وطن یار خلجی کوئٹہ
سانحہ پاک آرمی ہیلی کاپٹر
بلوچستان میں بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں
وزیراعظم کا درہ بلوچستان
گزشتہ روز بلوچستان میں آرمی ہیلی کاپٹر کا ایک دردناک سانحہ رونمائ ھوا جس نے بلوچستان کے ساتھ ساتھ پورے پاکستان کو غمزدہ بنا دیا۔ اس سانحے میں 12 کور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی اپنے ٹیم کے ہمراہ جام شہادت نوش کرگئے۔ہیلی کاپٹر کے اس سانحے میں 6 افراد شہید ہوگئے جن میں کورکمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی ،ڈائریکٹر جنرل پاکستان کوسٹ گارڈ میجر جنرل امجد حنیف ، کمانڈر انجنیئرز 12 کور بریگیڈیئر محمد خالد،پائلٹ میجر سعید احمد،کو پائلٹ میجر محمد طلحہ منان اور نائیک مدثر فیاض شامل تھے۔ یہ سانحہ اس وقت پیش آیا جب کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی بلوچستان کے سیلاب سے شدید متاثر ھونے والے علاقوں کے دورہ پر تھے۔ انہوں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ پورا دن سیلاب متاثرین کے ہمراہ گزارا اور اس موقع پر وہ کئی علاقوں میں گئے اور لوگوں سے ملے ان کے مسائل و مشکلات معلوم کئے اور امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا۔کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی نے پاک آرمی اور ایف سی کے جوانوں کو ہدایت کی کہ وہ امدادی سرگرمیوں میں کوئی کسر نہ چھوڑے اور دن رات ان کی خدمت کریں۔شہید کور کمانڈر نے سانحے والے دن متاثرہ خاندانوں کے بچوں کو گود بھی لیا اور ان سے باتیں بھی کیں۔سیلاب کے مارے ان خاندانوں نے کور کمانڈر کو اپنے درمیان اتنی محبت وشفقت سے پا کر خوشی کا اظہار کیا اور دعائیں بھی دیں۔مگر کسے معلوم کہ بلوچستان سے اور اس صوبے کے عوام سے محبت کرنے والے پاک فوج کا یہ عظیم آفیسر چند ہی گھنٹوں کے مہمان ھیں۔ اور اس فانی دنیا سے کوچ کر جانے والے ھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کو بلوچستان سے بے پناہ محبت تھی۔ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ھونے والے اس عظیم پاک فوج کے آفیسر شہید لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی ڈیڑھ سال سے زائد عرصے سی کور کمانڈر کوئٹہ کی حثیت سے اپنے شاندار خدمات انجام دے رہے تھے۔دسمبر 2020 میں کور کمانڈر کوئٹہ تعینات ھوئے پاک فوج کے اس عظیم سپوت سرفراز علی کو نومبر 2020 میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔شہید سرفراز علی جنوری تا دسمبر 2020 آئی جی ایف سی بلوچستان بھی رہ چکے ہیں۔جبکہ 2018 سے 2019 تک ڈی جی ایم آئی کے طور پر فرائض انجام دئیے۔ سرفراز علی 2012 میں بریگیڈیئر کے طور پر کمانڈر 111 بریگیڈبھی رھے۔ شہید لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 2 بار ایوارڈ سے جبکہ بہادری کے اعتراف میں بھی 2 بار تمغہ بسالت سے نوازا گیا۔ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کو بلوچستان سے بے پناہ محبت تھی جس کا اظہار وہ کئی مواقع پر کرچکا ھے۔ انکی خواہش تھی کہ بلوچستان امن کا گہوارہ بنے اور یہ صوبہ ترقی کے منازل طے کرکے خوشحال بلوچستان کے طور پر ابھرے۔وہ بلوچستان کے مسائل حل کرنے میں اورصوبے کے عوام کو ریلیف دینے میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ کورکمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کی شہادت کا بلوچستان کے عوام کو شدید دکھ ھوا ھے۔ بلوچستان کے عوام ان سے بڑی محبت کرتے تھے۔ قائم مقام گورنر بلوچستان میر جان محمد جمالی اور وزیر اعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو سمیت دیگر اعلی شخصیات نے ہیلی کاپٹر حادثے کو ایک بڑا سانحہ قرار دیا ھے اور کورکمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی اور دیگر شہدائ کی شہادت پر انتہائی رنج وغم کا اظہار کیا ہے۔ کور کمانڈر کوئٹہ کا ہیلی دن بھر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا فضائی و زمینی جائزہ لینے کے بعد جب کراچی کی طرف رواں تھا تو وندر کے علاقے سسی پنوں کے قریب موسم کی خرابی کے باعث حادثے کا شکار ھوا۔ ہیلی کاپٹر جس علاقے میں گر کر تباہ ھوا وہ پہاڑی سلسلوں پر مشتمل علاقہ تھا۔ خراب موسم ،اندھیرا اور پہاڑی سلسلے کی وجہ سے ہیلی کاپٹر کو ڈھونڈنے میں کافی وقت لگا۔ سرچ آپریشن میں پاک آرمی ایف سی بلوچستان اور پولیس کے علاؤہ ضلعی انتظامیہ نے بھرپور حصہ لیا۔
صحفہ نمبر 2
بلوچستان میں جولائی کے پورے مہینے میں شدید طوفانی بارشوں اور سیلاب نے ہر طرف تباھی و بربادی مچا دی ھے۔ بلوچستان پہلے کبھی کسی قدرتی آفت سے اتنا شدید متاثر نہیں ھوا تھا۔ جانی و مالی بڑے پیمانے پر نقصانات ھوئے ھیں۔ پی ڈی ایم اے نے گزشتہ روز جانی و مالی نقصانات کی رپورٹ جاری کی ھے۔ جس کے مطابق شدید بارشوں اور سیلاب سے 165 افراد جانبحق ھوچکے ھیں۔ جن میں مرد خواتین اور بچے شامل ہیں۔ جبکہ دو سو سے زائد افراد زخمی ھوئے ھیں۔ چودہ ہزار کے قریب مکانات مختلف علاقوں میں مکمل طور ہمدم ھوچکے ھیں۔ جبکہ 23 ہزار سے زائد مال ومویشی ہلاک ہوئے۔ بلوچستان میں رابطہ سڑکوں کو بری طرح نقصان اور کئی دنوں تک قومی شاہراہوں سفر کے لئے بند تھیں۔ بارشوں اور سیلابی صورتحال سے 11 پل ٹوٹ گئے 565 کلومیٹر شاہراہیں ماثر ھوئے اور سیلابی ریلوں میں بہہ گئے۔ 2 لاکھ ایکڑ کاشت فصلوں کو صوبے کے مختلف علاقوں میں نقصان پہنچا ان شدید متاثر ھونے والے اضلاع میں ڑوب، کوئٹہ ، پشین، قلعہ سیف اللہ ، قلعہ عبداللہ ، سبی ، واشک ، چمن ، آواران ، نوشکی، زیارت، شیرانی، ہرنائی، جعفراباد، ھجل مگسی ، جعفراباد، نصیرآباد، صحبت پور، ڈیرہ بگٹی ، خضدار ، مستونگ، پنجگور، کوہلو،لسبیلہ شامل ھیں۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں جاری ھیں متاثرہ خاندانوں کو اب تک 9 ہزار ٹینٹ 4 ہزار کمبل 7سو سے زائد سولر لائٹس سات ہزار مچھردانی اور 13 ہزار فوڈ پیکٹس فراہم کر چکی ھے۔ دوسری جانب پاک فوج اور ایف سی بلوچستان نے بھی بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کی بھرپور مدد کا کام پورے صوبے میں جاری رکھا ھوا ھے۔ اور امدادی اشیائ بھی متاثرہ خاندانوں میں تقسیم کئے جارھے ھیں۔ پاک فوج اور ایف سی بلوچستان نے ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی نہ صرف خود صورتحال سے نمٹنے کے لئے بھرپور اقدامات کئے ھیں بلکہ حکومت بلوچستان اور انتظامیہ کی بھی معاونت کی ھے تاکہ سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کو ریلیف دیا جاسکے۔ پاک فوج اور ایف سی بلوچستان سے راستوں کی بحالی اور سیلاب کا راستہ موڑنے اور آبادیوں کے انخلائ اور تحفظ میں شاندار قابل ستائش کارکردگی کا مظاہرہ کیا ھے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے بھی بلوچستان کے کچھ متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور حکومت بلوچستان کی جانب سے بریفننگ بھی دی گئی۔ اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے این ڈی ایم اے کو بلوچستان میں جانبحق ھونے والے ورثائ کو معاوضہ کی رقم 24 گھنٹے میں ادا کرنے کی ہدایت کی۔ جبکہ جزوی یا مکمل طور پر تبہ ھونے والے کچے اور پکے مکانات کے معاوضہ کو بھی یکساں کرکے اور بڑھا کر پانچ لاکھ روپے کرنے کی ہدایت کی۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے ایک اھم بات کی کہ ھمارا قومی المیہ ھے کہ ڈیموں کی بروقت تعمیر پر توجہ نہیں دیتے۔ جس کی وجہ سے اتنے بڑے پیمانے پر نقصانات ھوجاتے ھیں۔ اور یہ ھمارے لئے ایک چیلنج رہ جاتا ھے۔ انہوں نے متاثرہ علاقوں میں میڈیکل کیمپوں کے انعقاد پر بھی زور دیا۔چیف سیکرٹری بلوچستان عبدالعزیز عقیلی نے بتایا کہ 13 جون کو بارشوں کا پری مون سون سلسلے شروع ھوا اور تیس سال کی اوسط کے مقابلے میں بلوچستان میں تقریباً 500 فیصد زیادہ بارشیں ھوئیں۔ واضح رھے کہ ضلع قلعہ سیف اللہ کے سیلاب سے متاثرہ علاقے کے دورے کے موقع پر وزیراعظم نے متاثرہ خاندانوں کو خوراک وغیرہ بروقت نہ ملنے اور امدادی کارروائیوں میںکوتاھی پر شدید برھمی کا اظہار کیا اور وزیراعلی بلوچستان کو کہا کہ اس سلسلے میں غفلت کے مرتکب حکام کو معطل کرکے کارروائی کی جائے