کفن سروں پر باندھے ہوئے

سلام کشمیریوں کے جذبۂ حریت اور شہادت کو جس نگری میں انسانوں کو بستیوں سمیت جلایاجاتا ہو، علم حاصل کرنے والوں کو سکول اور یونیورسٹیوں، نمازیوں کومسجدوں، خواتین کو شیرخواربچوں کے ساتھ بربریت کا نشانہ بنایاجاتا ہو ، زندہ جلانا، کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کردینا عصمتیں مسمار کردینا،معصوم بچوں کے اعضاء کا کاروبار گرم کرنا،منصف کو انصاف نہ کرنے دینا، انصاف مانگنے والے کو ٹارگٹ کلنگ میں مار دینا، آواز اٹھانے والے کے گلے میں طوق ڈالنا، انسانوںکو زندان خانے میں ڈال کر تیل چھڑکنے والوں کی اس دنیا میں کون جینا چاہے گا؟ کون اپنی عزت وغیرت کے سودے پہ راضی ہوگا؟مسلمانوں کی تاریخ اتنے عبرتناک مظالم سے بھری پڑی ہے کہ امن پسند کمیٹیاں توبہ توبہ کرتی ہیں مگر یہ امن پسند کمیٹیاں یہ نام نہاد حقوق انسان کے علمبردار آخر کسی پاتال میں جابیٹھے ہیں۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے توجہ دلانے پر بھی مسلمانوں کا قتل عام نہ رکنا حکومت کا ناقابل معافی جرم ہے۔ مسلمانوں کی نسل کشی ان لوگوں کا مطمع نظر ہے۔ ہیومن رائٹس کے لیے اقوامِ متحدہ کے پاس احتجاج پہنچتا بھی ہے تو ان کی سردمہری میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ آنگ سان سوچی جس کو امن کا نوبل ایوارڈ ملا وہ بھی نجانے کن وجوہ کی بنا پر مسلمان عورتوں، بچوں، مردوں پہ ہونے والے قتل وغارت اور ان کو وراثت دینے والی بھوک، افلاس، بیماری اور ناخواندگی پہ کیوں خاموش ہے؟ اگر کہیں کوئی احتجاج کرتا بھی ہے تو اس کوزندان میں ڈال کر زنگ آلود تالے لگادیے جاتے ہیں کیا کہیں کہ جو تنظیمیں اور شخصیات انسانی حقوق کی پاسداری کا آئیکون سمجھی جاتی ہیں۔ کیا ہم ان کے بارے میں بھی یہ سوچ لیں کہ وہ انسانیت پہ کیے جانے والے مظالم کو عالمی دنیا کی مارکیٹ میں تجارت کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
نہ بھارت کے پاس گولیاں ختم ہورہی ہیں نہ یہ کشمیریوں نوجوانوں کی گولیاں کھانے والے سینے۔اب تو معصوم بچے سوچتے ہیں کہ ہمارے بابا ہمیں دشمنوں سے بچالیں گے مگر نیزے بندوق کے سامنے ایک باپ بھی بے بس ہوجاتاہے اس کے سامنے اسکے بیٹے کو زخمی کرکے گھسیٹا جاتاہے، ماں اپنے ننھے بچوں کولے کر ٹوٹے پھوٹے مکان کی کسی اوٹ میں چھپ جاتی ہے، ان معصوموں کے منہ پہ ہاتھ رکھ دیتی ہے، پھر جگنو جیسی آنکھیں کومل سوچ کے ذہن اپنے سامنے اپنے بھائی یا باپ کو ٹھوکروں کی زد میں دیکھتے ہیں، ان کی لاشوں کی بے حرمتی ان کے کاٹے جانے والے اعضاء پہ کپڑا باندھ کر ان کی مشعل بنانے پہ ہرکارے ناچتے ہیں۔ وہ پونے دو ارب مسلمان جن کے لیے مشہور ہے کہ وہ سب بابا آدم اور مائی حوا کی اولاد ہیں ایک دوسرے کے درد والم پہ بلبلا اٹھتے ہیں نجانے کس پاتال میں جاچھپے ہیں کہ ان کو خون آلود آسمان بھی منظر نہیں آتا اور ایک ہی گڑھے میں سینکڑوں مسلمانوں کی لاشیں بھی بے چین نہیں کرتیں۔
اگر کوئی شہ رگ کاٹ رہا ہو توکیاں ہم پرجنگ واجب نہیں ہوجاتی۔عالم اسلام کے لیے کتنے لمحہ فکریہ ہیں۔ کشمیر کے نہتے مسلمانوں کی عظمت اور قربانی کو سلام پیش کرتے ہوئے ہم پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کویاد کرتے ہیں۔ مختلف جگہوں میں دہشت گردی کی نذر ہونے والے اپنی قربانی کو رائیگاں جاتے دیکھتے ہیں تو سوال کرتے ہیں کہ مگر ہم جواب دینے کی ہمت نہیں جٹا پاتے۔بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور مقبوضہ وادی چنار کے فوجی محاصر ے پر مظلوم کشمیریوں سے اظہاریکجہتی کے لیے پوری قوم یوم استحصال منارہی ہے۔یوم استحصال کشمیر پہ ملک بھر میںایک منٹ کی خاموشی اختیارکی گئی تھی اور سڑکوں پر ٹریفک رک گئی تھی۔ ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن پر ایک منٹ کی خاموشی کے فوراً بعد پاکستان اور آزاد جموںوکشمیر کے قومی ترانے بجائے گئے تھے۔
بھارت کی مودی حکومت نے 5اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کو آئین میں حاصل خصوصی حیثیت ختم کردی تھی۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم اور کشمیری عوام کے خلاف بھارت کے یکطرفہ غیرقانونی اقدامات کی مذمت کے لیے متعدد تقاریب منعقد کی گئیں تھیں۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اسلام آباد میں واک کی قیادت کی تھی۔ واک کے شرکاء نے سیاہ پٹیاں باندھی رکھی تھیں پاکستان اور آزادکشمیر کے پرچم لہرائے گئے تھے۔ شرکاء سے خطاب میں صدر مملکت عارف علوی نے کہاتھاکہ بھارت کشمیریوں پر مظالم کو بند کرے۔5 اگست کے اقدامات واپس لینے تک بھارت سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔
چلو کشمیر چلتے ہیں، جنت نظیر دیکھتے ہیں
موت کا رقص دیکھتے ہیں،خون کی ہولی دیکھتے ہیں
ہنستے مسکراتے چہرے چڑھتے سولی دیکھتے ہیں
چیخوں میں سسکیوں کی صدائیں سنتے ہیں
برف پوش وادیوں میں سلگتی آہیں دیکھتے ہیں
سبزہلالی پرچم میں لپٹی لاشیں، سراپا محبت کی تصویر دیکھتے ہیں
سلگتے چناروںکی، انگاروں پرلوٹتی بے خوابی دیکھتے ہیں
ننھی ننھی آنکھوںمیں اڑتے پھرتے خواب دیکھتے ہیں
ننھے ننھے ہاتھوںمیں علم آزادی بے خوف دیکھتے ہیں
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن