قومی افق
ندیم بسرا
قومی سیاست میں اتار چڑھائو نے سبھی سیاسی پنڈتوں کی خواہشات اور تجزیوں کے برعکس نتائج دئیے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ سیاسی تجزیہ نگار کہتے کچھ اور رہے ہیں اور ہوتا کچھ اور ہی رہا ہے۔ جیسے وفاق میں عدم اعتماد سے لیکرپنجاب میںپی ٹی آئی کی حکومت کے جانے کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت آنے اور پھر پی ٹی آئی کے اتحادیوںکے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں بھی دیر نہیں لگی ۔یوں ایک سیاسی جماعت آرہی ہے اور دوسری جارہی ہے۔جس سے یہی لگ رہا ہے کہ حکومتوں کے آنے جانے میں ان کی قسمت کا اہم کردار ہے ،فرحت عباس شاہ جو ایک زبردست شاعر ہیں ان کے شعروں کے دو مصرعے ذہن میں آگئے کہ
’’اسی سے جان گیا میں کہ بخت ڈھلنے لگے
میں تھک کے چھائوں میں بیٹھا تو پیڑ چلنے لگے
میں دے رہا تھا سہارے تو اک ہجوم میں تھا
جو گر پڑا تو سبھی راستہ بدلنے لگے ‘‘
پنجاب جسے سیاست کا مرکز نگاہ سمجھا جا تا ہے اور ہمیشہ سے قومی سیاست میں اس کاا ہم کردار رہا ہے ۔پنجاب نے بڑے لیڈرز پیدا کئے اور ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں بھی بنائیں ہیں ۔چودھری پرویز الہی جو پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں ، بیس برس کے بعد وہ دوسری بار وزارت اعلیٰ کے منصب پر بیٹھے ہیں ۔ چودھری پرویز الٰہی چونکہ سوائے سیاسی طنز کے کبھی کسی اور وجہ سے زیرعتاب نہیں رہے،اس لئے لگ یہی رہا ہے کہ ان کا کوئی بڑا سیاسی دشمن نہیں ہے ۔ان کے خلاف کوئی کرپشن کے الزامات بھی نہیں ہیں،ایک کیس جو ایف آئی اے نے مونس الٰہی پر بنایا ہے وہ بھی کوئی مضبوط کیس نہیں لگتا یہ کیس وقت کے ساتھ اپنی اہمیت کھودے گا،اس وجہ سے وہ سیاسی جنگ شروع نہیں کریں گے ۔ان کے لئے بظاہر میدان صاف ہے،اگر کوئی مشکلات یا اہداف ہیں تو وہ ان کے اتحادیوں کے لئے ہیںاور میرا نہیں خیال کہ وہ ان کے اہداف میں رکاوٹ بنیں گے۔بطور چیف ایگزیکٹووہ پنجاب میں تقرروتبادلوں پر بھی کام کررہے ہیں اور اس کے لئے وہ مشاورت کے ساتھ کام کررہے ہیں اب رہ گیا کہ پنجاب کی کابینہ کب بنے گی ؟۔ تو اس کا بڑا آسان سا جواب ہے کہ عمران خان دو سے تین ماہ کے اندر الیکشن چاہتے ہیں تو اس کے لئے کابینہ کا حجم مختصر ہی رہے گا ،راجہ بشارت ،محمودالرشید،ڈاکٹر مراد راس،میاں اسلم اقبال،ہاشم جواں بخت ،ڈاکٹر یاسمین راشد وزارتیں لینے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔یہ سیاسی لوگ باآسانی دو سے تین ماہ سرکاری گاڑیوں کا استعمال کرسکتے ہیں اور وزارتوں کے مزے لے سکتے ہیں،ان سے قبل تو مسلم لیگ ن کی کابینہ میں بعض ایسے مشیر بھی تھے کہ جنہیں تین سے چار گھنٹے ہی گاڑیوں میں بیٹھنے کی مہلت ملی ۔خصوصا حمزہ شہباز کی حلف برداری کے بعد جن وزیروں اور مشیروں کا سرکاری گاڑیاں دی گئیں وہ اسی رات ہی واپس لے لی گئیں تھیں،مسلم لیگ ن کے ان’’ لاچار‘‘ وزیروں اور مشیروں کے ساتھ اظہاریک جہتی ضرور کیا جاسکتا ہے ۔اب پی ٹی آئی کے وزراء کو بھی بخوبی اندازہ ہے کہ سرکاری گاڑیوں میں زیادہ دیر سیر سپاٹے نہیں کئے جاسکتے ء لہذاجو مل جائے اسی پر شکر ادا کیا جائے ۔کیونکہ عمران خان دس سے پندرہ لوگوں پر مشتمل پنجاب کی کابینہ چاہتے ہیں اور وہ بھی مختصر وقت کے لئے اور یہ بات چودھری پرویزالٰہی کو بھی بخوبی معلوم ہے۔لہٰذاعوام کو پنجاب حکومت سے اس وقت کے دوران فی ا لحال کوئی معجزے کی توقع نہیں رکھنی چاہیے، اگرچہ چودھری پرویز الٰہی کیلئے وزارت اعلیٰ کے دوران اپنی جماعت کو مضبوط بنیاد پر کھڑا کرنے کے موزوں مواقع دستیاب ہو سکتے ہیں ۔چودھری پرویز الہی مسلم لیگ ق کو نہ تو ختم کریں گے اور نہ ہی اس کی قیادت کسی اور کو سنبھالنے دیں گے ،کیونکہ مسلم لیگ ق سے وابستہ افراد چودھری پرویز الہی کو نہیں چھوڑ سکتے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ آئندہ ایک سے دو ہفتوں میں چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الہی کے درمیان صلح بھی ہوجائے ۔اس کے لئے مسلم لیگ ق کے سبھی حلقے اپنی اپنی کوششیں تیز کئے ہوئے ہیں۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
سیاسی ڈائری