معزز قارئین ! 10 محرم اْلحرام 1445ھ (29 جولائی 2023ء کو پاکستان اور بیرون پاکستان اسلامی ممالک میں ’’سانحہ کربلا‘‘ کی تاریخ کو اپنے اپنے انداز میں عظمت و احترام سے منایا جا رہا تھا۔ محرم اْلحرام کے اختتام تک عزت و احترام کا سلسلہ جاری رہے گا۔
’’اہل بیت!‘‘
معزز قارئین ! "Wikipedia" کے مطابق ’’اہلِ بیتؓ‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’گھر والے‘‘ کے ہیں۔ انہیں پنج تن پاک بھی کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کفار سے مباہلہ کرنے کے لیے نکلے تو یہی حضرات آپ کے ساتھ تھے۔ ایک دفعہ آپ نے ان حضرات کو اپنی چادر میں لے کر فرمایا (اے اللہ، یہ میرے اہل بیت ہیں۔) لفظ ‘اہل نسبی رشتے داری کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور ایمانی تعلق کے لیے بھی۔ نسبی رشتے داری مراد ہو تو دیگر رشتے داروں کے ساتھ ساتھ اس سے مراد بیوی بھی ہوتی ہے بلکہ بیوی سب سے پہلے اہل نسب میں آتی ہے۔
اہلِ بیت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ آل و اولاد ہے جن پر صدقہ حرام ہے ، ان میں سیدنا علی کی اولاد، سیدنا جعفر کی اولاد، سیدنا عقیل کی اولاد، سیدنا عباس کی اولاد، بنو حارث بن عبدالمطلب اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام ازدواجِ مطہرات اور بنات طاہرات رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔
’’ شہادت ِ امام حسینؓ کے بعد!‘‘
معزز قارئین ! سانحہ کربلا کے بعد حضرت امام حسینؓ، اْن کے خاندان اور ساتھیوں کی شہادت کے بعد اسلام کو زندہ رکھنے میں ، ’’پیغمبرانسانیت ‘‘ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کی نواسی ’’باب اْلعلم‘‘ حضرت علی مرتضیٰؓ اور خاتون جنت حضرت فاطمتہ اْلزہرا کی بیٹی حضرت بی بی زینبؓ نے ناقابلِ فراموش انداز میں مدینہ سے کربلا اور کربلا سے شام تک شْہدا ء کی بیوائوں اوریتیم بچوں کو اپنی سرپرستی میں لے کر سیّدہ زینب ؓ کا سفرِ کوفہ اور شام کے بازاروں میں اْن کی تقریروں، یزید کے دربار میں فصیح و بلیغ خطبوں اور برجستہ جوابات کے بارے مورخین لکھتے ہیں کہ ’’ایسا معلوم ہوتا تھا گویا حضرت علی مرتضیٰؓ خطبہ دے رہے ہیں !‘‘۔
’’ علیؓ کی بیٹی ؓ سلام تْم پر!‘‘
معزز قارئین ! کئی سال ہْوئے مَیں نے حضرت بی بی زینب? کی عظمت بیان کرتے ہْوئے نظم لکھی تھی ملاحظہ فرمائیں…
علیؓکی بیٹیؓ، سلام تْم پر!
…O…
خْدا کی رحمت، مَدام، تْم پر!
رِدائے خَیراْالاَنام، تْم پر!
بتْولؓ کا، نْورِ تام، تْم پر!
علیؓ کی بیٹیؓ، سلام تْم پر!
…O…
قبیلہء پَنج تنؓ کی، عظمت!
اے نیک خْو! بِنتِ بابِ حِکمت!
ثناگری، صْبح و شام، تْم پر!
علیؓ کی بیٹیؓ، سلام تْم پر!
…O…
جہاں کو پیغام ِ حقّ سْنایا!
حْسینَیِتؓ کا عَلم اْٹھایا!
ہوں کیوں نہ ، نازاں اِمامؓ تْم پر!
علیؓ کی بیٹیؓ، سلام تْم پر!
… O …
مْلوکِیت، جیسے غم کدہ، تھی!
یزِیدیت، زَلزلہ زدہ، تھی!
ہے ختم، زورِ کلام، تْم پر!
علیؓ کی بیٹیؓ، سلام تْم پر!
…O…
وفا کے پَیکر شْمار ہوتے!
