لیڈرز: اِن چراغوں تلے اندھیرا ہے

Aug 04, 2022

سقراط یونان کا عظیم فلسفی اور دانشور تھا وہ انتہائی ایماندار اور غیر جانبدار فلسفی تھا۔ لیڈروں کے بارے میں اُسکے نظریات تاریخ کا حصہ ہیں۔ وہ کہتا تھا کہ ایک لیڈر کیلئے سب سے اہم صفت یہ ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم و تربیت یافتہ ہو اور اعلیٰ حسب نسب سے ہو مگر اس کیلئے دولتمند ہونا ضروری نہیں ہے وہ جائیداد بنانے والے لیڈروں کو بھیانک مجرم سمجھتا تھا اور ایسے لیڈروں کیلئے اُس نے بھیانک سزا تجویز کی یعنی ثبوت موجود ہو تو دلائل کے بغیر گردن زدنی اور بس۔ وہ مزید کہتا ہے نیک عمل کا مخزن عقل ہے اور عقل اچھی تعلیم و تربیت کے بغیر نامکمل ہے۔ ایک لیڈر حق و ناحق انصاف اور بے انصافی کو مکمل طور پر سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ وہ آزاد اور طاقتور ہونے کے باوجود اپنے ضمیر کا قیدی ہو۔ سقراط خود غریب طبقے سے تھا اور عوام الناس میں سے تھا لیکن وہ عوام الناس سے چُنے گئے لیڈروں کیخلاف تھا کیونکہ اُسکے مطابق یہ طبقہ اعلیٰ تعلیم و تربیت سے محروم ہوتا ہے اور اخلاق اور اصول کو سمجھنا اُنکے بس میں نہیں ہوتا۔ اُس کا نظریہ تھا کہ بول کی آزادی اس طبقے کو بھی دی جانی چاہیے مگر اُسے بعد میں ایک واقعے کے بعد اپنے اِس نظریے کو رد کرنا پڑا۔ ہوا یہ کہ ایک بار ایتھنز کی پارلیمنٹ نے اُسے پارلیمنٹ کی کارروائی دیکھنے کی دعوت دی وہ پارلیمنٹ کے ایک کونے میں بیٹھا چپ چاپ یہ کارروائی دیکھ رہا تھا جب ممبران بولنے کیلئے کھڑے ہوئے تو تقریباً ہر ممبر نے ایک دوسرے کیلئے اتنی رکیک اور فحش زبان استعمال کی کہ وہ جاری کارروائی کو چھوڑ کر ایوان سے باہر نکل آیا اور دو ایسے الفاظ بولے جو تاریخ کا حصہ ہیں اُس نے کہا ''Liberty not Liecence''یعنی آزادی نہ کہ کھلی چھٹی۔ قارئین کو علم ہو گا کہ اس عظیم فلسفی کو اس کے نظریات کی وجہ سے زہر کا پیالہ پلایا گیا تھا میں سوچ رہی ہوں کہ سقراط اگر کبھی ہمارے پارلیمنٹ ہائوسز میں آ جاتا تو وہ خود ہی اپنی جیب سے زہر خرید کر پی لیتا اور ہمارے پارلیمنٹ ہائوس کی د ہلیز پر ہی ڈھیر ہو جاتا۔ 
دنیا میں بشمول پاکستان (سرفہرست) ایسے ایسے لیڈر گزرے ہیں اور موجود بھی ہیں جواپنے حسب نسب کی پس ماندگی، تعلیم و تربیت کی کمی کی وجہ سے ایسی ایسی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوئے جنہوں نے لاکھوں انسانوں کو تہہ تیغ کر ڈالا۔ امریکہ کے تمام لیڈر جو سب اِسکے حاکم بنے وہ ایک قومی احساسِ کمتری کا شکار تھے۔ امریکہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ قوم اپنے تاریخی حسب نسب کی وجہ سے جس احساس کمتری کا شکار ہے اسے احساس برتری میں تبدیل کرنے کیلئے یہاں کا لیڈر پورے کرہ ارض کا لیڈر بننا چاہتا ہے، چنا نچہ امریکہ ہتھیار بنانے اور انہیں استعمال کرنے کی وجہ سے پوری دنیا میں بدنام ہو گیا ہے۔ امریکہ کی تاریخی حیثیت نے سب کچھ کھول دیا ہے۔ ہٹلر فوج میں ایک ڈاکیہ تھا ایک دن اُسکی اپنے ایک ساتھی سے ہاتھا پائی ہو گئی اور ہٹلر نے اُسے پچھاڑ دیا اُس موقع پر اُس نے ہاتھ جھاڑتے ہوئے زیرِلب ایک فقرہ کہا ’’سب کچھ طاقت ہے‘‘ طاقت سے سب کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اُس نے یہی بات جرمنوں کو سمجھائی کہ آپ دنیا کی اعلیٰ ترین قوم ہیں اپنی طاقت کا استعمال کریں اور ساری دنیا کو فتح کر لیں اس فقرے سے ساری قوم کو اپنے ساتھ ملایا اور اُنہیں اس طاقت کے استعمال پر اُبھارا اور جنگوں میں جھونک دیا۔ لاکھوں انسان ان جنگوں میں تہہ تیغ ہو گئے اور خود اپنی چالاکی سے جرمنی کا چانسلر بن گیا لیکن بہت جلد جرمن قوم اس کی چالاکی اور نقلی پن سے واقف ہو گئی اور اُس سے برملا اتنی نفرت کرنے لگی کہ ہٹلر کو زیرزمین چھپ کر خودکشی کرنی پڑی۔ ایران کے رضا شاہ پہلوی کے لیڈر بننے کے شوق نے اُسے زہر میں ڈبو دیا اسلامی تعلیمات اور احکامات کو پائوں تلے روندتے ہوئے سب سے پہلے اسلامی کیلنڈر کو منسوخ کر کے پہلوی کیلنڈر متعارف کروایا ۔اسلامی ذہن کے لوگوں کو چُن چُن کر قتل کروایا ۔پھر چشم فلک نے دیکھا کہ جب مشیت ایزدی جوش میں آئی اور جگر کے کینسر نے اُسکے جسم کو مسمار کرنا شروع کر دیااور ایرانی قوم اُس کی عیاشیوں اور فضول خرچیوں سے سڑکوں پر نکل آئی اور وہ خوف و ہراس میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہوا تو کسی بھی ملک نے اُسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ مصر نے بمشکل اجازت دی اور وہ وہیں بے بسی سے مر گیا مگر اسی ملک ایران میں جب ایک اصلی اور سچا لیڈر امام خمینی 15 سال کی جلاوطنی کے بعد جب ایران واپس آیا تو لوگوںنے محبت و جوش میں اُسے گاڑی سمیت اپنے سروں پر اُٹھا لیا اور مہر آباد کے جس ائیرپورٹ سے اُسے تضحیک سے شاہ کی فوج نے نکالا اُسی مہر آباد ائیرپورٹ پر اُسکے جہاز کو اُسی فوج کے جہازوں نے اُسے احتراماً سلامی دی۔ پھر ایک اور سچا اور اصلی لیڈر آیا سائوتھ افریقہ کا مردِ خُر نیلسن منڈیلا 27 سالہ جیل کاٹ کر جب باہر آیا تو ایک اخبار نویس نے کہا آپ نے Roban Island جیسے جیل خانے میں 27 سال قید میں گزارے آپ کو کیسا لگا؟ اُس نے تاریخی جواب دیا ’’27 سالہ‘‘ قید تو میری آزادی کی قید تھی کیونکہ وہ سارے سال میں نے اپنی قوم کی آزادی کیلئے گزارے۔ ایک دن صدر کی حیثیت میں وہ صرف ایک سیکرٹری کے ساتھ ہوٹل میں کھانا کھانے گیا تو اُس کے داخل ہوتے ہی سامنے کے میز پر بیٹھے ایک گاہک کے ہاتھ اس طرح کانپنے لگے کہ اُس کا چُھری کانٹا زور زور سے پلیٹ میں بجنے لگا سیکرٹری نے فوراً کہا یہ آدمی آپ کے رعب میں کانپ رہا ہے نیلسن منڈیلا نے
 مسکرا کر کہا نہیں دراصل یہ وہ جیلر ہے جب میں اپنی قید کے دوران اس سے پانی پینے کو مانگتا تھا تو یہ میرے سَر پر پیشاب کر کے چلا جاتا تھا۔ منڈیلا نے اُس آدمی کو اپنے پاس بلایا گلے سے لگایا اور اپنی میز پر بٹھا کر کھانا کھلایا۔ اب آخر میں اُس لیڈر کا ذکر کرونگی جس کو صدیوں تک تاریخ اپنے سینے میں محفوظ رکھتی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح جس پر بہت کچھ میں نے لکھا ہے مگر اب صرف یہی کہونگی وہ تو ایسا سچا اور اصلی لیڈر تھا جس نے رہبر بننے کے شوق میں نہیں اپنی قوم کی صحیح رہبری کرنے کیلئے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا ایک دفعہ اُن کے انگریز سیکیورٹی آفیسر کرنل بَرنے نے اُنہیں کہا میں آپ کی سیکیورٹی کی خاطر گورنر جنرل ہائوس کی دیواریں اُونچی کروانا چاہتا ہوں تو بابائے قوم نے غصے سے کہا میں اپنی قوم کا پیسہ اپنے اوپر خرچ کرنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہوں پھر وقت نے دیکھا وہ سارا پیسہ اُسکے بعد میں آنے والوں نے شیر مادر سمجھ کر پی لیا۔ 

مزیدخبریں