ہم عرصہ دراز سے تسلسل کے ساتھ زراعت کو اپنی معیشت میں "ریڑھ کی ہڈی"قرار دیتے آرہے ہیں لیکن عملاً ہم نے زراعت کی ترقی اور کسانوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے "خالی خولی نعروں اور دعووں"کے سوا کچھ نہیں کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم اپنے کسانوں کو زیادہ پیداوار دینے والا تصدیق شدہ بیج ، ملاوٹ سے پاک کھاد ، زرعی ادویات اور ڈیزل فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں ، کسانوں کو جدید زرعی مشینری اور ٹیوب ویلوں کے لیے سستی بجلی دینے کے لیے ابھی تک ہم زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ حتیٰ کہ کسانوں کو بلا سود اور آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی کے لیے بھی کوئی جامع منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ ہماری زراعت سے عدم تو جہی کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو سکتی ہے کہ ہم آج کے دور کی جدید ٹیکنالوجی کو کسانوں کے کھیتوں تک پہنچانے میں یکسر ناکام ہو چکے ہیں۔ ہمارے زرعی سائنس دان مختلف فصلوں ، پھلوں پھولوں اور سبزیوں کی زیادہ پیداوار دینے والی اقسام کے بیج بھی تیار نہیں کر سکے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو تحقیقی مقاصد کیلئے فنڈز کی کمی ہے لیکن دستیاب وسائل سے صیح استفادہ نہ کرنا بھی تو زراعت کے ساتھ زیادتی ہے۔ دوسری طرف محکمہ زراعت کا گاوں اوریونین کونسل کی سطح تک پھیلا ہوا وسیع نیٹ ورک"اپنا اگائواپنا کھائو،" دب کے واہ رج کے کھا " کے سلوگن کو دیواروں پر لکھنے سے آگے نہیں بڑھ سکا۔زراعت کے بارے میں عرصہ دراز سے یہ بے بنیاد پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ یہ شعبہ ٹیکس نہیں دیتا حالانکہ زرعی شعبہ کو تمام تر مالی مشکلات کے باوجود زمین کی تیاری سے لے کر پیداوار کی فروخت تک کے ہر ہر مرحلے پر ٹیکس ادا کرنا پڑتے ہیں۔ حکومت زراعت پر ریکارڈ ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے میں اس لیے بھی کامیاب رہتی ہے کہ بیچارے کاشتکاروں کی آواز حکومتی ایوانوں تک نہیں پہنچ پاتی جبکہ صنعتی اور تجارتی شعبے کی انجمنیں اس قدر طاقت ور ہیں کہ وہ حکومت کی جاری کردہ کسی بھی پالیسی کو یکسر تبدیل کروانے اور ہر طرح کی ریلیف حاصل کرنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں منتخب ہو کر آنیوالے ممبران کی زیادہ تر تعداد دیہی علاقوں سے ہی تعلق رکھتی ہے۔ اسکے باوجود انہوں نے کبھی زراعت اور کسانوں کو درپیش مسائل حل کروانے کے لیے آواز بلند نہیں کی۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج ملک میں ہر طرف لہلہاتی فصلوں کی جگہ دھڑا دھڑ رہائشی سکیمیں بن رہی ہیں جس سے ملک کی مجموعی زرعی پیداوارکا گراف بھی نیچے جارہا ہے لیکن کسی کو بھی ملک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات پورا کرنے کا احساس تک نہیں ہے۔ یہ بات کس قدر حیران کن ہے کہ ہمارے کل کے چھوٹے چھوٹے گاوں اور قصبوں نے شہروں کی شکل اختیار کر لی ہے اور ہر طرف لاکھوں کی تعداد میں چھوٹی بڑی رہائشی کا لونیاں بن چکی ہیں لیکن زرعی اعدادوشمار کے مطابق ہمارا زیرِ کاشت رقبہ گزشتہ 35/40سالوں سے ایک جیسا ہی یعنی تقریباً 22.6ملین ہیکٹر ہی چلا آرہا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ رہائشی سکیمیں فضامیں معلق ہیں کہ اِن سے ہمارے زرعی زیرِ کاشت رقبے میں "رتی بھر "بھی کمی نہیں ہوئی۔ ہمارے سرکاری اعدادو شمار یہ بتاتے ہیں کہ گزشتہ 35/40 سالوں میں قابلِ کاشت رقبے جس پر مختلف عوامل کی وجہ سے فصلیں کاشت نہیں کی جاسکیں۔ اس کی مقدارمیں بھی کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ بھی کڑوا سچ ہے کہ ہماری زراعت کے سب سے اہم شعبے لائیوسٹاک کے اعدادو شمار گزشتہ 30سالوں سے 23.34ملین بھینسیں 22.42ملین گائیں 49.14ملین بکریاں اور 24.24ملین بھیڑوں میں بھی کوئی قابلِ ذکر کمی بیشی نہیں ہوئی۔ ماہرین معیشت کا یہ کہنا ہے کہ کسی بھی شعبے کی جامع منصوبہ بندی کرنے کے لیے اعدادوشمار کا درست ہونا بنیادی کردار ادا کرتا ہے لیکن ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہمارے سرکاری اعدادو شمار، پالیسیاں اور منصوبہ سازی کلی طور پر "ڈنگ ٹپاو اور فرضی"ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری زراعت سمیت ہر شعبے میں ہمیشہ بحرانی کیفیت رہتی ہے۔ ہم اس حقیقت کو جان بوجھ کر فراموش کر دیتے ہیں کہ ہم ایک زرعی ملک ہیں اور ہماری معیشت کا تمام تر دارومدار زراعت پرہے۔ یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ ہماری ترقی کا ہر راستہ زراعت سے ہی وابستہ ہے۔ ہماری جی ڈی پی میں اس شعبے کا حصہ 20فیصد، کل لیبر فورس کا 45فیصد اور کل برآمدات میں 60سے 70فیصد حصہ براہ را ست یا بلواسطہ زرعی شعبے کا ہی مرہونِ منت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ تمام تر مشکلات اور مسائل کے باوجود ہمارے زراعت کے شعبے میں اس قدر صلاحیت موجود ہے کہ یہ ملک کو بھاری قرضوں سے نجات دلا سکتا ہے۔ لیکن کبھی کسی نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی۔ یہ انتہائی خوش آئیند بات ہے کہ "پاکستان کے سپہ سالار "جنرل سیدعاصم منیر نے یہ "تاریخی اعلان"کیا ہے کہ ملک میں "زرعی انقلاب "آکر رہے گا اور ہم گرین انیشیٹو پروگرام (GREEN INITIATIVE)کے دائرہ کار کو پورے ملک میں پھیلائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ قرضوں سے نجات ضروری ہے ہمیں"کشکول باہر اٹھا کر پھینکنا ہے"اور کوئی طاقت ہمیں ترقی سے نہیں روک سکتی۔ وزیرِ اعظم جناب شہباز شریف نے بھی زرعی خود کفالت کے لیے ہر طرح کے اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تصدیق شدہ زمینی حقائق کی روشنی میں مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ ہم اپنے شعبہ زراعت اور لائیوسٹاک کی ترقی پر ترجیحی بنیادوں پر کام کر کے خود کفالت اور زرعی خوشحالی کی منزل کو پا سکتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ معجزہ دکھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے پناہ وسائل سے نوازا ہے ، زمین میں چھپے ہوئے بیش بہاء خزانے، چاروں موسم، خوشگوار اور موزوںآب و ہوا ، سونا اگلتی زرخیز زمینیں ، بہترین نظام آبپاشی اور محنتی کسان یقینا قدرت کے ہمارے لیے انعامات ہی تو ہیں اب یہ ہمارا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطاء کردہ ان نعمتوں سے بھر پور استفادہ کر کے ملک و قوم کو مضبوط اور خوشحال بنا دیں۔ اس مقصد کے حصول -کے لیے حکومت، اسکے پالیسی سازوں ، زرعی سائنس دانوں ، محکمہ زراعت و لائیوسٹاک کے عملے اور کاشتکاروں کو اپنی اپنی ذمہ داریاں قومی خدمت کے جذبے کے تحت ادا کرنا ہو نگی۔
حکومت کو مختلف فصلوں کی زیادہ پیداوار دینے والے اقسام کی تیاری کے لیے تحقیق کی مد میں دل کھول کر فنڈ مختص کرنا ہونگے، کھاد، زرعی ادویا ت اور ڈیزل میں ملاوٹ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ جب تک ہم اپنے دیہی علاقوں کو ترقی نہیں دینگے اور کسانوں کے مسائل حل کرنے اور انہیں تمام بنیادی سہولتیں نہیں دیں گے اْس وقت تک زرعی خود کفالت کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
٭…٭…٭