وہاں جو ہوتے نِثار ہوتے!
نبی کے سارے غْلام تْم پر!
علیؓ کی بیٹیؓ، سلام تْم پر!
…O…
اثر جو پایا، اشارہ ربّ!
تو رکھّا، نانا نے، نام زَینب!
ہے خْوب سجتا ہے، نام تْم پر!
علیؓ کی بیٹیؓ، سلام تْم پر!
…O…
’’ دربار یزید میں اسیرانِ اہل بیتؓ!‘‘
معزز قارئین ! ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے عقیدے کے مطابق ،ربّ ِعظیم اور اْس کے محبوب / محبوب ترین ، اور برگزیدہ بندوں کو یاد کرنے میں مصروف رہتے ہیں کہ شاید اْن کی دْعائوں سے ربّ اْلعالمین، دْنیا میں پھر سے امن اور سکون کا ماحول پیدا کردیں؟ مختلف تواریخ میں لکھا ہے کہ ’’ امام اْلانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم نے فرمایا تھا کہ ’’ میرے فرزند حسین ؓ ابن علی ؓ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوگا ، جس کا نام علیؓہوگا اور وہ قیامت کے دِن سیّد اْلعابدین ؓ کے لقب سے پکارا جائے گا ‘‘۔ امام زین اْلعابدینؓ 9 شعبان اْلمعظم 38 ہجری کو مدینہ منّورہ میں پیدا ہْوئے تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ ملک فارس (ایران) کے آخری بادشاہ یزد جرد (یز دگرد)کی بیٹی تھیں ، جن کا نام شہر بانو تھا۔ 10 محرم 61 ہجری کو سانحہ کربلا ہْوا۔
معزز قارئین ! دربار ِ یزیذ میں اسیرانِ اہل بیتؓ موجود تھے۔ اْسی وقت مسجد سے اذان کی آواز آئی تو حضرت زین اْلعابدینؓ نے یزید کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ’’اب تْم بتائو کہ فی الحقیقت حکومت کس کی ہے؟ اگرچہ تْم تخت پر بیٹھے ہو لیکن ببانگ ِ دْہل نام میرے بابا ؓکے نانا سیّد اْلمرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کا لِیا جا رہا ہے۔ تمہاری حکومت صِرف چند روزہ ہے جب کہ مسلمان ہمارے فضائل و مناقب قیامت تک بیان کریں گے‘‘۔
معزز قارئین! میرے جدّی پْشتی پیر ومْرشد خواجہ غریب نواز کے مْرشد حضرت داتا گنج بخش نے اپنی ’’کشف اْلمحجوب‘‘ میں فرمایا ہے کہ ’’ حضرت زین اْلعابدین ؓ وارث ِ علوم نبوت ، چراغ امت، تمام عبادت گذاروں کی زینت اور اہل معرفت کیلئے مشعلِ راہ ہیں۔اْس روشنی میں حضرت زین اْلعابدین ؓکی منقبت پیش خدمت ہے…
مَسجْود بھی ہے خَنداں کہ سجّادؓ ، آگئے
…O…
شاہانِ اہل بَیت کے ، شَہزادؓ ، آگئے!
مَسجْود بھی ہے خَنداں ، کہ سجّاد ، آگئے!
…O…
پِھر ، آفتابِ رْشد و ہَدایَت ، ہْوا طْلوع!
اِنسان بن کے ، اَمرِ خْداداد ، آگئے!
…O…
خْوش ہو کے ، شہر بانو سے ، کہنے لگے ، حسینؓ!
لو ! پاسبانِ عَظمتِ اَجداد ، آگئے!
…O…
پا کر خبر شِتاب ، ہْوا قْدسِیوں میں ، شور!
’’چَشمہ خَیر ، صاحبِ اِرشادؓ ، آگئے!
…O…
مِینار نْور ، مَشعل نہج اْلبلاغہ ہیں!
اہلِ صَفَا کے مْرشد و اْستادآگئے!
…O…
وہ آگئے ، مْفسّرِ معراجِ مصطفی !
اَوصافِ ذْوالجلال کے ، حَمّاد ، آگئے!
…O…
یاد آئے جب نبِیرہ مَولا علیؓ اثر!
سب مومنِینؓ کرب و بَلا ، یاد آگئے!
٭…٭…٭