداں

سُرخیِ خونِ شہیداں سیدزاہدبخاری کے ساتھ مرثیوں سے مزین انتہائی دلسوزکتاب ہے مرثیہ ایک قدیم صنف سخن ہے جو اب شہدائے کربلا کے ساتھ مخصوص ہوچکاہے،اسے شعراء نے کئی ہیتوںمیںلکھاہواہے لیکن پسندیدہ ترین ہیت مسدس قرار پائی ہے کیونکہ اس میں کسی بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیاجاسکتاہے۔ اردو مرثیہ گوئی میں انیس ودبیر کو جو شہرت حاصل ہوئی وہ کسی اور حصے میں نہیں آئی۔سیدزاہدبخاری نے میرانیس کے مرثیوں سے متاثرہوکر سب سے پہلا مرثیہ سجدہ شبیری لکھا جو 1996ء میں کتابی شکل میں شائع ہوا۔جناب احمدندیم قاسمی نے اس کافلیپ لکھتے ہوئے اظہار خیال کیا تھا کہ ’’انیس اور دبیر کی عظمت اپنی جگہ مگر بعد کے مرثیہ نگاروںنے اس فن کو جدید موضوعات اور جدید لہجے سے آراستہ کیا۔ زاہد بخاری نے اس ضمن میں خاصا اہم کام کیا ہے اور ایسا مرثیہ لکھاہے جسے ہیت کے اعتبار سے نہ سہی، موضوع کی نئی جہات کے لحاظ سے نیا مرثیہ قرار دینا چاہیے۔ ابھی ان کا آغاز ہے مگر ان کے فن کے تیور بتارہے ہیں کہ آئندہ وہ اس صنف شاعری میں اپنا نام پیدا کرینگے۔ دوسرے اہم مرثیہ نگاروں کی طرح زاہد بخاری کے ہاں بھی مرثیہ عقیدے کے ساتھ ساتھ تخلیقی فن پارہ بنتا نظرآرہا ہے‘‘۔
بعدازاں جب سیدزاہدبخاری نے محسوس کیا کہ اب طویل مرثیے کا دور نہیں بلکہ مختصر مرثیے لکھے جارہے ہیں توپھر وقفہ وقفہ سے چھ مزید مرثیے قلم بند کئے۔ اس کتاب میں کل سات مرثیے شامل ہیں۔ ان کے بارے میں پاکستان کے مختلف شعراء ادباء نے اپنی جن خوب صورت آراء کا اظہارکیاہے ان میں سے چند سطور ملاحظہ فرمایئے۔
پروفیسرمقصودجعفری لکھتے ہیں کہ ’’شاعر آل عمران محسن نقوی اس عہد میں آسمان پر جگمگاتے دکھائی دے رہے ہیں مگر زاہد بخاری کا کلام پڑھ کر احساس ہوتاہے کہ آسمان پر ایک نہیں کئی ستارے ہوں تو محفل سجی دکھائی دیتی ہے۔ بلامبالغہ زاہد بخاری کے کلام میں دبیر کی فکر اور انیس کا زور بیان پایاجاتاہے۔ مسدس گوئی اور مرثیہ نگاری کار سہل نہیں، یہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ رزمیہ میں صوتی اعتبار سے آواز کے آہنگ اور گھن گرج کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ تصویر کشی کے بغیر رزمیہ ناکام اور نامکمل ہے۔ زاہد بخاری نے صوتی آہنگ اور تصویر کشی کا حق ادا کردیاہے‘‘۔
نیساں اکبرآبادی لکھتے ہیں کہ ’’سجدہ شبیری قلم اردو ادب میں ایک اضافہ ہے۔ بعض شعر بہت فصیح، رواں اور برجستہ ہیں۔ پڑھنے والے کے سامنے ایک منظرآجاتاہے۔ الفاظ نگینوں کی طرح جڑے ہیں۔ سلاست ہے، روانی ہے اور بعض ٹیپ اتنی اونچی ہے کہ یہ گمان ہوتاہے کہ میر انیس بول رہے ہیں‘‘۔
سروراانبالوی لکھتے ہیں کہ زاہدبخاری نے اپنے جذبات، حالات و واقعات کربلاکو نہایت خوبصورتی سے رواں دواں اور دل نشیں انداز میں بیان کیا ہے۔ وہ کہیں بھی عجزِبیان کا شکارنہیں ہوئے اورپیرایہ اظہار ایسا اختیارکیاہے کہ بات دل میں خود بخود گھر کرتی چلی جاتی ہے۔ نظم کی زبان بڑی سہل، سبک اور سلیس ہے۔ انداز بیان بڑا عمدہ ہے، اس خوبصورت نظم کو پڑھ کر آورد کا کہیں بھی تاثرنہیں ملتا بلکہ سراسر آمد ہی آمدمعلوم ہوتی ہے اورپھر ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ اہل بیت سے ان کی محبت وعقیدت نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا ہے۔حکیم خلیق حسین ممتاز لکھتے ہیں کہ ’’مرثیہ کہنا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں۔ میرانیس اور میرزاد بیر کے بعد بھی مرثیہ گوئی کے میدان میں کچھ شعراء نے طبع آزمائی کی اور جوش ملیح آبادی نے اس میں جدت پیدا کی۔ نسیم امروہوی، نجم آفندی، سیدآل رضا، ڈاکٹر ہلال نقوی، شاہد نقوی، سید وحیدالحسن ہاشمی اور قصیر بارہوی نے مختصرمرثیے لکھ کر نام پیدا کیا۔ سید زاہد بخاری نے بھی فن مرثیہ گوئی میں باکمال شاعری کی ہے اور اساتذہ سخن سے خوب داد وصول کی ہے‘‘۔
پروفیسرضمیر احمدنقوی لکھتے ہیں کہ’’ کتابیں مصنف یا شاعر کی سفیر ہواکرتی ہیں، ان کتابوںمیں لفظیں تو موجود ہوتی ہیں مگر لہجہ اور انداز نہیں ہوتا۔ شعر جیسا بھی ہو مگر شاعر اپنی پڑھت سے شعر کے حسن میں کئی گنا اضافہ کردیتاہے جن حضرات نے زاہد بخاری کی شاعری پڑھی اور خود ان سے سنی بھی وہ میری اس بات کی تائید فرمائیں گے۔ کتاب میں چھپی شاعری اپنا حسن رکھتی ہے اور زاہد بخاری کی پڑھت سونے پرسہاگہ کا کام دیتی ہے‘‘۔سیدعاشورکاظمی لکھتے ہیں کہ ’’سید زاہد بخاری کواقلیمِ سخن کی حقیقی جاگیر مبارک۔ میں اپنی عمر کے اور اپنے سے بزرگ اہل قلم سے یہ التماس کرونگا کہ نئی نسل کو آگے بڑھنے کا راستہ دیں اور ان نئے چراغوں کو اٹھاکر اپنے سامنے رکھ لیں تاکہ زمانہ ان کی روشنی سے مانوس ہوجائے اور ساتھ ہی نئی نسل سے گزارش کروںگا کہ زندگی کی جدوجہد میںکوئی مقام خیرات میں نہیں ملتا بلک اس کیلئے محنت کرنا پڑتی ہے۔ ہم لوگوں نے نصف صدی بسا اوقات صدی کا تین چوتھائی حصہ محنت میں گزارا ہے۔آپ بھی محنت جاری رکھیے۔ محنت اور خلوص فکرکبھی رائیگاں نہیں جاتے۔

ای پیپر دی نیشن